ترازو
قیامت کے دن ترازو کی حقیقت سورہ انبیاء 47 "اور ہم قیامت کے دن انصاف کا ترازو قائم کریں گے تو کسی بھی آدمی پر کچھ بھی ظلم نہ ہوگا،اگر کسی نے رائی کے دانے کے برابر بھی(نیک یابرا) عمل کیاہوگا تو ہم اسے بھی سامنے لیکر آئیں گے اور حساب وکتاب لینے کیلئے تو ہم کافی ہیں۔
سورہ اعراف 8 – 9: اورقیامت کےدن وزن کا ہونا ایک اٹل حقیقت ہے تو جن لوگوں کے ترازو کے پلڑے بھاری ہونگے وہی کامیاب ہونگے، اور جن کے (نیک اعمال کے) پلڑے ہلکے ہوگئے یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں رکھا کیونکہ وہ ہماری آیات سے ظلم وناانصافی کیا کرتے تھے۔
سورہ القارعہ آیت 6 – 11: پھر جس آدمی کے پلڑے بھاری ہونگے وہ تو من پسند عیش وعشرت کی زندگی میں خوش ہوگا،اور جس کے پلڑے ہلکے ہونگے تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا اور آپ کو کیامعلوم کہ یہ ہاویہ کیا ہے؟ وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔
صحیح بخاری 4729: بلاشبہ قیامت کے دن ایک بہت بھاری بھر کم موٹا تازہ شخص آئے گا لیکن وہ اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی کوئی قدر نہیں رکھے گا اور فرمایا کہ پڑھو «فلا نقيم لهم يوم القيامة وزنا» ”قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن نہ کریں گے۔
سورہ ق 17 – 18: جب دوفرشتے لکھنے والے اس کے دائیں اور بائیں طرف بیٹھ کر ہر چیز تحریرکررہے ہیں۔
سورہ الانفطار "اور یقینا تم پر نگران فرشتے مقرر ہیں، بڑے معزز ہیں وہ لکھنے والے، جو کچھ تم عمل کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں۔
اور قیامت کے دن یہی اعمال کے رجسٹر تقسیم ہونگے اور ان کا وزن کیاجائے گا۔
سورہ بنی اسرائیل 12 – 13: اور ہم نے ہر انسان کا نامہ اعمال اس کی گردن میں لٹکادیا ہے، جسے ہم روز قیامت ایک کتاب کی شکل میں نکالیں گے انسان اپنی اس کتاب کو اپنے سامنے کھلاہوا پائے گا۔(پھر ہم کہیں گے اے انسان) تم اپنی یہ کتاب پڑھو آج تم خود ہی اپنا حساب کرنے کیلئے کافی ہو۔
حدیث وَالْبِطَاقَةُ :قیامت کے دن تمام لوگوں کے سامنے میری امت کے ایک شخص کی پکار ہو گی، اور اس کے ننانوے دفتر پھیلا دئیے جائیں گے، ہر دفتر حد نگاہ تک پھیلا ہو گا، پھر اللہ عزوجل فرمائے گا: کیا تم اس میں سے کسی چیز کا انکار کرتے ہو؟ وہ کہے گا: نہیں، اے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا میرے محافظ کاتبوں نے تم پر ظلم کیا ہے؟ پھر فرمائے گا: کیا تمہارے پاس کوئی نیکی بھی ہے؟ وہ آدمی ڈر جائے گا، اور کہے گا: نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: نہیں، ہمارے پاس کئی نیکیاں ہیں، اور آج کے دن تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا، پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس پر «أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله» لکھا ہو گا، وہ کہے گا: اے میرے رب! ان دفتروں کے سامنے یہ پرچہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: آج تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا، پھر وہ تمام دفتر ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں، وہ سارے دفتر ہلکے پڑ جائیں گے اور پرچہ بھاری ہو گا۔
اور ان ہی صحائف اعمال کا قیامت کے دن وزن کیاجائے گا۔
(سنن ابن ماجہ 4300)
صحیح بخاری 7563: دو کلمے ایسے ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں اور قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں بوجھل اور باوزن ہوں گے، وہ کلمات مبارکہ یہ ہیں: سبحان الله وبحمده، سبحان الله العظيم
ترمذی 2002: قیامت کے دن مومن کے میزان میں اخلاق حسنہ سے بھاری کوئی چیز نہیں ہو گی اور اللہ تعالیٰ بےحیاء، بدزبان سے نفرت کرتا ہے“۔
صحیح مسلم 2581: کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ مفلس کسے کہتے ہیں؟“ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے یہاں مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس درہم و دینار اور ضروری سامان زندگی نہ ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہماری امت میں مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن روزہ، نماز اور زکاۃ کے ساتھ اس حال میں آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پہ تہمت باندھی ہو گی، کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا، اور کسی کو مارا ہو گا، پھر اسے سب کے سامنے بٹھایا جائے گا اور بدلے میں اس کی نیکیاں مظلوموں کو دے دی جائیں گی، پھر اگر اس کے ظلموں کا بدلہ پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو مظلوموں کے گناہ لے کر اس پر رکھ دیے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا“
نتیجہ: میزان حق ہے یہ ایک ترازو ہے جس پر لوگوں کے نیک و بداعمال تو لے جائیں گے۔ نیکی کا پلہ بھاری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پلہ اوپر کو اٹھے جبکہ دنیا میں بھاری پلہ نیچے کو جھکتا ہے۔ اسلئے ہر مسلمان کو علم، اُس علم پر عمل اور عمل میں خلوص ہونا چاہئے یعنی ہر کام اللہ کے لئے کرنا ہے تاکہ ترازو بلند ہو۔ ہر معاشی، معاشرتی، قولی، فعلی نیکی وہاں کام آئے گی۔