ہمارے بچے مساجد سے دور کیوں؟
سسٹم فلاپ تب ہوتا ہے جب ہم مکمل طور پر سسٹم کو خود جام کرنے کے مُجرم بنتے ہیں یا سسٹم کا ایک پہلو دیکھتے ہیں جیسے:
لوگ کہتے ہیں کہ مساجد میں بچوں کو آنے دو، شور شرابہ کرنے دو کیونکہ تمہاری رنگ ٹون بھی تو بج جاتی ہے، مسجد کے باہر بھی تو شور شرابہ ہو رہا ہوتا ہے، مسجد نہیں آئیں گے تو سیکھیں گے کیسے؟
1۔ ابن ماجہ 1377: نبی کریم ﷺنے فرمایاکہ تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔
سٹم فلاپ تب ہوا جب بچوں کے سامنے والدین نے نمازیں ادا نہیں کیں۔ اسلئے والد صاحب کو چاہئے کہ فرض نماز پڑھکر گھر آ کر سنتیں نفل پڑھے، یہ سنت بھی ہے اور استحبابی حکم بھی ہے۔
2۔ ابن ماجہ 750: مساجد کو بچوں، پاگلوں، خرید و فروخت، جھگڑے، آوازیں بلند کرنے، حدود قائم کرنے، تلوار یں کھینچنے سے بچاؤ اور ان کے دروازوں پر طہارت خانے بناؤ اور جمعہ کے دن مساجد کو دھونی دیا کرو۔
سیدنا عمر بن الخطاب جب بچوں کو مسجد میں کھیلتے ہوئے دیکھتے تھے، تو ان کو درہ سے مارتے تھے۔ (تفسیر ابن کثیر، ج: 3، ص: 275) یہ بھی یاد رہے کہ یہ درہ شریعت کا پابند تھا اور بچوں کی طاقت کے مطابق حرکت میں آتا تھا، یہ ہِپ پر استعمال ہوتا ہو گا۔
یاد رہے کہ مساجد پاکستان کی نہیں بلکہ مسجد نبوی اور مسجد حرام کے لئے بھی بچوں کے لئے یہی حکم ہو گا کیونکہ یہ احادیث نبوی مسجد نبوی میں ہی نبی کریم صحابہ کرام کو سکھا رہے ہیں۔
3۔ ابوداود 495: تمہاری اولاد جب سات سال کی ہوجائے ،تو انھیں نماز ( پڑھنے) کا حکم دو اور وہ دس سال کے ہو جائیں (اور پھر بھی نماز نہ پڑھیں) تو انھیں (ادب سکھانے کے لیے معمولی) مارپیٹ کرو اور اُن کی خواب گاہیں الگ کرو۔
سسٹم کہتا ہے کہ بچوں کی تربیت والدین کریں اور طریقہ بھی بتا دیا، اب اس پر عمل والدین نہ کریں تو ان کی مرضی۔ نبی کریم ﷺ سے بڑھکر اصول دینے والا کوئی نہیں۔
4۔ ابوداود 674: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ لوگ جو بالغ اور عقلمند ہیں میرے قریب رہیں، پھر جو ان سے قریب ہیں پھر جوان سے قریب ہیں۔
سسٹم یہ کہتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے قریب رہ کر نماز پڑھانا سیکھو تاکہ امامت کروا سکو لیکن سسٹم یہاں بھی کرپٹ ہے کیونکہ زیادہ تر مولوی صاحبان مساجد میں کسی ایک کو بھی امامت کے لئے تیار نہیں کرتے۔ مساجد میں امام بنانے کا رواج ہی نہیں ہے، اسلئے ساری زندگی نماز ادا کرنے والے بھی امامت نہیں کرا سکتے۔
5۔ صحیح بخاری 380: حضرت ملیکہ نے رسول اللہ ﷺ کے لیے کھانا تیار کرکے دعوت کی۔آپ ﷺ نے کھانا کھایا پھر فرمایا۔کھڑے ہوجاؤ ،تمھیں نماز پڑھاؤں انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں اپنی ایک چٹائی کی طرف اُٹھا جو کثرت استعمال سے سیاہ ہوچکی تھی۔اس پر میری نانی نے پانی چھڑکا آپ ﷺ کھڑے ہوگئے۔میں اور ایک لڑکا آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور بڑھیا ہمارے پیچھے تھیں۔رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیردیا۔”
6۔صھیح بخاری 86: میں ایک گدھی پر سوار ہوکرآیا۔میں ان دنوں بلوغت کے قریب تھا اور رسول اللہ ﷺ منیٰ میں دیوار کے بغیر نماز پڑھارہے تھے میں (اگلی) صف کے کچھ حصے سے گزرا اور گدھی کو میں نے چرنے کے لیے چھوڑدیا اور میں صف میں داخل ہوگیا مجھ پر کسی نے اس بات پر انکار نہیں کیا۔
پہلی صف مردوں کی، پھر بچوں کی، پھر عورتوں کی بنے گی۔ اگر بچہ سمجھدار ہے تو صف میں کھڑا ہونے سے نماز ہو جاتی ہے، اسکو پیچھے نہیں ہٹانا چاہئے۔
تجزیاتی رپورٹ
1۔ ایسا بچّہ جس سے نَجاست (یعنی پیشاب وغیرہ کردینے) کا خطرہ ہو، ڈایپر لگا کر بھی نہیں لانا اور پاگل کو مسجِدکے اندرلے جانا حرام ہے اور اگر نَجاست کا خطرہ نہ ہو تو مَکرُوہ ہے۔
2۔ ایسا بچہ جو مسجد کے آداب کا خیال نہیں رکھ سکتا، مسجد میں اچھل کود کرے گا، لوگوں کی نمازیں خراب کرے گا، اس کو بھی مسجد میں لانے کی اجازت نہیں ۔
3۔البتہ اگر بچہ ایسا ہے جس کے مسجد میں نجاست کرنے کا احتمال بھی نہیں اور وہ مسجد کے آداب کا بھی خیال رکھ سکتا ہے تو ایسے بچوں کو مسجد میں لانا، جائز ہے۔
4۔ ہر اچھا بالغ و نابالغ بچہ جو نماز جانتا ہو اسے پہلی صف میں کھڑا کرنے میں بھی حرج نہیں ہے۔