فقہی اصطلاحات
شریعت کچھ کام یا اعمال کرنے کا حُکم دیتی ہے اور کچھ سے بچنے کا حُکم دیتی ہے۔ البتہ حُکم ماننے اور رُکنے میں بھی درجہ بندی ہے۔ فقہاء کرام نے نصوص میں غور کرکے فرض، واجب، سنت، مستحب، وغیرہ "اصطلاحات” مختلف الاقسام احکام کی پہچان کے لیے مقرر کی ہیں، جس کی وجہ سے آج اُمت کے لیے اُن کو سمجھنا، سمجھانا اور ان پر عمل کرنا آسان ہے۔
اللہ کریم کا وہ حکم جو بندوں کے اعمال و افعال سے متعلق ہیں ان کو فقہاء کرام نے 8 قسموں میں تقسیم کیا ہے:
1۔ فرض: ایسی دلیل سے ثابت ہو جس میں کوئی شُبہ نہ ہو یعنی قرآن کی وہ مفسر اور واضح آیات اور احادیث متواتر جن کا مفہوم قطعی ہو۔ اُس پر عمل کرنا فرض ہے اور بغیر کسی وجہ کے اس پر عمل نہ کرنے والا فاسق، عذاب کا مستحق اور اس کو فرض نہ ماننے والا مسلمان نہیں رہتا۔ البتہ اس فرض کی بھی 2 قسمیں ہیں:
فرض عین: جس کا کرنا ہر ایک پر ضروری ہو جیسے 5 وقت کی نماز اور جمعہ کی نماز وغیرہ۔
فرض کفایہ: جس کا ادا کرنا ہر مسلمان پر لازم نہیں بلکہ چند مسلمانوں کے ادا کرنے سے ادا ہوجاتا ہے لیکن اکر کوئی بھی ادا نہ کرے تو سب گنہگار ہوں گے جیسے نماز جنازہ وغیرہ۔
2۔ واجب: قطعی الثبوت اور ظنی الدلالۃ جیسے مُاَوَّل آیات۔ اس کا بلا عذر تارک فاسق اور مستحق عذاب ہے بشرطے کہ بغیر کسی تاویل اور شبہ کے چھوڑ دے، اس کا منکر فاسق ہے۔
مؤول کی تعریف:جب غالب رائے سے مشترک کے کسی ایک معنی کو ترجیح حاصل ہو جائے تو اسے مُاَوَّل کہتے ہیں جیسے اللہ تبارک و تعالی نے ارشاد فرمایا: حَتّٰی تَنۡکِحَ زَوْجًا غَیۡرَہٗ ترجمہ: ”جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے۔ (البقرۃ: 230)
لفظ ” نکاح” کا معنی عقد (شادی) بھی ہے اور” وطی” بھی، غالب رائے سے یہاں ایک معنی یعنی ”وطی” مراد لیا گیا تواس آیت میں موجود لفظ نکاح مُاَوَّل ہو گیا یعنی اس کا ایک معنی غالب رائے سے ترجیح پا گیا۔
نوٹ: غالب رائے سے مراد قیاس سے حاصل ہونے والا ظن یا خبر واحد یا نصوص میں موجود دیگر قرائن ہیں۔ مؤول پر عمل کرنا واجب ہے، اس کے منکر کو فاسق کہتے ہیں لیکن بے ایمان نہیں کہتے۔
3۔ سنت: حضور ﷺ یا صحابہ کرام نے جو کیا ہو اُس کو سنت کہتے ہیں۔ سنت کی دو قسمیں ہیں:
1۔ سنت موٴکدہ: حضور ﷺ یا صحابہ کرام نے ہمیشہ کیا ہو، اور بلا عذر کبھی ترک نہ کیا ہو، لیکن ترک کرنے والے پر نکیر بھی نہ کی ہو، اس کو بلا عذر ترک کرنے کا عادی اور اس کا منکر فاسق اور گنہگار ہے، ہاں اگر کبھی چھوٹ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ترک سنت کا گناہ واجب سے قدرے کم ہے۔ سنت موٴکدہ کی پھر دو قسمیں ہیں:
سنت عین: وہ ہے جو ہر ایک کو کرنا چاہیے جیسے صلوة تراویح وغیرہ۔
سنت کفایہ: وہ ہے جو بعض لوگوں کے ادا کرنے سے ادا ہوجائے، ہر ایک کا کرنا ضروری نہ ہو، جیسے: ہر محلے میں تراویح کی جماعت وغیرہ۔
2۔ سنت غیر موٴکدہ: حضور ﷺ یا صحابہ کرام نے کیا ہو، اور بلا عذر ترک بھی کیا ہو، اس کا کرنے والا ثواب کا مستحق، اور اس کا تارک مستحق عذاب نہیں، اس کو سنت زائدہ اور سنت عادیہ بھی کہتے ہیں۔
4۔ مستحب: حضور ﷺ یا صحابہ کرام نے کبھی کیا ہو، اور کبھی ترک کردیا ہو، اس کا کرنے والا مستحق ثواب، اور نہ کرنے والا مستحق عذاب نہیں، اس کو نفل اور تطوع بھی کہتے ہیں، اس کا درجہ سنتِ غیر موٴکدہ سے قدرے کم ہے۔
5۔ حرام: قطعی دلیل سے ثابت ہو، اس کا منکر مسلمان نہیں اور بلا عذر کرنے والا فاسق اور مستحق عذاب ہے، یہ فرض کے مقابل ہے۔
6۔ مکروہ تحریمی: ظنی دلیل سے ثابت ہو، اس کو بلا عذر کرنے کا عادی اور اس کا منکر فاسق اور گنہگار ہے، اس کا گناہ ترکِ سنت موٴکدہ کے برابر ہے اور یہ واجب کے برابر ہے۔
پوائنٹ: قطعی الثبوت اور ظنی الدلالۃ جیسے مُاَوَّل آیات یا اس کے برعکس ہے (یعنی ظنی الثبوت اور قطعی الدلالۃ) جیسے وہ اخبار احاد جن کا مفہوم قطعی ہے، اس سے واجب اور مکرو تحریمی ثابت ہوتے ہیں۔
7۔ مکروہ تنزیہی: جس کے نہ کرنے میں ثواب اور کرنے میں عذاب نہ ہو۔
8۔ مباح: وہ جس کا کرنا اور نہ کرنا یکساں ہو۔
مزید وضاحت احادیث سے
صحیح بخاری 2051: حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔۔۔۔۔۔۔۔الخ۔‘‘
حلال: روٹی، میوہ جات اور ان کے علاوہ دوسری کھانے کی چیزیں، اسی طرح بات چیت، دیکھنا، نکاح کرنا اور چلنا وغیرہ جیسے اعمال نص قطعی سے ثابت ہیں کہ حلال ہیں۔
حرام:شراب، خنزیر، مردار، بہنے والا خون اور اسی طرح زنا، جھوٹ، غیبت، چغل خوری، بے ریش اور اجنبی عورت کو دیکھنا اور اسی طرح کے دوسرے اعمال نص قطعی سے ثابت ہیں کہ منع ہیں۔
ترمذی 1790: نبی کریم ﷺ سے گوہ کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: میں نہ تو اس کو کھاتاہوں اور نہ حرام کرتا ہوں۔
حلال اور حرام کے درمیان بھی ایک درجہ ہے جس کو فقہاء کرام "مکروہات” کہتے ہیں اور گوہ اسی درمیانی درجہ کی چیز ہے۔ فقہائے احناف کے نزدیک گوہ کا کھانا مکروہ ہے۔
مکروہ کی قسمیں
مکروہِ تنزیہی: جس میں ممانعت کے مقابلہ میں اجازت کے دلائل غالب اور قوی ہوتے ہیں، اس بنا پر وہ حرام کے مقابلہ میں حلال کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
مکروہِ تحریمی: اس میں ممانعت کے دلائل غالب اور قوی ہوتے ہیں اوراس وجہ سے وہ حرام کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
پہلی قسم کا حکم یہ ہے کہ اس سے اجتناب بہتر اور باعث اجر و ثواب ہے، البتہ ارتکاب کی صورت میں گناہ نہیں ہوتا۔ اور دوسری قسم کا حکم یہ ہے کہ اس سے اجتناب ضروری ہے اور اس کا مرتکب گناہ کا مستحق ہوتا ہے۔
مزید وضاحت
امام مالک، حنبل اور شافعی کے نزدیک فرض اور واجب میں کوئی خاص فرق نہیں ہیں لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک باریک فرق ہے۔
فرض: جو احکام قرآن و متواتر حدیث سے ثابت ہونگے وہ فرض قرار دئیے جائینگے جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ۔
واجب: وہ احکام ہوتے ہیں جو کہ علم ظنی (بمعنی ظن غالب) سے ثابت ہونگے اور علم ظنی کا ماخذ خبر آحاد ہیں۔ یعنی جو احکام اخبار آحاد سے ثابت ہونگے وہ واجب ہونگے جیسے داڑھی، وتر، قربانی، وغیرہ۔
اسی طرح سے قرآن و حدیث میں موجود ہر حکم جو بصیغہ امر ہوگا وہ فرض و واجب مانا جائے گا یہاں تک کہ کوئی دوسرا قرینہ اس کے استحباب پر دلالت نہ کرے جیسے کہ قرآن میں لین دین کے معاملے میں گواہان مقرر کرنے کا حکم موجود ہے لیکن کئی مواقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے بغیر گواہان مقرر کئے بھی لین دین کیا ہے سو صحابہ کرام کا یہ عمل قرآن کے اس حکم کو فرض یا واجب سے استحباب کے درجے پر لے آتا ہے۔
بالکل ایسے ہی احادیث میں بیٹھ کر پانی پینے کا حکم موجود ہے لیکن بعض روایات میں سیدہ عائشہ، سیدنا علی رض، سیدنا سعد بن ابی وقاص رضوان اللہ اجمعین کا عمل ملتا ہے کہ انہوں نے کھڑے ہوکر بھی پانی پیا سو انکا یہ عمل بیٹھ کر پانی پینے کے عمل کو مندوب ٹھہراتا ہے۔
نوٹ: ہمارے یہاں جو اعمال فرض ہیں، اُس پر عمل عوام نہیں کرتی لیکن جو مستحب ہیں جیسے اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، قل چہلم، تیجہ، دسواں، میلاد و عرس، جنازے کے بعد دعا وغیرہ اُس پر لڑتی ہے حالانکہ علمی طور پر مستحب مگر عملی طور پر عوام فرض سمجھ کر کرتی ہے۔