فجر کی سنتیں
کیا فجر کی جماعت ہوتے ہوئے فجر کی سنتیں ادا کی جا سکتی ہیں؟؟
پہلی بات: کیا حضور ﷺ کے زمانے میں فرض واجب، سنت موکدہ جیسے نام تھے؟؟
حضور ﷺکے دور میں فرض، واجب، سنت موکد ہ جیسے نام نہیں تھے بلکہ چار رکعت، دو رکعت کے الفاظ بولے جاتے تھے جیسے:
صحیح مسلم 1685 إذا طلع الفجر، صلى ركعتين یعنی جب فجر ہوتی تو دو رکعتیں پڑھتے۔
صحیح مسلم 1686 لم يكن على شيء من النوافل اشد معاهدة منه، على ركعتين قبل الصبح یعنی نبی کریم ﷺ کسی نفل کا اتنا خیال نہیں رکھتے تھے جتنا صبح سے پہلے دو رکعتوں کا۔
نتیجہ: صحیح بخاری و مسلم میں بھی سنتوں کو نفل یا رکعت کہا گیا حالانکہ بخاری و مسلم سے پہلے فقہا کرام نے فرض، واجب، سنت موکدہ والے الفاظ ساری احادیث کو کھنگال کر ان کی اہمیت کے مطابق عوام کو سمجھانے کے لئے ایجاد کر لئے ہوئے تھے۔
دوسری بات: فجر کی سنتوں کی اہمیت کیا ہے؟؟
صحیح مسلم 1689: فجر کی دو رکعتیں مجھے ساری دنیا سے زیادہ پیاری ہیں یعنی احب الی من الدنیا جمیعا
صحیح مسلم1688: فجر کی دو رکعتیں دنیا سے اور جو کچھ دنیا میں ہے ان سب سے بہتر ہیں۔
صحیح مسلم 1686: نبی کریم ﷺ کسی نفل کا اتنا خیال نہیں رکھتے تھے جتنا صبح سے پہلے دو رکعتوں کا۔
صحیح بخاری 1169: سیدہ عائشہ، نبی کریم ﷺ نوافل میں سے کسی اور نماز کی اتنی زیادہ پاسداری نہیں کرتے تھے جتنی آپ صبح سے پہلے کی دو رکعتوں کی کرتے تھے۔
صحیح بخاری 1182: سیدہ عائشہ، نبی کریم ﷺ صبح کی نماز سے پہلے دو رکعت سنت نماز پڑھنی نہیں چھوڑتے تھے۔
ابو داود 1258: تم ان دو رکعتوں کو نہ چھوڑو خواہ تمہیں گھوڑے روند ڈالیں۔
تیسری بات: کیا نماز فجر کی جماعت کے وقت دو سنتیں ادا کر سکتے ہیں؟
1۔ یہ بات یاد رہے کہ "واجب” لفظ امام ابو حنیفہ کی ایجاد ہے، باقی تین ائمہ کرام کے نزدیک لفظ "سنت موکدہ” ہے۔ اسلئے حنفیوں کے نزدیک نماز فجر کی جماعت بھی واجب اور فجر کی دو رکعتیں بھی اس کی اہمیت کی وجہ سے واجب۔ اسلئے ان احادیث پر عمل کرتے ہیں:
طحاوی شریف میں حدیث پاک میں ہے: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ مسجد میں تشریف لائے جبکہ امام صبح کی نماز پڑھا رہا تھا اور آپ نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے امام سے پیچھے دو رکعتیں پڑھیں پھر لوگوں کے ساتھ جماعت میں شریک ہوئے۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی، جلد 1، صفحہ 375، حدیث2201)
حضرت ابو عثمان نہدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم سیدنا عمر بن خطاب کے پاس فجر کی دو رکعتیں پڑھنے سے پہلے آتے اور سیدنا عمر نماز پڑھا رہے ہوتے تو ہم مسجد کے آخر میں دو رکعتیں پڑھتے ،پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہو جاتے۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی، جلد 1، صفحہ 376، حدیث2207)
وسوسہ: عوام میں سے کچھ کہے گی کہ نماز فجر میں قرآن سننا فرض ہے تو اس نے قرآن کی تلاوت سننا چھوڑ کر سنتیں ادا کرنی شروع کر دیں مگر نماز فجر کی جماعت میں امام کا قرآن سُننا مقتدیوں کے لئے لازم ہے جو نماز کے اندر ہیں، وضو کرنے والوں کے لئے، باتھ روم میں بیٹھوں کے لئے یا سنتیں ادا کرنے والوں کے لئے لازم نہیں ہے۔
نتیجہ: فجر کی جماعت قائم ہو اور کسی نے سنتیں نہیں پڑھیں تو اگر اتنا موقع ہے کہ سنت پڑھ کر فرضوں کا سلام پھرنے سے پہلے پہلے نماز میں شامل ہو جائے گا اگرچہ التحیات میں خواہ مختصر طور پر فرائض و واجبات کی رعایت کے ساتھ پڑھنے سے، تو صفوں سے الگ پہلے فجر کی سنتیں پڑھے اور اگر جماعت نہیں ملے گی،امام سلام پھیر دے گا تو سنت فجر چھوڑ دے اور جماعت میں شامل ہوجائے۔
چوتھی بات: اگر فجر کی سنتیں چھوٹ جائیں تو کس وقت ادا کریں؟
ترمذی 423: جس نے صبح کی سنتیں نہ پڑھی ہوں وہ طلوع آفتاب کے بعد پڑھے کیونکہ صحیح بخاری 586: بعدِ صبح نماز نہیں یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے اور عصر کے بعد نماز نہیں یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے حالانکہ ترمذی 422، ابن ماجہ 1154, ابوداود 1267 کی احادیث کی صدا سنائی دے گی کہ حضرت قیس نے فجر کی نماز کے بعد سنتیں ادا کی ہیں لیکن سورج نکلنے کے بعد نہیں کیں مگر ہم نے ابن ماجہ 1155 پر رہنا ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ فجر کی سنتیں نیند کی وجہ سے نہیں پڑھ سکے تھے ۔ اس لئے آپ نے انہیں طلوعِ آفتاب کے بعد قضا کیا۔
پانچویں بات: کیا حضور کا ایک جیسا طریقہ نماز کا ملتا ہے؟
جی نہیں ملتا، البتہ موجودہ دور میں بھی اور تقلید کا قانون منظور ہونے سے پہلے بھی نماز کے چار طریقے، چار فقہی امام حضرات نعمان بن ثابت (امام ابو حنیفہ 80 ۔150)، مالک بن انس (93۔ 179)، محمد بن ادریس (امام شافعی 150۔ 204)، احمد بن محمد حنبل (165۔ 241)ھجری نے قرآن و سنت کے مطابق سکھائے تھے:
اختلاف: چار فقہی امام کی آپس میں عقائدپر لڑائی ہرگز نہیں تھی بلکہ اختلاف کی وجہ اس وقت (1) قرآن کریم کی قراتوں میں اختلاف تھا (2) صحابہ کرام نے مختلف روایات بیان کیں تھیں (3) روایات کے ثبوت میں شبہ تھا (4) قرآن و احادیث کی نص کو سمجھنے اور اس سے مسائل اخذ کرنے کا مسئلہ تھا (5) عربی الفاظ کی ڈکشنری کے مطابق سمجھناکیونکہ مطلب میں فرق پڑ جاتا ہے (6) حالات کی وجہ سے دلائل میں فرق ہوتا ہے اس کو سمجھنا جسے دلائل میں تعارض کہتے ہیں (7) کتاب و سنت میں احکام محدود اور مسائل بہت زیادہ ہیں اسلئے اجتہاد کرنا وغیرہ۔ اسلئے ان چار امام نے مجتہد بن کر قرآن و احادیث سے سمجھنے کے بعدفقہی قانون بنائے۔
صحاح ستہ: چھ محدث امام حضرات محمد بن اسماعیل (194۔256 بخاری)، مسلم بن حجاج (204۔261)، ابو داؤد (202۔275)، محمد بن عیسی (229۔279 ترمذی)، محمد بن یزید (209۔273 ابن ماجہ)، احمد بن شعیب (215۔303 نسائی) ھجری میں پیدا ہوئے جنہوں نے احادیث اکٹھی کیں مگر عوام کوایک نماز کا طریقہ نہیں دیا بلکہ کہا جاتا ہے کہ یہ سب بھی مقلد تھے۔
چھٹی بات: تقلید کسے کہتے ہیں؟
قرآن و سنت کے مطابق کسی امام کی ہر مسئلے میں اس کے فقہی اصول و قانون ہر عمل کرنا تقلید ہے۔
خلافت عثمانیہ کے دور میں، سعودی عرب کے آنے سے پہلے، اہلسنت علماء کرام کے فیصلے کے مطابق، خانہ کعبہ میں پانچوں نمازیں، ایک وقت میں، چار ائمہ کرام کے ماننے والے تھوڑے سے وقت کے ساتھ ادا کرتے تھے۔ سعودیہ کے وہابی علماء نے آ کر قرآن و صحیح احادیث کا نعرہ لگا کر، تقلید کا قانون توڑ دیا لیکن کسی کو کوئی قانون نہیں دیا۔
اسلئے قانون توڑنے سے سارے شیر ہیں اب عوام کبھی بابا اسحاق، کبھی مرزا انجینئر، غامدی، اہلحدیث جماعت، سلفی، توحیدی، محمدی، وہابی، ڈاکٹر اسرار بلکہ جتنے بندے اتنے فرقوں میں صحیح احادیث کے نام پر بٹ گئے۔ کوئی ایک حدیث سُناتا ہے اور دوسرا دوسری حالانکہ چار ائمہ کرام کی نماز میں سب احادیث موجود ہیں۔
ساتویں بات: حل کیا ہے؟
رفع یدین، اونچی آمین، امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا، نماز جنازہ وغیرہ کا فرق نہیں ہے بلکہ اصول و قانون کا فرق ہے۔ چار ائمہ کرام کی تقلید میں کوئی رفع یدین کرے یا اونچی آمین سب جائز ہیں اور جو اپنے اپنے فارمولے سے نماز کا طریقہ سکھا رہے ہیں تو بتا دیں کہ یہ طریقہ نسل در نسل کس کا کس قانون و اصول پرسکھایا ہوا ہے