شہادت صحابہ اور مُجرم

شہادت صحابہ اورمجرم

 

سیدنا عمر، عثمان، علی، حسن و حسین رضی اللہ عنھم کی شہادت کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے بلکہ سب سے پہلے مسلمان فیصلہ کریں کہ صحابہ کرام اور اہلبیت کس "دین” پر تھے کیونکہ اصل مسئلہ تاریخ نہیں بلکہ قرآن و احادیث ہیں جس پر صحابہ کرام اور اہلبیت تھے۔ البتہ شہادت کی وجوہات پر ایک نظر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں:
عہد صدیقی: حضور ﷺ کے دور میں اسلام مکہ و مدینہ تک محدود رہا۔ سیدنا ابوبکر صدیق کو مرتدین اسلام اور منکرین زکوٰۃ کا سامنا کرنا پڑا۔ اُس کے بعد عراق، بانقیا، کسکر، شام، بصری، نحل، اجنادین،مکران وغیرہ کو فتح کیا۔ سیدنا ابوبکر ملکی انتظام میں سیدنا عمر، عثمان، علی، عبدالرحمن بن عوف، معاذ بن جبل، ابی بن کعب اور زید کو بلاتے اور یہی لوگ فتوے بھی دیتے تھے۔
سیدنا ابوبکر نے عرب کو متعدد صوبوں، ضلعوں میں منقسم کردیا تھا۔ مدینہ، مکہ، طائف، صنعاء، نجران، حضرموت اور دومۃ الجندل الگ الگ صوبے اور گورنر تھے۔ سیدنا ابوبکر زیادہ تر ان کو مقرر کرتے جو نبی کریم ﷺ کے دور میں عملی طور پر کسی نہ کسی عہدے پر تھے۔ البتہ کمپلینٹ پرگورنر سے باز پُرس بھی ہوتی۔
عہد صدیقی میں رعایا کا خیال رکھا جاتا، جو مال غنیمت ملتا اُس سے ہر شخص کو عطا کیا جاتا۔ مجرم ثابت ہونے پر سزا بھی دی جاتی۔ عہد صدیقی 11 سے 13ھ تک رہا۔
دور سیدنا عمر: سیدنا ابوبکر نے اکابر صحابہ کے سامنے وفات سے پہلے سیدنا عمر کو خلیفہ بننے کی سفارش کی جس کو قبول کر لیا گیا۔ سیدنا عمر فاروق کا اسلام کے لئے بہترین دور جو 13 سے 23ھ تک رہا جس میں سیدنا ابوبکر کے طریقے کو مدنظر رکھتے ہوئے اندرونی و بیرونی محاذ پر ورکنگ کر کے ملک کے معاشی و معاشرتی نظام کو بہتر بنایا گیا۔
علاقہ: سیدنا عمر بن خطاب کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ 22,51,030 مربع میل پر پھیل گیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان کا رقبہ 3،40,509 مربع میل ہے۔ اسلئے موازنہ کر لیں کہ حکومت کسطرح ہوتی ہو گی اور ہم نے کوئی نیا ملک فتح نہیں کیا بلکہ اپنے ملک کو آدھا گنوا دیا ہے۔
سیکرٹ ایجنٹ: جن ممالک کو فتح کیا گیا انہوں نے بدلہ لینے کے لئے مسلمانوں کے روپ میں غلام، تاجر عرب میں داخل کر دئے ہوں گے مگر سیدنا عمر کا انٹیلیجنس ادارہ بہت اچھا تھا، دوسرا آپ بہت سخت تھے، اسلئے کسی کو دم مارنے کی مجال نہ ہوئی، البتہ پھر بھی غلام ابو لو لو فیر وز نے آپ کو شہید کر دیا۔ ایر ان کے شہر کا شان میں اس کا مزار کیوں بنایا گیا اور 2007 میں عوام کے کہنے پر بند بھی کیا گیا۔ کیوں؟؟
عہد سیدنا عثمان: سیدنا عمر نے 6 رُکنی کمیٹی بنائی جس نے فیصلہ کر کے سیدنا عثمان کو خلیفہ نامزد کر دیا۔ آپ 23 سے 35ھ تک خلیفہ رہے۔
فتوحاتِ عثمانی: سیدنا عمر فاروق کی شہادت کے بعد غیر مسلم نے اسلام کو کمزور سمجھنا شروع کر دیا۔ البتہ سیدنا عثمان نے ملک رے میں بغاوت ہوئی تو اس پر قابو پا لیا، اسسکندریہ کو دوبارہ قبضہ میں رومیوں نے لینا چاہا تو دوبارہ ان کو شکست دی۔ اسی طرح آپ کے دور میں افریقہ، طرابلس، آرمینیہ، قبرص، مکمل ایران اور دیگر فتوحات ہوئیں۔
گورنر: نبی اکرم ﷺ کے دور میں بھی صحابہ کرام گورنر بنے۔ سیدنا ابوبکر و عمر کے دور میں بھی ہر صوبے کا گورنر تھا۔ گورنر کو بدلنے کا اختیار خلیفہ کے پاس ہی تھا اسلئے مختلف گورنر کی شکایات ملتیں تو ان کو تبدیل بھی کر دیا جاتا جیسے سیدنا عمر نے سیدنا عمار کو معزول کر کے سیدنا مغیرہ بن شیبہ کو کوفہ کا والی تعینات کر دیا تھا۔
خلافت عثمانی کے آغاز میں مکہ معظمہ کا عامل حضرت نافع بن عبد الحارث الخزاعی، طائف میں حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفی، صنعاء میں حضرت یعلیٰ بن امیہ، جند میں سیدنا عبد اللہ بن ربیعہ، کوفہ میں حضرت مغیرہ بن شیبہ، بصرہ میں حضرت ابو موسیٰ اشعری، مصر میں عمرو بن العاص، حمص میں عمیر بن سعد، شام میں حضرت معاویہ بن ابی سفیان، بحرین و توابع میں حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی، قضائے کوفہ پر شریح، قضائے بصرہ میں حضرت کعب بن سور تھے۔
تاریخ اور الزام: یہ سب تفصیلات ہمیں تاریخ سے ملتی ہیں۔ اس پر سیدنا عثمان پر الزام لگے کہ وہ اپنے رشتے داروں کو نوازتے تھے۔ الزام لگانے والے تاریخ سے حوالہ دے سکتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیدنا عثمان قرآن و سنت پر عمل کرنے والے تھے یا نہیں؟ کیا وہ خلیفہ وقت تھے یا نہیں؟ ان کو چارج شیٹ مجلس شوری نے کیا؟ خلافت و ملوکیت میں سیدنا عثمان کے خلاف بکواس کی گئی جو کہ غلط ہے۔
البتہ خلیفہ کا فیصلہ غلط یا صحیح ہو سکتا ہے جیسے بئر معونہ میں 72 مسلمان شہید ہو گئے جن کو مشرک دھوکہ سے تبلیغ کے لئے نبی اکرم سے لے گئے تو کیا نبی اکرم پر الزام لگے گا؟؟
حُکم رسول: اے عثمان! اگر اللہ تعالیٰ کبھی تمہیں اس امر یعنی خلافت کا والی بنائے اور منافقین تمہاری وہ قمیص اتارنا چاہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہنائی ہے تو اسے مت اتارنا۔ (ابن ماجہ 112)
تشریح: اس حدیث کے مطابق جس نے سیدنا عثمان کے خلاف بغاوت کی وہ صحابی تو کیا مسلمان نہیں ہو سکتا۔ ہمارے نزدیک ہر صحابی جنتی ہے کیونکہ قرآن کی نص سے ثابت ہے، اب کون صحابی رہا یا نہیں، یہ اللہ کریم جانے، البتہ جن کے فضائل نبی کریم ﷺ نے بیان کئے ہم ان کا دفاع کرتے ہیں اور مشاجرات صحابہ کے قانون پر عمل کرتے ہیں جیسے پاکستان کا قانون ہے کہ فوج، عدلیہ، اداروں کے خلاف جو بولے اس پر مقدمہ چلایا جائے، اسی طرح قانون منظور ہونا چاہئے جو صحابہ کرام پر بھونکے اس پر مقدمہ ہو۔
فرد جُرم: کسی پر قتل جیسا جُرم عائد کرنے کے لئے لازم ہے کہ یا تو مُجرم خود اقرار کرے یا اُس کے جُرم کے گواہ مل جائیں جو گواہی دیں کہ ہم نے اس کو قتل کرتے دیکھا ہے۔ اسلئے کیا سیدنا عثمان کے قتل کی ذمہ داری کسی نے لی؟ یا کسی نے گواہی دی؟؟
غلط: اہلسنت یہ کہتے ہیں کہ یہ بغاوت اہلتشیع نے کروائی ہے حالانکہ یہ غلط بات ہے نبی کریم ﷺ، سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان، علی، حسن و حسین، یزید اور اُس کے بعد کے دور تک کسی صحابی و اہلبیت کا عقیدہ 14 معصوم اور 12 امام کا نہیں تھا۔ اسلئے اہلتشیع حضرات ایک نیا دین ہے جو اسلام کے مخالف ہے، یہ دین سیدنا علی، حسن و حسین کی تحریک سے نہیں بنا کیونکہ سب اہلبیت خلافت والے ہیں۔
ثبوت: البتہ پھر بھی اہلتشیع حضرات ابن قتیبہ کی کتاب الامامہ و سیاسۃ، البلاذری کی انساب الاشراف، العقد الفرید، طبقات ابن سعد، تاریخِ طبری، کنز الاعمال اور تاریخ ابن کثیر سے سیدنا طلحہ، سیدہ عائشہ وغیرہ پر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ باغی صحابہ کرام اور ان کی اولاد تھے حالانکہ انہی کتابوں سے سیدنا علی پر بھی الزام ہے کہ خطوط انہوں نے لکھے مگر ان کو معصوم سمجھتے ہیں کیونکہ انہوں نے ایک سائڈ لے کر مسلمانوں کو گمراہ کرنا ہے۔ اسلئے یہ ثبوت کافی نہیں ہیں۔
گواہی: ہم مان لیتے ہیں کہ مسلمان آپس میں لڑ پڑے، کوئی بغاوت نہیں ہوئی، کوئی عبداللہ بن سبا نہیں تھا۔ اہلتشیع بھی نہیں تھے مگر اہلتشیع کون ہوتے ہیں مسلمانوں کے مسائل میں بولنے والے؟؟ کیا اُس دور میں قاتل کی سزا کا علم حکمرانوں کو نہیں تھا؟ کچھ صحابہ کا نام کتابی طور پر سامنے آتا ہے مگر ان کو مُجرم نہیں کہا جا سکتا، البتہ پہلے ہی اصول بتا دیا کہ ابن ماجہ کی حدیث کے مطابق سیدنا عثمان کو شہید کرنے والے منافق ہوں گے صحابی نہیں۔
قاتل: اب قانون کے مطابق دیکھتے ہیں کہ کیا یہ کتابوں کے ثبوت صحابہ کرام کو قاتل ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں تو پھر بہت سے ثبوت سب کے خلاف کتابوں سے ہی مل جائیں گے۔
آرٹیکل: مختلف آرٹیکل سے یہ سمجھ آیا کہ سیدنا عثمان اپنی ذات کے لئے خون خرابہ نہیں چاہتے تھے جیسے "سیدنا زید بن ثابت، سیدنا عثمان کے پاس جاتے ہیں اور جا کر کے انصار کا پیغام دیتے ہیں کہ ہم دوبارہ ” انصار اللہ ” بننے کے لیے تیار ہیں بس ایک بار اجازت دیجئے ” سیدنا عثمان نے اپنا وہی جواب دیا جو حسن و حسین کے بابا علی کو دیا تھا کہ قتال کسی صورت نہیں۔ ( السنہ حدیث 431 ) صحابہ کرام شامل نہیں تھے بلکہ خلافت کے ساتھ تھے۔
"اگر سیدنا عثمان انہیں (اہل مدینہ ) قتال کا حکم دیتے تو وہ ان شاء اللہ باغیوں کو ضرور مدینے سے نکال باھر کرتے – اہل مدینہ کہ جو سیدنا عثمان کے ساتھ تھے ، وہ تقریبا سات سو افراد تھے ، جن میں صحابہ اور ان کی اولادیں بھی تھیں لیکن معامله یہ تھا کہ ان لوگوں میں عبد اللہ بن عمر بھی تھے حسن بن علی بھی تھے اور ابن زبیر بھی تھے ٠جو کہ سیدنا عثمان کو بہت عزیز تھے۔”(السنہ حدیث 432)
حسن بصری سے پوچھا گیا کہ کیا سیدنا عثمان کے قتل میں مہاجرین اور انصار کا کوئی ایک بندہ بھی شریک تھا تو فرماتے ہیں :” لا کانو علاجا من اہل مصر” نہیں تو ، وہ تو مصر کے بدمعاش تھے – (تاریخ خلیفہ بن خیاط، یہ امام تیسری صدی ہجری کے تھے اور امام بخاری سے متقدم تھے)
سیدنا عثمان کی شہادت میں کچھ صحابہ کو کتابوں کے ذریعے ملوث کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر اقرار اور گواہی کے بغیر کتابوں سے ان کو مجرم ثابت نہیں کیا جا سکتا، البتہ ان کو ملوث کرنا جھوٹ کیوں ہے:
1۔ فروہ بن عمرو الانصاری جو بیعت عقبہ میں بھی موجود تھے اور السابقون الاولون کے رضی اللہ عنھم میں سے ہیں ـ (استیعاب، اسد الغابہ)
الزام: امام مالک نے ایک حدیث سیدنا فروہ انصاری سے نقل کی لیکن فروہ رضی اللہ کا نام مکمل نہ لیا اور صرف نسبت کا ذکر کر دیا تو بعض لوگوں نے اس نام نہ لینے کو کہا کہ امام مالک نے قتل عثمان میں ملوث ہونے کے شبے میں کراہتا نام نہیں لیا۔
اس شبے کا رد کرتے ہوے امام ابن عبد البر نے الاستیعاب میں کہا: قل ابو عمر : هذا لا یعرف ،ولا وجہ لما قالاہ فی ذلک ، و لم یکن لقائل هذا علم بمع کان من الانصاری یوم الدار ” یعنی یہ بات غیر معروف ہے اور ان دونوں نے جو الزام لگایا ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ، اور اس قول کے قائل کو انصار کا اس فتنے میں جو طرز عمل تھا اس کی کوئی خبر نہیں -” کیا اس کتاب کی عبارت سے جرم ثابت ہوتا ہے؟
2۔ محمد بن عمرو بن حزم انصاری. یہ وہ صحابی رسول ﷺ ہیں جن کا نام بھی خود رسول اللہ ﷺ نے رکھا تھا۔ (استیعاب)
محمد بن عمرو کی تاریخ ولادت 10 ہجری ہے (طبقات ابن سعد، الاستیعاب، الاصابہ ابن ہجر) طبقات ابن سعد میں انہیں تابعین میں شمار کیا گیا ، جب یہ پیدا ہوے ان کے والے نجران کے عامل تھے ، یہ پیدا ہوے تو ان کے والد نے خط لکھ کے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ بچے کا کیا نام رکھوں تو آپ نے "محمد” تجویز کیا۔
استیعاب میں لکھا ہے کہ وہ سیدنا عثمان کے شدید ناقد تھے۔ "یقال انہ کان اشد الناس علی عثمان المحمدون ، …….. محمد بن عمر بن حزم ” یقال کا مطلب ہے "کہا جاتا تھا” …. جی کون کہتا تھا ، کس نے کہا ، کب کہا ، کس جگہ کہا …کچھ معلوم نہیں اور کہا بھی کیا صرف یہ کہ ” فلاں فلاں محمد نامی افراد عثمان کے شدید ترین ناقد تھے۔ کیا اسطرح جُرم ثابت ہوتا ہے؟
3۔ حضرت جبلہ بن عمرو ساعدی انصاری بدری: یہ وہ صحابی تھے جنہوں نے حضرت عثمان کے جنازہ کو بقیع میں دفن نہیں ہونے دیا تھا۔ (تاریخ مدینہ)
تاریخ مدینہ میں عمرو بن شبہ نے بلاشبہ یہ روایت ذکر کی ہے لیکن سند کا آغاز ہے ’’بعض اہل المدینۃ‘‘۔ یعنی اہل مدینہ میں سے کسی نے کہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس نے کہا ہے؟ کب کہا ہے؟ کیا اسطرح مُجرم ثابت کیا جاتا ہے؟
4۔ حضرت عبدا للہ بن بُدیل بن ورقاء خزاعی: یہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لاچکے تھے امام بخاری کے بقول یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے حضرت عثمان ؓ کا گلا کاٹا تھا۔ (تاریخ الاسلام از بخاری، الخلفاء)
امام بخاری نے تاریخ اسلام کے نام سے کوئی کتاب نہیں لکھی، البتہ امام ذہبی نے لکھی ہے۔ امام ذہبی نے ضرور ذکر کیا ہے کہ امام بخاری نے اپنی تاریخ کی کتاب میں اس واقعہ کو روایت کیا ہے مگر اس کمزور سند سے بھی کسی کو مُجرم ثابت نہیں کر سکتے۔
5۔ محمد بن ابو بکر: صحیح مسلم کے مطابق محمد بن ابی بکر حجۃ الوداع کے سفر میں پیدا ہوئے۔ تین ماہ کی عمر میں صحابی بنتے ہیں یا تابعی؟ واقعہ یوں ہے کہ جب محمد بن ابی بکر نے سیدنا عثمان کی داڑھی پکڑی تو سیدنا عثمان نے ان کو شرم دلائی کہ تمہارے والد ہوتے تو اس کام کو ناپسند کرتے۔ یہ سن کر محمد پیچھے ہٹے اور شرمندگی کے مارے زمین میں گڑ گئے اور بولے ’’انی تائب الی اللّٰہ‘‘ میں اللہ سے توبہ کرتا ہوں اور وہاں سے نکل گئے اور یہ ان کو صحابی بنا کر قاتل بناتے پھرتے ہیں – کاش اتنی ہمت ہوتی کہ روایت مکمل پیش کی جاتی۔ اسلئے یہ بھی مجرم ثابت نہیں ہوتے۔
6۔ حضرت عمروبن حمق : یہ بھی صحابی رسولؐ تھے جنہوں نے امام مزی کے بقول حجۃ الوداع کے موقع پر محمد رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی تھی اور امام ذہبی کے بقول یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے حضرت عثمانؓ پرخنجر کے پے در پے نو وار کرتے ہوئے کہا: تین خنجر خداکے لئے مار رہا ہوں اور چھ اس چیز کے بارے میں جو تیرے بارے میں میرے دل میں ہے۔ (تہذیب الکمال، تہذیب التہذیب)
روایت نقل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ امام ذھبی کے بقول ؟- روایت کا راوی محمد بن عمر الواقدی ہے جو کہ محدثین کے ہاں کذاب ہے۔ اب جھوٹے کی روایت پر جرم ثابت ہوتا ہے تو کر لیں۔
7۔ حضرت عبدالرحمن بن عدیس: یہ اصحاب بیعت شجرہ میں سے ہیں اور قرطبی کے بقول مصر میں حضرت عثمان کے خلاف بغاوت کرنے والو ں کے لیڈر تھے یہاں تک کہ حضرت عثمان کو قتل کر ڈالا۔ (استیعاب، تاریخ الاسلام)
تاریخ اسلام واقعہ قتل عثمان سے سات سو سال بعد لکھی گئی۔ یہ ایک سنی سنائی بات ہے جو نقل کر دی گئی۔ یاد رہے کہ صحابہ کے تعارف کے لحاظ سے تو یہ اچھی کتاب ہے لیکن اس کی روایات کی خامی ہے کہ یہ تاریخ دانوں پر انحصار کر کے چلتی ہے نہ کہ محدثین کے سلسلہ روایات پر۔ اس وجہ سے ہی اس میں بہت سی بے اصل باتیں موجود ہیں۔ (مقدمہ ابن صلاح، تدریب الراوی)
ابو داود 2686: جناب ابراہیم نخعی کہتے ہے ضحاک بن قیس نے ارادہ کیا کہ مسروق کو عامل بنائے۔ تو عمارہ بن عقبہ نے کہا کہ تم ایسے آدمی کو عامل بنانا چاہتے ہو جو عثمان کے قاتلوں میں سے باقی رہ گیا ہے؟ تو مسروق نے اس سے کہا ہمیں حضرت عبداللہ بن مسعود نے بیان کیا اور وہ ہمارے نزدیک حدیث بیان کرنے میں معتبر تھے کہ نبی ص نے جب تیرے باپ (عقبہ) کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اس (عقبہ) نے کہا میرے بچوں کا کفیل کون ہوگا؟ آپ نے فرمایا آگ۔ سو میں تیرے لئے وہی پسند کرتا ہوں جسے تیرے لئے رسول ص نے پسند کیا۔
تحقیق: یہ حدیث بھی رسول اللہ کے بعد ایک ثبوت ہے تو گواہی کس نے دی اور اقرار کس نے کیا۔ قاتل کو قاتل ثابت کرنے کے لئے شرائط کیا ہوں گی؟؟ اسلئے ایسی پوسٹ سے کسی کو مُجرم ثابت نہیں کیا جا سکتا مگر منافق کو صحابی ہم بھی نہیں کہیں گے۔
سیدنا علی: سیدنا علی کا دور حکومت 35ھ سے 40ھ تک رہی جس میں اندرونی محاذ پر مسلمانوں کو لڑائی کرنا پڑی۔ جب سیدنا علی و حضرت معاویہ میں مفاہمت ہوئی یعنی صفین کے بعد صلح ہوئی تو جو باغی گروپ علیحدہ ہوا، اس کو نہروان کے مقام پر مارا گیا بلکہ زندہ جلایا گیا۔ اسی گروپ نے پھر سیدنا علی، عمرو بن عاص، معاویہ کو شہید کرنے کی کوشش کی مگر صرف سیدنا علی کو شہید کر سکے۔
سیدنا حسن: آپ کو جب خلیفہ بنایا گیا تو آپ نے امامت نہیں بلکہ خلافت کو حضرت معاویہ کے سپرد کر دیا جس سے 19 سال تک ساری ایجنسیاں انڈر گراونڈ ہو گئیں اور سیدنا حسن کا یہ فیصلہ صحیح بخاری 2704 کے مطابق تھا۔
فتوحات: 22رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسول ، فاتح شام و قبرص اور 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے سیدنا حضرت امیر معاویہ 78 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ حضرت ضحاک بن قیس نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں دفن کئے گئے۔
سیدنا حسین: ہم ظاہری طور پر دیکھتے ہیں لیکن اندر کھاتے کیا ہو رہا ہوتا ہے، ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ غیر ملکی ایجنسیوں کے لئے سیدنا حسین ایک آسان شکار تھے۔ اسلئے دور ابن معاویہ میں ان کو شہید کر دیا گیا مگر برا ہوا، مسلمانوں کا، البتہ حضرت ابوبکر، عمر، عثمان، معاویہ، عائشہ، حفصہ کے خلاف کون بولتے ہیں۔ ان کا دین کونسا ہے؟ کیا ان کا دین اسلام ہے؟
خاموش ہیں سارے کے حالات نہیں اچھے
مرنے کے قریب تک ہونے نہیں اچھے
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general