ضیافتِ حضرت سلیمان

ضیافتِ حضرت سلیمان

 

حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں یہ واقعہ مشہور ہے کہ آپ نے ایک دفعہ تمام مخلوقات کے لئے دعوت کا اہتمام کیا، کئی دنوں تک دعوت کی تیاری کی، جب سب کچھ تیار ہوا، تو ایک مچھلی نے آکر سارا کھانا کھا لیا، اب امر مطلوب یہ ہے کہ یہ واقعہ کس حد تک درست ہے ؟
یہ واقعہ جناب عبدالرحمٰن الصفوری الشافعی، مورخ و ادیب ( المتوفی: 894ھ) نے اپنی کتاب "نزہۃ المجالس، ج 1 ص 439” پربغیر کسی سند و حوالے کے لکھا ہے، کسی بھی مستند کتاب میں اس کا حوالہ موجود نہیں ہے بلکہ یہ یہود و نصاری کی کسی کتاب سے لیا گیا ہے جس کے متعلق ارشاد رسول اللہ ﷺ ہے:
صحیح بخاری 4485: حضرت ابوہریرہ نے بیان کیا کہ اہل کتاب (یہودی) توراۃ کو خود عبرانی زبان میں پڑھتے ہیں لیکن مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے ہیں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”تم اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تم تکذیب کرو بلکہ یہ کہا کرو «آمنا بالله وما أنزل إلينا» یعنی ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس چیز پر جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے۔
1۔ اہل کتاب کی کتابوں سے نقل کئے گئے واقعات و روایات کو اسرائیلیات کہا جاتا ہے، چونکہ یہود و نصاری اپنی کتابوں میں تبدیلی کر چکے ہیں، اس لئے ان روایات پر مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ محدثین نے اسرائیلیات کی تین قسمیں بیان کی ہیں:
پہلی قسم: اگر ان واقعات میں کوئی ایسی بات ہو جو قرآن و حدیث کے مخالف ہو تو اس کو بیان کرنا جائز نہیں۔
دوسری قسم: اس میں کوئی ایسی بات ہو جس کی تصدیق ہمیں قرآن و حدیث سے ملتی ہو تو ایسی روایات کا بیان کرنا اور تصدیق کرنا جائزہے جیسے اسطرح کا کوئی واقعہ ہو:
صحیح بخاری 3427: نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دو عورتیں تھیں اور دونوں کے ساتھ دونوں کے بچے تھے۔ اتنے میں ایک بھیڑیا آیا اور ایک عورت کے بچے کو اٹھا لے گیا۔ ان دونوں میں سے ایک عورت نے کہا بھیڑیا تمہارے بیٹے کو لے گیا ہے اور دوسری نے کہا کہ تمہارے بیٹے کو لے گیا ہے۔ دونوں داؤد علیہ السلام کے یہاں اپنا مقدمہ لے گئیں۔ آپ نے بڑی عورت کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ اس کے بعد وہ دونوں سلیمان بن داؤد علیہ السلام کے یہاں آئیں اور انہیں اس جھگڑے کی خبر دی۔ انہوں نے فرمایا کہ اچھا چھری لاؤ۔ اس بچے کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کے درمیان بانٹ دوں۔ چھوٹی عورت نے یہ سن کر کہا: اللہ آپ پر رحم فرمائے ایسا نہ کیجئے، میں نے مان لیا کہ اسی بڑی کا لڑکا ہے۔ اس پر سلیمان علیہ السلام نے اس چھوٹی کے حق میں فیصلہ کیا۔
تیسری قسم: ان میں ایسی کوئی بات ہو جس کی تصدیق ہمیں قرآن و حدیث سے نہ ملتی ہو لیکن قرآن و حدیث سے متصادم بھی نہ ہو، اس جیسی روایات کی نہ تو ہم تصدیق کریں گے اور نہ تکذیب، البتہ ان کے بیان کرنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اسے حدیث کے عنوان سے بیان نہ کیا جائے۔
2۔ یہ واقعہ اسرائیلیات کی تیسری قسم میں سے ہے کیونکہ اس کی تصدیق ہمیں قرآن و حدیث سے نہیں ملتی ہے، البتہ اس میں کوئی ایسی بات ذکر نہیں جو قرآن و حدیث سے متصادم ہو کیونکہ بہت سے اختیارات حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس تھے:
سورہ الانبیاء 81 – 82: وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيْحَ عَاصِفَةً تَجْرِىْ بِاَمْرِهٓ ٖ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِىْ بَارَكْنَا فِيْـهَا ۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَىْءٍ عَالِمِيْنَo وَمِنَ الشَّيَاطِيْنِ مَنْ يَّغُوْصُوْنَ لَـهٝ وَيَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِكَ ۖ وَكُنَّا لَـهُـمْ حَافِظِيْنَ ترجمہ: اور تیز ہوا کوسلیمان کے لیے تابع بنادیا جو اس کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی تھی اور ہم ہر چیز کو جاننے والے ہیں۔ اور کچھ جنات کو (سلیمان کے تابع کردیا) جو اس کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے علاوہ دوسرے کام بھی کرتے اور ہم ان جنات کو روکے ہوئے تھے۔
نتیجہ: لہذا اس جیسے واقعہ کو حدیث کا عنوان دیئے بغیر بیان کرنے کی گنجائش ہے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general