گروی مکان

گروی مکان

 

کسی کو قرضہ دے کر مکان گروی لینا جائز نہیں بلکہ یہ سود میں آتا ہے۔
اگر کوئی چیز گروی رکھی جائے تو اس کو استعمال نہیں کر سکتے۔
اگر کوئی مکان گروی دیتا ہے تو اس کو استعمال کرنے والا ہر ماہ اس کا کرایہ دے گا ورنہ جتنی دیر رہے گا، اُس کا قرضہ اتنا کم ہو جائے گا۔
مثال: ایک مکان 5 لاکھ کا گروی لیا تو وہ اگر کرائے پر چڑھایا جاتا تو 10 ہزار کرایہ بنتا تو 5 سال گروی رہنے والے کو کچھ نہیں ملے گا کیوںکہ وہ 6 لاکھ کا کرایہ کھا چکا ہے اور اب وہ گروی مکان دینے والے کا مقروض ہے۔
جائز صورت: اگر گروی مکان دینے والا پانچ لاکھ لیتا ہے اور اُس سے کاروبار کرتا ہے، دوسری طرف گروی مکان لینے والا اُس میں رہائش کرتا ہے تو یہ ایک جائز صورت ہو سکتی ہے مگر جب دونوں طرف سے ایک دوسرے کو مطمئن کیا جا سکے۔
پریشان صورت: گروی مکان دینے والا خود مقروض ہے، پہلے جس کو گروی مکان دیا اُس کو پیسے واپس کرنے ہیں، دوسری طرف جو دوسری پارٹی گروی مکان لینا چاہتی ہے وہ غریب ہے اور کرائے پر مکان افورڈ نہیں کر سکتی بلکہ یہ چاہتی ہے کہ گروی مکان لے کر کرایہ بچایا جا سکے۔ یہ ایک پریشان صورت ہے جس میں مالک مکان، پہلی گروی والی پارٹی، دوسری گروی لینے والی پارٹی موجود ہے مگر تینوں مجبور ہو سکتے ہیں۔
حل: اس کا حل مسلمانوں کو زکوۃ، صدقات، خِیرات کے مال سے ایک دوسرے کے قرضے ادا کر کے، ایک دوسرے کو مکان یا زمین لے کر دینے سے ختم ہو سکتے ہیں مگر عوام صدقہ خیرات جانوروں کو چھچھڑے ڈالنے تک محدود کر چکی ہے۔
قرآن و احادیث
1۔ سورہ بقرہ میں گروی یا کوئی شے رہن رکھنے کا تصور موجود ہے جیسے
"اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو قرض دینے والے کے قبضہ میں کوئی چیز گروی رکھی جائے”۔
2۔ صحیح مسلم 4114، صحیح بخاری 2509 نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی سے ایک مدت تک ادھار غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی لوہے کی ذرع رہن رکھی تھی۔
3۔ صحیح بخاری 2508 نبی کریم ﷺ نے اپنی زرہ جو کے بدلے گروی رکھی۔
4۔ صحیح بخاری 2511 گروی جانور پر اس کا خرچ نکالنے کے لئَ سواری کی جائے، دودھ والا جانور گروی ہو تو اس کا دودھ پیا جائے۔
نتیجہ: کسی کو قرضہ دیتے وقت اس سے اتنی ہی مالیت کی چیز گروی لے لینا جائز ہے تاکہ قرضہ واپس نہ ہو تو نقصان نہ ہو۔ ہر مالی سودا عقلمندوں کے درمیان ہونا چاہئے اور معاشرے کی ابتری حالت دیکھ کر کوشش کریں کہ ایسے سودے نہ کریں کیونکہ زیادہ تر فراڈ ہے یا سود میں شامل ہے۔
صحیح بخاری 3814 ایک صحابی کو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم ایک ایسی زمین پر ہو جس میں سود عام ہے جب تمہارا کسی شخص پر حق ہو اور وہ تمہیں بھس، جو اور چارہ کا گھٹا بطور تحفہ دے تو اسے قبول نہ کرنا کیونکہ یہ سود ہے۔
سالم بن ابی الجعد فرماتے ہیں: ہمارے ایک پڑوسی مچھلی فروش نے کسی کے 50 درہم دینے تھے اور ساتھ ہی وہ قرض دینے والے کو مچھلی ہدیہ بھیجتا تھا سیدنا ابن عباس نے فرمایا "جو وہ تجھے تحفے میں دے رہا ہے اسے حساب میں شمار کر۔” (بیہقی، باب کل قرض جر منفعۃ فھو رباہ)
قرض پر نفع لینا سود ہے اس کے بارے میں الجامع الصغیر میں حدیث پاک ہے:’’ کل قرض جر منفعۃ فھو ربا “ترجمہ: ہر وہ قرض جو نفع لے کر آئے وہ سود ہے۔ (الجامع الصغیر مع فیض القدیر جلد5صفحہ36مطبوعہ بیروت)
سورہ نساء: "اے ایمان والو اپنے مالوں کو آپس میں ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ۔” صحیح مسلم 2950: "بلاشبہ تمہارے خون اور اموال تم پر حرام ہیں”
اللہ کریم پر اعتبار کرنے والا ہر کام شریعت کے مطابق کر کے بھی ڈرتا اور کہتا ہے کہ یا اللہ تیری شان کے مطابق نہیں کر سکا مجھے معاف کر دینا۔ اس دنیا میں جو دھوکہ کھا کر بھی معاف کر دے اور اچھا کرنے سے باز نہ آئے تو قربان جائیں ایسے جانباز کے جو نقصان ہونے کے بعد بھی بے حس نہیں ہوتا۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general