پُل صراط اور سیدہ فاطمہ
جہنم کے اوپر کے پُل صراط پر گذرنا کوئی مشکل نہیں بلکہ مشکل اس دُنیا کے پُل صراط پر گذرنا ہے یعنی اس دُنیا میں اللہ کریم کے حُکم پر چلنا آخرت کے پُل صراط پر تیزی سے گذرنا ہے۔ اسلئے مشکل جہنم کے اوپر والا پُل صراط نہیں ہے بلکہ اس دنیا کا پُل صراط ہے جس کو ہم سمجھ نہ پائے جیسے آپ آخرت میں بخشش چاہتے ہیں کہ دُنیا سے بخشے بخشائے جانا چاہتے ہیں؟
عقیدہ: عقیدہ ”صِراط“ حق ہے۔ اس پر ایمان لانا واجب (شرح الصاوی علی جوہرۃ التوحید، ص 389) اور اِس کا انکار گمراہی ہے۔ (المعتقد مع المعتمد، ص 335) اس پُل سے گزرے بغیر کوئی جنت میں نہیں جا سکتا کیونکہ جنت میں جانے کا یہی راستہ ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، ج 2، ص 15) عقیدہ قرآن و احادیث سے بنتا ہے:
دوزخ سے گذرنا: اور تم میں کوئی ایسا نہیں جس کا گزر دوزخ پر نہ ہو، تمہارے ربّ کے ذمہ پر یہ ضرور ٹھہری ہوئی بات ہے۔ (سورہ مریم 71) ہر نیک و بد نے جہنم کے اوپر یا اُس کے اندر داخل ہو کر گذرنا ہے۔
حضور ﷺ نے فرمایا: جن لوگوں نے بیعت رضوان کی ہے اگر اللہ چاہے تو ان میں سے کوئی بھی جہنم میں نہ جائے گا تو سیدہ حفصہ نے سورہ مریم 71 پڑھ کر اعتراض کیا تو نبی کریم ﷺ نے سورہ مریم 72 پڑھ کر سمجھایا ”پھر ہم نجات دیں گے پرہیز گاروں کو اور چھوڑ دیں گے ظالموں کو گھٹنوں کے بل”۔
نیک اعمال: لوگ جہنم میں جائیں گے، پھر اس سے اپنے نیک اعمال کے سہارے نکلیں گے، پہلا گروہ (جن کے اعمال بہت اچھے ہوں گے) بجلی چمکنے کی سی تیزی سے نکل آئے گا۔ پھر ہوا کی رفتار سے، پھر گھوڑے کے تیز دوڑنے کی رفتار سے، پھر سواری لیے ہوئے اونٹ کی رفتار سے، پھر دوڑتے شخص کی، پھر پیدل چلنے کی رفتار سے“۔ (ترمذی 3159، 3160)
پُل صراط: صحیح بخاری میں "باب الصراط جسر جہنم” (صراط ایک پل ہے جو دوزخ پر بنایا گیا ہے) لکھا گیا۔ جہنم پر پل بنا دیا جائے گا (صحیح بخاری 6573)
باریک: "أَنَّ الْجِسْرَ أَدَقُّ مِنْ الشَّعْرَةِ وَأَحَدُّ مِنْ السَّيْفِ” وہ پُل بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا” (صحیح مسلم 183)
پہلا شخص: حضور ﷺ نے فرمایا: فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُ پُل صراط پار کرنے والا میں پہلا شخص ہوں گا۔ (صحیح بخاری 6573)
امتی خوش قسمتی: دوزخ کی پیٹھ پر پل صراط نصب کر دیا جائے گا اور میں اور میری امت سب سے پہلے اس کو پار کرنے والے ہوں گے (بخاری: 7437)
دُعا: اُس دن رسولوں کی دُعا اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ اے اللہ! مجھ کو سلامت رکھیو۔ (صحیح بخاری 6573) اسلئے رسول اللہ ﷺ کی دعا امت کے لئے بھی ہو گی: اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ ” "اے اللہ! سلامتی عطافرما،سلامتی عطا فرما۔”
کانٹے اور آنکڑے: اس پل میں لوہےکے آنکڑے اور نہایت خطرناک کانٹے ہوں گے جو اللہ کریم کے حکم سے بے ایمان اور قطع تعلقی کرنے والوں کو اپنی گرفت میں لیں گے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہرنیک اور بد جہنم میں ضرور جائے گا لیکن جہنم مومنوں پر اس طرح ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجائے گی جیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر ہوگئی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کو نجات عطا فرمادے گا اور ظالموں کو اس میں گرا ہوا چھوڑ دے گا (و قال الہشیمی ر واہ احمد ورجالہ ثقات مجمع زوائد ج 7 ص 55 تفسیر سورہ مریم)
اصل: اس پل پر سے ہر مومن وکافر کوگزرنا ہوگا۔ مومن تو اپنے اپنے اعمال کے مطابق جلد یا بد دیر گزر جائیں گے۔ کچھ پلک جھپکنے میں، کچھ بجلی اور ہوا کی طرح، کچھ پرندوں کی طرح، کچھ عمدہ گھوڑوں کی طرح اور تیزروافراد کی طرح اور کچھ گرتے پڑتے اور گھسٹتے ہوئے۔ کچھ لوگ بالکل صحیح سالم، کچھ زخمی مگر پل عبور کرلیں گے اور کچھ جہنم میں گر پڑیں گے، جنھیں بعد میں شفاعت کے ذریعے سے نکال لیا جائے گا لیکن کافر اس پل کو عبور کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے اور سب جہنم میں گر پڑیں گے۔ (صحیح مسلم 454)
غور و فکر: ان تمام باتوں پر ایمان لانے کے بعد اپنی زندگی میں نیکیوں کی رفتار تیز کرنا ہو گی تاکہ رسول اللہ ﷺ کا ہمیں دنیا میں ساتھ مل سکے۔ دوسرا یہ ڈاٹ ہیں جس سے ہم غیب پر ایمان رکھتے ہیں مگر اس پر مکمل انفارمیشن ہر ایک کو قبر، حشر میں ہی معلوم ہو گی۔ صحیح مسلم 2670: آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا کہ بال کی کھال نکالنے والے ہلاک ہوئے یعنی جو ہر بات کی کھال اُتارنے والے ہوتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا جنتی عورتوں کی سردار ہے، ہمارے آقا و مولا کی بیٹی اور سیدنا حسن و حسین کی والدہ اور سیدنا علی کی زوجہ محترمہ ہیں، اسلئے ہمارے ایمان میں شامل ہیں، چند کتابوں میں یہ لکھا ہے:
باپردہ جنازہ: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کو یہ تشو یش تھی کہ عُمر بھر تو غیر مردوں کی نظروں سے خود کو بچائے رکھا ہے اب کہیں بعدِ وفات میری کفن پوش لاش ہی پرلوگوں کی نظر نہ پڑ جائے! حضرتِ اَسماء بنتِ عمیس رضی اللہ عنھا نے کہا: میں نے حَبشہ میں دیکھا ہے کہ جنازے پر دَرَخْت کی شاخَیں باندھ کر ایک ڈَولی کی سی صورَت بنا کر اُس پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ پھر اُنہوں نے کَھجور کی شاخیں منگوا کر انہیں جوڑ کر اُس پر کپڑا تان کر سیِّدہ فاطمہ کو دکھایا تو آپ بَہُت خوش ہوئیں اور لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔ بس یِہی ایک مسکراہٹ تھی جو نبی کریم ﷺ کے وصالِ ظاہِری کے بعد دیکھی گئی۔ (جذب القلوب مترجم ص 231)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا : (اے فاطمہ!) میں، تو اور یہ دونوں (حسن و حسین) اور یہ سونے والا (حضرت علی رضی اللہ عنہ کیونکہ اس وقت آپ سو کر اٹھے ہی تھے) روزِ قیامت ایک ہی جگہ ہوں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور بزار نے روایت کیا ہے۔ (مسند احمد، 1183، مسند بزار 779)
فرمان نبی کریم ﷺ: قیامت کے دن ایک نداء دینے والا پردے کے پیچھے سے آواز دے گا: اے اھلِ محشر! اپنی نگاہیں جھکا لو تاکہ فاطمہ بنت مصطفیٰﷺ گزر جائیں۔ (مستدرک حاکم 4728)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انبیائے کرام قیامت کے دن سواری کے جانوروں پر سوار ہو کر اپنی اپنی قوم کے مسلمانوں کے ساتھ میدان محشر میں تشریف لائیں گے اور صالح اپنی اونٹنی پر لائے جائیں گے اور مجھے براق پر لایا جائے گا، جس کا قدم اُس کی منتہائے نگاہ پر پڑے گا اور میرے آگے آگے سیدہ فاطمہ ہوں گی۔‘‘ (مستدرک حاکم 4727)
سیدنا علی بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے مجھے بتایا : (میرے ساتھ) سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں، میں، فاطمہ، حسن اور حسین ہوں گے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول ﷲ! ہم سے محبت کرنے والے کہاں ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے پیچھے ہوں گے۔ (مستدرک حاکم 4723)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں، علی، فاطمہ، حسن و حسین اور ہم سے محبت کرنے والے سب روزِ قیامت ایک ہی جگہ اکٹھے ہوں گے۔ قیامت کے دن ہمارا کھانا پینا بھی اکٹھا ہو گا، یہاں تک کہ لوگوں میں فیصلے کر دیئے جائیں گے۔ (طبرانی فی معجم الکبیر: 2623)