الائیں بلائیں
بلا عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے آزمائش جیسے و لنبلونکم (البقرۃ 155)۔ فرعون نے اپنی سلطنت بچانے کے لئے کم و بیش 150000بچے قتل کئے تاکہ سیدنا موسی پیدا نہ ہوں تو اللہ تعالی نے فرمایا ”یہ تمھارے رب کی طرف سے بڑی بلا(آزمائش) تھی“۔ (البقرہ 49) باپ سیدنا ابراہیم نے جب اپنے بیٹے سیدنا اسماعیل پر خواب کی تکمیل کرتے ہوئے چُھری چلائی تو اللہ کریم نے فرمایا ”یہ تیری کھلم کھلابلا (آزمائش) تھی“ (الصفٰت 106)
زمانہ جاہلیت میں صفر کو منحوس سمجھا جاتا ہے اور آج کل بھی جاہل ہی منحوس سمجتحے ہیں اور مومن نبی کریم ﷺ کے مطابق سمجھتے ہیں صحیح بخاری 5770: ”صفر کا مہینہ منحوس نہیں ہے“ لیکن پھر بھی کوئی ماہ صفر کو منحوس یا الا بلا کا مہینہ سمجھے اور کہے کہ یہ حدیث میں آیا ہے تو صحیح بخاری 109: جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم کر لے جیسے مندرجہ ذیل جھوٹ پر ٹھکانہ جہنم ہے ورنہ کہنے اور کرنے والے توبہ کریں۔
1۔ ماہ صفر کے آخری بدھ کے بارے میں کہا گیا کہ اس دن نبی کریم ﷺ سیر کے لئے گئے اور ان کو شفا ہوئی حالانکہ اُس دن حضور ﷺ کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور شفا ہوئی ہی نہیں مگر ہم اپنے بچپن میں دیکھتے رہے کہ ہماری مائیں بہنیں ثواب سمجھ کر سیر کرتی رہی ہیں۔
2۔ ”جو مجھے ماہ صفر کے ختم ہونے کی بتائے گا، اسے میں جنت کی بشارت دوں گا“ کو حدیث رسول ﷺ کہہ کر پھیلایاگیا۔
3۔ کسی نے کہا دیا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ 9,20,000 بلائیں ماہِ صفر میں اترتی ہیں۔
حقیقت: محرم میں جیسے ماتم منایا جاتا ہے اور غم کا مہینہ بنا کر نکاح نہیں کیا جاتا، اسی طرح صفر کو الا بلا کا مہینہ کہا جاتا ہے، محرم و صفر کا سب پراپیگنڈا اہلتشیع حضرات کا ہے کیونکہ محرم میں سیدنا حسین کی شہادت اور سیدنا حسن کی وفات اہلتشیع کے نزدیک صفر میں ہوئی ہے، اسلئے وہ صفر میں 40ویں تک اپنا دین مناتے ہیں اور ان کا اثر عوام پر بھی ہے کیونکہ بنیادی وجہ اہلسنت کی خاموشی ہے اور پریکٹیکل طور پر اہلتشیع کا اہلسنت ساتھ دیتے ہیں۔
نتیجہ: ہر مسلمان ہر وقت آزمائش میں ہے۔ جس کا ایمان زیادہ اُس کا امتحان زیادہ ہے۔ کسی کی آزمائش اس کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے اور کسی کی آزمائش اس کی درجات کی بلندی کا ذریعہ ہوتی ہے۔ 24 گھنٹے ہر ایک کی آزمائش جاری و ساری ہے، کوئی برائی کر کے ہار جاتا ہے اور کوئی اچھے فیصلے کر کے جیت جاتا ہے۔