دور سیدنا علی تا حسین رضی اللہ عنہ
یہ ایک تجزیاتی اور تجرباتی رپورٹ ہے جو احادیث، تاریخ، قانون و اصول پر مبنی ہے لیکن کسی کا اس سے متفق ہونا لازم نہیں۔
صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین، عقیدہ، امام اور قرآن "ایک” ہے۔ سیدنا ابوبکر سے لے کر حضرت معاویہ تک سب نے فیصلے قرآن و سنت کے مطابق کئے چاہے ان میں اجتہادی غلطیاں بھی تھیں، اسلئے مشاجرات صحابہ پر خاموش رہنے کا قانون منظور ہوا۔ اس دور میں کوئی بھی صحابی یا اہلبیت 14 اور 12 معصوم کے عقیدے پر نہیں تھا۔
اہلتشیع حضرات جب کہتے ہیں کہ نبوت ختم ہو گئی اور امامت شروع ہو گئی تو یہاں پر نبی کریم ﷺ کی نفی ہو جاتی ہے یعنی رسول اللہ ﷺ کی چھٹی ہو جاتی ہے، نبی کریم ﷺ نے جو تعلیم صحابہ کرام کو دی اس تعلیم و احادیث کا انکار ہو جاتا ہے، چاروں خلفاء کی کوئی نئی تعلیم نہیں تھی بلکہ قرآن و نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق اجتہاد تھا۔
یہ بھی یاد رہے کہ غدیر خم پر نہ تو سیدنا علی کی امامت کا اعلان ہوا اور نہ ہی باغ فدک پر کوئی لڑائی، نہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا گھر جلایا گیا اور نہ ہی سیدہ فاطمہ، حضرات علی حسن و حسین رضی اللہ عنھم نے اپنے معصوم ہونے کا کبھی اعلان کیا۔ جمل و صفین کی لڑائیاں مسلمانوں کے درمیان ہوئیں، آل رسول کو شہید کرنے والے بھی قرآن و سنت کے خلاف عمل کر رہے تھے مگر اہلتشیع اس وقت کوئی نہیں تھے۔
سیدنا ابوبکر کی امامت پر سب صحابہ کا اجماع ہے اور سیدنا عمر فاروق نے دین قیصر و کسری تک پہنچایا۔ اس کے بعد سے حضرات عمر و عثمان و حسن و حسین رضی اللہ عنھم کی شہادت کی منظم پلاننگ ہوئی ہے۔ البتہ ان باغیوں کو سیدنا علی نے نہروان کی لڑائی میں زندہ جلا دیا۔ مختصر واقعات کچھ یوں ہیں:
جمل کی لڑائی
جمل نر (male) اونٹ کو کہا جاتا ہے، اس لڑائی میں سیدہ عائشہ سُرخ اونٹ پر سوار تھیں۔ یہ لڑائی 36ھ، بصرہ میں، غلط فہمی کی وجہ سے ماں بیٹے کے درمیان ہوئی کیونکہ حضورﷺ کے داماد سیدنا علی اور بیوی سیدہ عائشہ ہیں۔
خلافت: سیدنا عثمان غنی حضورﷺ کے تیسرے جانشین تھے جن کی قانونی حکومت کو سیدنا علی سمیت سب نے تسلیم کیا تھا۔ سیدنا عثمان غنی کی حکومت کمزور نہیں بلکہ مضبوط تھی جس میں جدہ کا سی پورٹ اور بحری جن گی جہاز تیار ہو رہے تھے۔
مطالبہ: البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں صحابہ کرام کا مطالبہ نہیں بلکہ باغی اور گمنام لوگ آئے جو خلیفہ وقت پر الزام لگاتے ہیں کہ تم بنو امیہ کے خاندان کے ہو، صرف اپنے رشتے داروں کو نواز رہے ہو، خلافت پر تمہارا حق نہیں ہے حالانکہ یہ الزام غلط تھا، اسلئے سیدنا عثمان غنی جیسے جی دار کی جان پر بن آئی مگر باغیوں کے کہنے پر استعفی نہیں دیا۔
شہید: باغی اور گمنام لوگ کتنے طاقتور تھے کہ مدینہ منورہ میں باب العلم و فاتح خیبر، حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنھم اور دیگر صحابہ کرام کے ہوتے ہوئے GHQ کے اندرآئے، چار دیواری کا تقدس پامال کیا اور خلیفہ وقت کو شہید بھی کردیا۔ ان کا پراپیگنڈے کا اثر صحابہ کرام پر بھی تھا جیسا کہ حضرت محمد بن ابی بکر کے واقعہ سے علم ہوتا ہے لیکن وجہ یہ ہے کہ ان باغیوں کی ڈوریں کہیں اور سے ہل رہی تھیں۔
سازش: ایران فتح ہواتو دشمنوں نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں کو کمزور کرنے کا ذریعہ صرف ان کو اندرونی مسائل میں اُلجھانا ہے ورنہ مسلمان قابو میں نہیں آ سکتے۔
دفن: تاریخ پر ہمیں اعتبار نہیں جو کہتی ہے کہ مظلوم خلیفہ سیدنا عثمان کی لاش تین دن تک پڑی رہی اور پھر رات کے اندھیرے میں دفن کیا گیا۔ خلیفہ وقت کی لاش ایسے ہی پڑی رہی تو سوال ہے کہ حضرت حسن و حسین و علی اور دیگر صحابہ کرام کے ہوتے ہوئے ایسا کیوں ہوا؟
حیرت: تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اسقدر شدید فتنہ تھا کہ سیدنا علی کو باغیوں نے حکومت دلوائی حالانکہ وہ قبول نہیں کرنا چاہتے تھے۔ تاریخ بہت کچھ بیان کرتی ہے حتی کہ خلافت کی بیعت لینے کے بعد بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ فوراً قاتلین عثمان کو تلاش نہیں کرتے۔ ہم تاریخ پر یقین نہیں کرتے۔
سفارت کاری: متقی اور پرہیز گار خلیفہ کا شہید ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی، اسلئے حضرت طلحہ و زبیر وحضرت عائشہ قا تلین عثمان سے بدلہ لینے کا مطالبہ لے کر سیدنا علی کی طرف گئے۔ آپس میں کامیاب سفارت کاری ہوئی اور دونوں گروپ کے درمیان مصالحت بھی ہو گئی۔
قتل عام: باغی تولڑائی چاہتے تھے اسلئے رات کے اندھیرے میں دونوں گروپ کے مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا۔ غلط فہمی کو دور کرنے کیلئے سیدہ عائشہ اونٹ پر سوار ہوئیں مگر تاثر یہ دیا گیا کہ وہ لڑائی چاہتی ہیں۔ اسلئے جوش و خروش میں مسائل پیدا ہوتے گئے حتی کہ عشرہ مبشرہ حضرت طلحہ و زبیر کے ساتھ ساتھ دونوں طرف کے کثیر صحابہ کرام شہید ہوئے۔
اونٹ: جب اونٹ کی کونچیں کاٹ کر محمد بن ابی بکر نے اپنی بہن سیدہ عائشہ کو نیچے اتارا اور سیدنا علی نے سیدہ عائشہ کو محفوظ مقام کی طرف روانہ کیا۔ لڑائی کے اختتام پر سیدنا علی نے دونوں طرف کے صحابہ کرام کو مسلمان اور جنتی ڈکلئیرکر کے نماز جنازہ ادا کی، اسلئے کسی بھی صحابی عورت یا مرد کو غلام اور لونڈی نہیں بنایا گیا اور مال غنیمت تقسیم نہیں ہوا۔
صفین کی لڑا ئی
جمل کے واقعات سے سمجھ آئی کہ سیدنا عثمان کے قاتل طاقتور، جہاندیدہ، حکومتیں گرانے کے ماہر اور پراپیگنڈہ ان کا بہترین ہتھ یار تھا۔ شہادت عثمان کے بعد سیدنا علی نے کسی کا مشورہ نہیں مانا اور باب العلم ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے مکہ و مدینہ کو محفوظ بنانے کے لئے دارالحکومت کوفہ کو مقرر کیا اور خود وہاں تشریف لے گئے کیونکہ فو ج اور فو جی چھاؤنی بھی وہاں تھی، با غی تحریک کا مرکز بھی وہاں تھا، اسلئے اب با غی بھی سارے وہیں تھے اور یہ کمال دانشمندی تھی۔
2۔ حضرت امیر معاویہ کو بہت سوچ سمجھ کر سیدنا عمر فاروق نے شام کا گورنر مقرر کیا تھا کیونکہ اُس وقت شام کے صوبے میں موجودہ شام، لبنان، فلسطین، اردن کے ساتھ ساتھ عراق اور ترکی کے بعض حصے بھی اس میں شامل تھے جس کی سرحدیں رومن ایمپائر کے ساتھ لگتی تھیں جس کا سربراہ قیصر روم تھاجو اپنے علاقے واپس لینا چاہتا تھا۔
3۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ صفین کی لڑا ئی سے پہلے رومن ایمپائر نے حضرت معاویہ کو سیدنا علی کے خلاف اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی مگر آپ نے جواب دیا کہ اس وقت کے حالات ہمارے گھر کے مسائل ہیں، اگر تم نے کوئی چال چلی تو میں اپنے چچا زاد سیدنا علی سے ملکر تمہیں تباہ کر دوں گا۔ اس سے یہ بات بھی واضح تھی کہ حضرت امیر معاویہ کو خلافت نہیں چاہئے تھی۔
4۔ عبداللہ بن سبا ئی نے شروع میں جب باغی گروپ کو منظم کیا تو شام میں بھی اڈا قائم کرنا چاہا مگر حضرت امیر معاویہ نے اس کی چال کو اس وقت بھی ناکام بنا دیا تھا۔ اسلئے باغی گروپ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ صرف شام تھا۔ باب العلم سیدنا علی اور حضرت امیر معاویہ کی کوشش تھی کہ لڑائی نہ ہو، اسلئے سفارت کاری ہو رہی تھی حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ حضرت امیر معاویہ سیدنا علی سے خود ملاقات کر لیتے مگر تاریخ بتاتی ہے کہ اس میں رکاوٹ باغی گروپ ہی ہمیشہ رہا ہے جس سے دو مسلمان گروپ میں شدید غلط فہمی تھی۔
5۔ اکابر صحابہ تو 10000 ہوں گے مگر صفین کی لڑا ئی میں 40 سے زیادہ صحابہ شامل نہیں تھے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مالک اشتر نخعی حضرت علی کے فوج کا باغی گروپ کا لیڈر تھا۔ حضرت عمار ابن یاسر کو شہید کرنے والا بھی یہی باغی گروپ ہی تھا۔ البتہ یہ تاریخ کی کتابیں ہیں مگر قرآن و سنت نہیں۔
6۔ 37ھ کوصفین کے مقام پر سیدنا علی اور حضرت امیر معاویہ کے درمیان نا چاہتے ہوئے بھی لڑا ئی ہوئی، مسلمانوں کی شہادتیں دیکھ کر حضرت امیر معاویہ نے سیدنا علی سے عرض کی کہ قرآن و سنت کے مطابق فیصلہ کر لیتے ہیں تو سیدنا علی نے ان کی بات کو قبول کر لیا۔ حضرت ابوموسی اشعری اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما نے مسلمانوں کے درمیان صُلح کروا دی۔
7۔ البتہ صُلح ہوتے ہی ایک گروپ اُٹھا جس کو خارجی، سبائی اور ایرانی گروپ کہتے ہیں جنہوں نے نعرہ لگایا کہ حکم تو صرف اللہ کا ہے اور اس گروپ نے مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیا کیونکہ ان کا پلان ناکام ہو چکا تھا۔ یہی باغی گروپ تھا جو حضرت عمر، عثمان، علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم کا قا تل گروپ ہے مگر کہتے یہی ہیں کہ صحابہ کرام آپس میں خلا فت پر لڑے اور صحابہ کے بچوں نے سیدنا حسین کو شہید کیا۔
لڑائی: مسلمان مسلمان سے لڑے تو ایک دوسرے کے جنازے پڑھائے گئے، یہ بکواس نہ اہلبیت نے کی اور نہ صحابہ کرام نے بلکہ یہ بکواس آج تک بے نقاب ہونے والے بے دین اہلتشیع کرتے ہیں جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
نہروان کی لڑا ئی
صفین کی لڑائی ختم کرنے کے لئے جب حاکم مقرر کئے گئے تو ایک ”متقی خارجی اور باغی“ گروپ جو سیدنا عثمان کو شہید کرنے میں بھی شامل تھا، اُس نے نعرہ لگایا ”حکم صرف اللہ کا ہے“، اسلئے حاکم بنا کر سیدنا امیر علی نعوذ باللہ کا فر ہو گئے ہیں۔ سیدنا علی نے فرمایا یہ کلمہ حق ہے مگر اس سے معنی کچھ اور لیا جا رہا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اہلتشیع حضرات کہتے ہیں کہ علی حق ہے اور اس کے کئی معنی نکلتے ہیں۔
2۔ سیدنا عثمان کے قا تل اور با غی گروپ جمل اور صفین کے بعد کچھ مر گئے اور کچھ کمزور پڑ گئے کیونکہ یہ کئی گروپ کا مجموعہ تھا، البتہ اس خارجی گروپ کو سیدنا علی نے بہت سمجھایا مگر اس گروپ نے قتل، راہزنی اور فساد برپا کرنا شروع کر دیا، اسلئے 38ھ،عراق میں بغداد کے قریب نہروان کے قریب ”نہروان“ کی لڑائی ہوئی۔
3۔ اس لڑائی میں لڑنے والے بہت کم خارجی بچے، جمل اور صفین کی لڑائی کے شہداء کی نماز جنازہ پڑھائی گئی مگر نہروان کی لڑائی میں شامل مجرموں کو قتل یا زندہ جلایا گیا۔ دس بارہ لوگ بچ گئے جن میں سے ایک نے بعد میں سیدنا علی کو شہید کیا۔
4۔ ذوالخویصرہ لقب رکھنے والا تمیمی جس کا اصل نام حرقوص بن زھیر تھا، یہ خوارج کی اصل بنیاد ہے کیونکہ غزوہ حنین میں حضورﷺکی مال کی تقسیم پر اعتراض کرنے والا تھا اورحضورﷺ نے فرمایا تھا کہ اس کی نسل سے خارجی پیدا ہوں گے۔ حضورﷺ کی حدیث کے مطابق خارجی بہترین فرقے کے خلاف خروج کریں گے اور ان میں سے ایک بندہ کالے رنگ کا ہو گا، جس کے بازؤں میں سے ایک بازو عورت کی پستان کی طرح ہو گا مگر یہ لوگ بڑے متقی ہوں گے۔ سیدنا علی پر یہ حدیث صادق ہوئی کیونکہ اسی نہروان کی لڑائی میں یہ بھی مارا گیا۔
5۔ سیدنا علی نے جس طرح اندرونی و بیرونی محاذ کو کنٹرول کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ باہر سے کوئی حملہ نہیں ہونے دیا۔ باغیوں کو مصروف رکھا اور خارجیوں کو مار گرایا۔ حضرت معاویہ نے آپ کی بیعت نہ کی مگر صُلح کے بعد آپ نے اپنے علاقے کو کنٹرول کر کے مکہ اور مدینہ پاک کو محفوظ رکھا۔
6۔ خارجیوں نے تین شخصیات کو اکٹھا شہید کرنے کا پلان کیا جس میں حضرت علی، امیر معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنھم شامل تھے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ محفوظ رہے مگر ابن ملجم کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر حملہ کامیاب رہا، اسلئے 21 رمضان المبارک 40ھ کو آپ کوفہ کی مسجد میں شہید ہوئے۔
تاریخ : بہت سے لوگوں کے بہت سے سوال ہوں گے کہ 36، 37، 38ھ کے من و عن واقعات سنائے جائیں حالانکہ اسلامی مورخین میں اکثر عجمی ملیں گے۔ تاریخ اسلام پڑھنے کا مشورہ اہلتشیع باغی گروپ کا ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ تاریخ میں ابو مخنف جیسے راوی موجود ہیں اور اس کے علاوہ تاریخ طبری، تاریخ ابن کثیر، تاریخ ابن خلدون، خلافت و ملوکیت سے لکھنے والوں کے پاس معتبر ذریعہ نہیں ہے۔ تاریخ طبری جھوٹی روایات پر مبنی ہے البتہ تفسیر طبری ٹھیک ہے۔ قرآن و احادیث کی شرح اہلسنت علماء کی معتبر ہے لیکن اہلتشیع رافضیوں کے سہولت کار مرزا، ڈاکٹر، پیر، بابا اسحاق، تفسیقی و تفضیلی قریشی مفتی علماء کی نہیں کیونکہ یہ اہلسنت نہیں ہیں۔
پانچواں خلیفہ سیدنا حسن چھٹا معاویہ
1۔ حضور ﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور ابن ملجم کی تلوار سے شہا دت کا درجہ پانے والے جنت کے سردار سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بعد مدینہ شریف والوں نے پانچواں خلیفہ سیدنا حسن کو بنایا اور یہ یاد رہے کہ حضرت معاویہ نہروان کی لڑائی کی صُلح کے بعد گورنر شام ہی تھے اور وہ کبھی بھی خلیفہ نہیں بنے تھے۔
2۔ صحیح بخاری 7109: حضور ﷺ نے خطبہ کے دوران سیدنا حسن کو دیکھ کر فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ کریم اس کے ذریعہ سے اللہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صُلح کرائے گا۔“ اہلسنت کے نزدیک سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے 6 ماہ کی خلافت کے دوران ورکنگ مکمل کر کے حضور ﷺ کی اس حدیث پر اسطرح عمل کیا کہ مصنف ابن ابی شیبہ، باب الامراء میں ہے کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی۔ بیعت کبھِی بادشاہت کے لئے نہیں ہوتی بلکہ خلافت کے لئے ہوتی ہے۔
3۔ شیعہ کی کتاب بحار الانوار جلد 44، صفحہ 312 پر ہے کہ ایک مجلس میں سیدنا حسن اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنھما نے خطاب کیا، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے پچھلے سارے واقعات کو بتا کر مسلمانوں کی صُلح کی خاطرحضرت معاویہ سے صلح اور بیعت کر لی۔ البتہ اہلتشیع بے دین کی مختلف کتابوں میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق متضاد حوالے بھی ملتے ہیں۔
4۔ صُلح کی شرائط کے مطابق سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کوہر سال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے خراج اور تحفے تحائف بھی ملتے تھے (ابن عساکر) اور سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنھما حضرت معاویہ کے پاس بھی جاتے تھے۔ ابن کثیر کی روایت کے مطابق سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد بھی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ کے پاس جاتے، ملاقات ہوتی، تحائف ملتے رہے، جس کا مطلب یہ ہو ا کہ انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ میرے بھائی کو زہر دینے والے تم ہو۔
5۔ ترمذی 3842: حضور ﷺ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا ”یا اللہ تو اسے ہدایت دے، ہدایت یافتہ بنا اور لوگوں کو اس کی وجہ سے ہدایت دے۔“ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے جس کو خلیفہ بنایا، اُس کے دور میں اسلام 58 لاکھ مربع میل تک تھا اور 20 سال تک ساری اہلتشیع باغی پارٹی خاموشی سے وقت گذرنے کا انتظار کرتی رہے۔
پلید ابن معاویہ
ابن معاویہ کو نامزد کرنے کے دوران، دو بندوں، حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری4827) اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس فیصلے کی مخالفت کی (حلیتہ الاولیاء)۔ حضرت عبداللہ بن عمر (بخاری 7111) اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما (طبری) نے یزید کی بیعت کی اور سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنھم سے مخالفت کی کوئی روایت موجود نہیں۔ 60 کے قریب صحابہ نے ابن معاویہ کی بیعت کی۔
2۔ حضرت امام حسن اور حسین رضی اللہ عنھما سید اور جنت کے سردار ہیں جن کے بارے میں حضور ﷺ کے ارشادات موجود ہیں، البتہ حضور ﷺ کے وصال کے بعد حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنھما کی بچپن، جوانی، نکاح، اپنے بچوں سے پیار کا ریکارڈ نہیں ملتا یعنی سوائے چند واقعات اور شہادت کے کچھ ریکارڈ نہیں ملے گا۔ اسی طرح یزید ابن معاویہ کا کوئی ریکارڈ خلیفہ بننے سے پہلے موجود نہیں ہے۔
3۔ البتہ اتنا ریکارڈ موجود ہے کہ سیدنا علی کے بھائی سیدنا جعفر طیار کے بیٹے عبداللہ بن جعفر کا نکاح سیدنا علی کی بیٹی زینب سے ہوا، اُن کو طلاق دی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام کلثوم سے ہوا۔ حضرت عبداللہ بن جعفر نے ایک نکاح لیلی بنت مسعود سے کیا جس سے دو بیٹیاں ام محمد اور ام ابیہا پیدا ہوئیں اور ام محمد کا نکاح یزید سے ہوا تھا۔ (نسب قریش، طبقات ابن سعد) اسلئے کربلہ کے بعد حضرت زینب بنت علی اپنی سوتیلی بیٹی اور داماد یزید کے پاس رہیں اور شام میں ہی اُن کا مزار ہے۔ یزید اہلبیت کا قریبی رشتے دار ہے۔
فاسق و فاجر: ابن معاویہ یعنی یز ید فاسق و فاجر تھا اور کوئی بھی اہلسنت اُس کو خلیفہ نہیں مانتا سوائے اہلحدیث فرقے کو جو 1703 میں پیدا ہونے والے محمد بن عبدالوہاب کی تعلیمات پر ہے اور جنہوں نے 1924 میں حرمین شریفین پر حکومت لی۔ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ان کی بیعت نہیں کی اور باقی کئی صحابہ نے بیعت توڑ دی۔ سیدنا حسین کا واقعہ اور واقعہ حرہ ابن معاویہ کے دور کے کالے داغ ہیں جو مٹ نہیں سکتے مگر اس میں حضرت معاویہ کا غلط فیصلہ ہو سکتا ہے مگر ان کو برا بھلا نہیں کہا جا سکتا۔ یزید پلید کے دور میں حضرت حسین اور آل نبی کی اولاد کا شہید ہونا مسلمانوں کی رسوائی اور دشمنوں کا حسینیت کا نام پر لاشوں پر سیاست کرتے ہوئے ایک نیا دین بنانا ہے۔