سیدنا عثمان ذوالنورین
سیدنا عثمان غنی حضور ﷺ کی دو بیٹیوں کی وجہ سے ذوالنورین کہلاتے ہیں اور ذوالنورین (دو بیٹیوں) کا تذکرہ کتابوں میں اسطرح آتا ہے:
1۔ حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنھا: حضورﷺ کی عمر 33 سال جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے گھر حضرت رقیہ پیدا ہوئیں۔ طبقات ابن سعد جلد 8، صفحہ 24 اور الاصابہ لابن حجر کے مطابق ”اعلان نبوت” پر ماں کے ساتھ ہی انہوں نے سات سال کی عمر میں اسلام قبول کر لیا۔ حضورﷺنے حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم کا نکاح اپنے چچا ابولہب کے بیٹے عتبہ اور عتیبہ سے کیا ہوا تھا، ابھی رُخصتی ہونی باقی تھی کہ تبلیغ کے دوران ہی سورت ابولہب اترنے پر ابولہب نے اپنے بیٹوں کو دھمکی دی کہ حضور ﷺ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دو ورنہ تمہارا میرے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا حرام ہے۔ دونوں بیٹوں نے دونوں بیٹیوں کو طلاق دے دی۔ اللہ اکبر
2۔ اس کے بعد حضورﷺ نے مکہ مکرمہ میں اپنی بیٹی سیدہ رقیہ کا نکاح سیدنا عثمان غنی سے یہ فرما کر کیا کہ اللہ کریم نے مجھے وحی بھیجی ہے کہ میں اپنی بیٹی کا نکاح عثمان بن عفان سے کر دوں۔ (کنزالعمال جلد 6 صفحہ 375)۔
البدایہ والنہایہ جلد 3 صفحہ 66 کے مطابق اسی جوڑے نے حبشہ کی طرف جو پہلا قافلہ گیا اس کے ساتھ ہجرت کی۔حبشہ سے ایک عورت آئی تو حضور ﷺ نے اُس سے ہجرت کرنے والوں کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا کہ اے محمد ﷺ میں نے عثمان کو اپنی بیوی کے ساتھ سواری پر سوار جاتے ہوئے دیکھا تو حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی ان دونوں کا ساتھی ہو، سیدنا عثمان ان لوگوں میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے سیدنا لوط علیہ السلام کے بعد اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کی۔
3۔ الاصابہ لابن حجر جلد 4 صفحہ 298 پر ہے کہ جب سیدنا عثمان کو علم ہوا کہ حضورﷺ مدینہ پاک ہجرت کرنے لگے ہیں تو پہلے اپنی بیوی کے ساتھ مکہ اور پھر بعد میں مدینہ ہجرت فرمائی۔ اسی طرح الغابہ جلد 5 صفحہ 456 میں ہے کہ ہجرت حبشہ کے دوران وہاں عبداللہ بیٹا آپ کے ہاں پیدا ہوا، جو 6 سال کا ہو کر مدینہ منورہ میں انتقال کر گیا جس کی نماز جنازہ حضور ﷺ نے خود پڑھائی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قبر میں اتارا۔
4۔ بخاری جلد 1 صفحہ 523 کے مطابق غزوہ بدر سے پہلے سیدہ رقیہ کو خسرہ کی بیماری ہوئی، بدر میں جانے سے حضورﷺ نے حضرت عثمان کوروک دیا اور فرمایا کہ آپ رقیہ کی تیمارداری کرو، آپ کو وہی اجر ملے گا جو بدر میں شرکت کرنے والوں کو ملے گا اور غنیمت کے مال میں بھی برابر کا حصہ ہے۔ غزوہ بدر سے واپسی تک حضرت رقیہ فوت ہو چکی تھیں۔ اسلئے طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 25 کے مطابق حضورﷺ جب غزوہ سے مدینہ واپس آئے تو جنت البقیع میں جا کر حضرت رقیہ کی قبر پر دعا فرمائی۔ ایک روایت میں ایسا بھی آتا ہے کہ حضورﷺ پر حضرت رقیہ کی تعزیت پیش کی گئی تو آپﷺ نے فرمایا: الحمد للہ شریف بیٹیوں کا دفن ہونا بھی عزت کی بات ہے۔
2۔ سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنھا
حضورﷺ کی تیسری بیٹی سیدہ خدیجہ کے بطن سے جو سیدہ رقیہ سے چھوٹی تھیں اور اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 216، طبقات ابن سعد صفحہ 52 کے مطابق سیدہ ام کلثوم نے بھی اپنی والدہ کے ساتھ اسلام قبول کر لیا۔ اوپر بیان ہوا ہے کہ ان کا نکاح بھی چچا ابولہب کے بیٹے سے ہوا اوررخصتی سے پہلے طلاق ہو گئی۔
1۔ طبقات ابن سعد جلد 8، صفحہ 811 اور البدایہ لابن کثیر جلد 3 صفحہ 202 کے مطابق حضورﷺ نے ہجرت کی تو بعد میں آپ ﷺ نے حضرت ابو رافع اور حضرت زید بن حارثہ جن کو سیدنا ابوبکر نے 500 درہم دئے تاکہ مکہ پاک سے ام المومنین حضرت سودہ، حضرت ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ کو مدینہ پاک لے کر آئیں پھر ان تینوں کی تشریف آوری مدینہ پاک ہوئی۔
2۔ المستدرک للحاکم جلد 4 صفحہ 94 پر ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ میں اپنی بیٹیوں کی اپنی مرضی سے نکاح نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے ان کے نکاحوں کے فیصلے ہوتے ہیں“۔ حضرت رقیہ کے وصال کے بعد سیدنا عثمان بڑے اداس تھے نبی کریم ﷺ کے پوچھنے پر عرض کی کہ غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور جو قریبی رشتہ آپ سے تھا وہ بھی نہیں رہا۔ اس پر حضورﷺ نے تسلی دے کر فرمایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ اللہ کریم نے حکم دیا ہے کہ میں ام کلثوم کا نکاح جیسا حق مہر سیدہ رقیہ کا تھا اُسی پر ام کلثوم کا نکاح تجھ سے کر دوں۔ (ابن ماجہ، اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 316، کنزالعمال جلد 6 صفحہ 573)
3۔ سیدہ ام کلثوم سے سیدنا عثمان کے گھر کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ سیرت حلبیہ جلد 4 صفحہ 44 پر ہے کہ ایک دن حضورﷺ سیدنا عثمان کے گھر گئے، وہ گھر نہیں تھے، بیٹی سے پوچھا کہ تم نے عثمان کو کیسا پایا تو انہوں نے عرض کی کہ اباجان وہ بہت اچھے اور بلند رتبہ شوہر ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کیوں نہ ہوں وہ دنیا میں تمہارے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تمہارے باپ سے بہت مشابہ ہیں۔ طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 52 کے مطابق 9 ہجری کو سیدہ ام کلثوم بھی انتقال فرما گئیں جس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو ایک ایک کر کے اے عثمان تیرے نکاح میں دے دیتا۔(مجمع الزوائد للھیثمی جلد 9 صفحہ 712) بعض روایات میں اس سے بھی زیادہ تعداد لکھی ہے۔
4۔ طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 62، شرح مواھب اللدنیہ للزرقانی جلد 2 کے مطابق حضرت ام کلثوم کا غسل اور کفن ہو چکا تو حضور ﷺ نے جنازہ پڑھایا۔ حضورﷺ جہاں سوگوار تھے تو سارا جہاں ہی اداس تھا۔