حد یں اور تعز یر یں

حد یں اور تعز یر یں

 

اللہ تعالی ہر گناہ معاف کر سکتا ہے مگر ہر گناہ پر پکڑ بھی کر سکتا ہے۔ دنیا میں توبہ کی قبولیت کی صرف ایک نشانی ہے کہ جب اللہ کریم کسی کی توبہ قبول کر لیتا ہے تو اُس کو رسول اللہ ﷺ کی محبت عطا کر دیتا ہے اور فرماتا ہے جا تجھے بخش دیا۔
ایک گناہ چھوٹنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم پرہیزگار ہو گئے بلکہ ہر گناہ چُھوٹ جانے کا مطلب ہے کہ ہم فرمانبردار ہو گئے۔ البتہ دنیا میں اگر کوئی گناہ کرتے پکڑا جائے تو اُس پر حد لاگو کرنا ضروری ہے۔
ابن ماجہ 2537: "اللہ تعالی کی حد و د میں سے کسی ح د کا نافذ کرنا اللہ تعالی کی زمین پر چالیس راتیں بارش ہونے سے بہتر ہے”۔
سزائیں
1۔ کچھ سزائیں بندوں کے اختیار میں ہیں جن کو کفارہ کہا جاتا ہے جیس قسم کا کفارہ، منت کا کفارہ، روزہ توڑنے کا کفارہ۔
2۔ وہ حد جو قرآن اور رسول کے فرمان سے ثابت ہیں ان میں قانون سازی نہیں ہے جیسے چو ری ، ز نا ، اور شر ا بی کی سزائیں
3۔ وہ تعزیرجنہیں متعین نہیں کیا مگر ہر برائی کو جرم قرار دے کر حاکم وقت خود سزا متعین کر سکتا ہے۔
سزائیں: جان بوجھ کرمار دینے (ق ت ل) پرسورہ بقرہ 179 – 178 آیات اور سورہ نساء 93 پڑھیں، غلطی سے مارا (ق ت ل) جانے کی بابت سورہ نساء 92 پڑھیں، ڈ ا کہ ز نی کی سورہ المائدہ 33 – 34 پڑھیں، چو ری کی سورہ المائدہ 120، ز نا کی سورہ النور 2 اور ز نا کی تہمت لگانے کی سزا سورہ نور 4 میں، اور د ین سے پھر جانے کی سزا سورہ مائدہ 33 میں پڑھیں۔
فائدہ: یہ سز ا ئیں بندوں کو گناہوں میں مبتلا ہونے سے روکتی ہیں اور ان کا خوف انسان اور جرم کے درمیان حائل رہتا ہے۔ اگر اس قانون پر عمل نہ کیا جائے تو خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے فساد پھیل جاتا ہے۔
معافی: حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم آپس میں اپنے معاملات میں ایک دوسرے کو معاف کر دیا کرو اس سے پہلے کہ ان کی خبر مجھ تک پہنچے، ہاں اگر اطلاع مجھ تک پہنچ جائے اور وہ ثابت ہو جائے تو پھر اس پر حد جاری کرنا فرض ہو جائے گا“۔ (ابوداود 4376، نسائی 4889)
نتیجہ: ح د حقوق اللہ سے ہیں جس میں کسی بندے کو تصرف (ترمیم و تبدیلی) کی اجازت نہیں جبکہ تعز یرات حقوق العباد میں سے ہے جس میں معافی، تبدیلی، زیادتی اور کمی کی جا سکتی ہے جیسے قت ل کا بدلہ قت ل ہے مگر اپنے اختیار سے مجرم کو معاف کر سکتا ہے، اسلئے اس کو بھی حد نہیں کہا جا سکتا۔ اسلئے قصا ص و ح د کے درمیان فرق یہ ہے کہ قصا ص میں مقتول کے والی قاتل کو معاف کریں تو حاکم کو سزا نافذ نہیں کرنی جبکہ حد ود (ز نا) میں معاملہ حاکم کے پاس پہنچ جائے تو سچ ثابت ہونے کے بعد حاکم پر نافذ کرنا لازم ہے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general