جھوٹی احادیث
1۔ اکثر ایسا لکھا مل جاتا ہے کہ جب ایک جوان انسان الله پاک سے اپنے گناہوں کی بخشش کے لیے گڑگڑاتا اور توبہ کرتا ہے تو مشرق سے مغرب تک کے قبرستانوں میں 40 دن تک عذاب ہٹا لیا جاتا ہے۔ (ابن ماجہ)
جواب: "جوان آدمی جب توبہ کرتا ہے تو اس کی وجہ سے اللہ تعالی مشرق اور مغرب کے درمیان سارے قبر والوں سے عذاب چالیس دن کے لئے ہٹا دیتے ہیں”۔
مذکورہ بالا کلام کو سوشل میڈیا پر "سنن ابن ماجہ” کی طرف منسوب کرکے پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت میں یہ کلام نہ ہی سنن ابن ماجہ میں ملتا ہےاور نہ ہی احادیث مبارکہ کی دوسری کتب میں ملتا ہے۔ لہذا اس کلام کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کرنا صحیح نہیں ہے۔
2۔ ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ بیٹھی تھیں، نبی کریم ﷺ تشریف لائے کہا: "مانگو جو مانگتی ہو” آپ جلدی سے اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق کے پاس گئیں ان کو یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا کہ تم کہو کہ معراج کی رات راز والی باتوں میں سے دو باتیں بتا دیجیے۔
یہ واقعہ حدیث اور سیرت کى کسى بھى مستند اور معتبر کتاب میں تلاش کے باوجود نہیں مل سکا ہے، لہذا اس واقعہ کو آنحضرت ﷺ کى طرف منسوب کر کے بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
اہم بات: ہر ضعیف سے ضعیف حدیث کا بھی حوالہ ہوتا ہے کہ حدیث کی کتاب میں یہ حدیث لکھی ہے جیسے اس حدیث کا حوالہ غلط لکھا ہے: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور ابوبکر اس شہر کی بنیاد ہے، اور عمر اس کی دیوار ہے، اور عثمان اس کی چھت ہے، اور علی اس کا دروازہ ہے۔ بخاری: جلد٢، صفحہ٢١۴
صحیح بخاری میں یہ حدیث موجود نہیں ہے بلکہ یہ حدیث ابن عساکر رحمہ اللّٰہ نے "تاریخ ابن عساکر” میں بلا اسناد روایت ذکر کی ہے، جبکہ دیلمی رحمہ اللّٰہ صاحب "الفردوس” نے بغیر سند کے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مرفوعاً نقل کی ہے: "أنا مدینۃ العلم وأبو بکر أساسھا، وعمر حیطانھا، وعثمان سقفھا، وعلی بابھا”.
اس جیسی احادیث ضعیف ہیں، ان میں سے اکثر احادیث کے الفاظ کمزور ہیں، تاہم اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت حسن ہے۔ ’’أنا مدینة العلم وعلي بابها‘‘ ، ’’أنا دار الحکمة وعلي بابها‘‘ ترجمہ: میں علم/ حکمت کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔
اسلئے ضعیف حدیث کو بھی منگھڑت نہیں کہہ سکتے، البتہ 1 اور 2 احادیث نہیں ہیں۔