دجال کا ذکر
دجال کا ذکر کیا قرآن مجید میں ہے
اگر کوئی شیطان صفت انسان شک پیدا کریں کہ دجال کا ذکر قرآن میں کہاں ہے تو سب سے پہلے اُس سے اصولی طور پر سوال کریں کہ آپ اپنی قرآن کی تفسیر کا لنک دیں جس میں آیات کا شان نزول مستند احادیث سے ہو تاکہ آپ کون ہیں اُس کی پہچان ہو ورنہ بحث برائے بحث ہے۔
قرآن مجید میں ہے: جس دن تیرے رب کی نشانیاں ( یعنی بڑی او4 اہم نشانیاں ) آئیں گی تو کسی نفس کو اسکا ایمان لانا نفع نا دے گا۔ (سورة الانعام: 158)
اس آیت پر صحیح مسلم 396: تین چیزیں ہیں جب ان کا ظہور ہو جائے گا تو اس وقت کسی شخص کو، جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا یا اپنے ایمان کے دوران میں کوئی نیکی نہ کی تھی، اس کا ایمان لانافائدہ نہ دے گا: سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دجال اور دابۃ الارض (زمین سے ایک عجیب الخلقت جانور کا نکلنا۔)“
سورہ نساء 159: اور نہیں کوئی اہل کتاب مگر وہ ضرور بالضرور آپ پر ایمان لائے گا اپنی موت سے پہلے۔
یہ آیت بھی واضح کر دیتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نبی کریم ﷺ پر ایمان لائیں گے تو واضح ہو گیا کہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام والی احادیث حق ہیں تو یہ بھی حق ہے کہ آپ علیہ اسلام دجال کو قتل کریں گے تو اللہ نے ضدین میں سے صرف ایک کے ذکر پر ہی اکتفاء فرمایا اور اسلئیے بھی کہ اس یعنی دجال کا لقب ہی حضرت عیسی علیہ اسلام کی طرح مسیح ہی ہے
لیکن دجال گمراہی کا مسیح ہے اور حضرت عیسی ہدایت کے مسیح ہیں۔
سورہ غافر 57: یقینا آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسان کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
تفسیر معالم التنزیل میں نقل کیا ہے "یہ آیت یہودی کے بارے میں نازل ہوئی تھی کیونکہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے کہا تھا:
إن صاحبنا المسيح إبن داود . يعنون الدجال . يخرج فى آخر الزمان فيبلغ سلطانه البر والبحر و يرد الملك إلينا ترجمہ: بے شک ہمارا صاحب مسیح ابن داود ہے ۔ یعنی انکی مراد دجال سے ہے۔ آخری زمانہ میں نکلے گا تو اسکی حکومت بر و بحر یعنی خشکی تری میں ہو گی اور وہ ملک ہمیں واپس دلا دے گا۔
اس بات پر اللہ تعالی نے فرمایا: فاستعذ بالله ترجمہ: اللہ کی پناہ مانگ ( یعنی مسیح دجال کے فتنے سے) ( تفسیر بغوی معالم التنزیل 101/10 سیوطی نے ابی عالیہ سے عبد بن حمید سے مرسلا ذکر کیا ابن ابی حاتم نے صحیح سند کیساتھ درمنشور میں نقل کیا ہے 661/5 )
حافظ ابن حجر نےفرمایا: یہاں الناس سے مراد دجال ہے تو گویا کل ایک ایسا لفظ ہے جسکو کثیر تعداد کیلئے اور یہ اگر ثابت ہو تو بہترین جواب ہے اور اس میں سے ہے جسکا ذکر نبی کریم ﷺ نے اپنے بیان سے کیا ہے۔ (بحوالہ فتح البارى 98/13 النهاية فى الفتن تفسير إبن كثير 102 101/1 )
اور بعض نے دجال کے متعلق کہا کہ قرآن نے اسکا ( یعنی دجال کا ذکر ) اسکے حقیر و ذلیل ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا جیسے حافظ ابن کثیرنے فرمایا کہ اللہ تعالی عزوجل نے اسکا یعنی دجال کا ذکر چھوڑا اور اسکا ذکر قرآن میں صرف اور صرف اسکی حقارت اور امتحان ( یعنی جس میں لوگ مبتلا ہونگے فتنہ دجال میں ) کی وجہ سے اللہ نے قرآن میں اسکا ذکر چھوڑ دیا
جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے حالت مرض میں سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کویہ فرما کر چھوڑ دیا: يأتى الله والمؤمنون إلا أبا بكر ترجمہ: اللہ تعالی اور مومن ہر ایک کی خلافت کا انکار کریں گے سوائے ابو بکر کے ( طبقات کبری 173/2 ،مستدرک میں کتاب معرفت صحابہ 477/3 )
اس مقام میں دجال کی مذمت واضح اور نقص صاف ظاہر ہے جسکا دعوی وہ خود کرے گا اور وہ مقام مقام ربوبیت ہے ( یعنی رب ہونے کا اعلان استغفراللہ ) اور اسی وجہ سے اللہ تعالی نے اسکا ذکر قرآن میں نہیں فرمایا یا ترک کر دیا کیونکہ وہ رب ہونے کا دعوی کرے گا ۔ اور یہ نص بیان فرمانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اللہ تعالی کے مومن بندے یہ جانیں کہ اس جیسی باتیں اللہ تعالی اور اسکے رسول ﷺ پر ایمان اور انکے احکامات کو تسلیم کرنے میں ہی انکی رہنمائی کرتی ہیں اور ایمان و تسلیم کو زیادہ کرتی ہیں۔
(بحوالہ النهاية و الفتن والملاحم تفسير إبن كثير 152/1 )
ابن حجر نے اسکی حقارت کی مزید وضاحت کی جس کا مفہوم ہے کہ اللہ نے یاجوج ماجوج کا ذکر تو قرآن میں کر دیا جبکہ انکا فتنہ کسی بھی طور دجال سے کم نہیں مگر دجال کا ذکر حقارت کی وجہ سے نہیں کیا۔
علامہ قرطبی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:دجال پر ایمان رکھنا اور اسکا نکلنا حق ہے اور یہ ہی اہلسنت اور عام اہل فقہ و حدیث کا مذہب ہے ۔ برخلاف معتزلہ اور خارجیوں کے جنہوں نے اسکا انکار کیا۔ ( تذکرہ قرطبی 751/2 )
علامہ طحاوی رحمہ اللہ نےفرمایا: اور ہم قیامت کی علامات پر ایمان رکھتے ہیں جیسے دجال کا نکلنا اور عیسی علیہ اسلام کا آسمان سے نازل ہونا۔ (بشرح عقيدة طحاوية إبن أبى العز الحفى 5650564 )
نتیجہ: تین بڑی نشانیاں جب تک ظہور پذیر نہیں ہوتیں کسی کو بھی اسکا ایمان لانا فائدہ نا دے گا۔ قرآن کی تفسیر سے مفسرین نے بھی فرمایا کہ دجال نے آنا ہے اسلئے دجال پر قیامت کی علامات کی وجہ سے حق جاننا لازم ہے۔