سایہ

 

جب ہم حضور ﷺ کا سایہ تھا یا نہیں کا مطالعہ کریں گے، تو علم ہو گا کہ یہ جھگڑا اصل میں سلطنت عثمانیہ کے دور کے اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی بمقابلہ سعودی عرب اور ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے سلفی، توحیدی، محمدی، وہابی، اہلحدیث و غیرمقلد اور دیوبندی حنفی کے ساتھ ہے۔ اب دونوں طرف کے دلائل مطالعہ کرتے ہیں۔
پوائنٹ 1: اہلسنت نے قرآن مجید کی روشنی میں لکھا
1۔ بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (ﷺ) آیا اور روشن کتاب (المائده: 15)
2۔ اے نبی بے شک ہم نے تمہیں شاھد، خوشخبری اور ڈر سنانے والا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا (الاحزاب: 46)
تشریح: جب رسول اللہ ﷺ نور و آفتا ب ہوئے، روشن کرنے والے ہوئے تو لا محالہ ظلمت و اندھیرے کا آپ ﷺ سے تعلق نہ رہا کیونکہ اندھیرا روشنی کی ضد ہے جیسے قرآن فرماتا ہے:
3۔ سب تعریفیں اللہ تعالی کے لئے جس نے آسمان اور زمین پیدا فرمائے اور اندھیرے اور نور پیدا فرمائے۔ پھر ک اف ر لوگ (دوسروں کو) اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں۔ (الانعام: 1) کیا برابر ہیں اندھیرا اور نور۔ (الرعد: 16)
4۔ اور بے شک ہم نے موسيٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے اجالے میں لا۔ (ابراهیم: 15) اسی طرح سورہ ابراهيم: 1، سورہ البقرة: 257، سورہ الحديد: 9 بھی پڑھیں۔
تجزیاتی رپورٹ
پہلی بات: نور و ظلمت آپس میں متضاد ہیں۔ جہاں ایک ہو دوسرا نہیں ہوسکتا۔ رسول اللہ ﷺ روشن آفتاب (سِرَاج مُنِيْر) اور نور ہیں۔ نور کی ضد بشر نہیں بلکہ اندھیرا ہے، اسلئے نبی کریم ﷺ کے نور کا انکار کرنے سے آپ ﷺ ظلمت و اندھیرا ماننا ہو گا، کیا کسی میں ہمت ہے کہ نبی کریم ﷺ کو اندھیرا کہے؟
دوسری بات: قرآن و احادیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ کامل مکمل اکمل بشر ہیں جن پر وحی آتی ہے، وہ ہمارے جیسے نہیں ہیں اور جو ان کے بشر ہونے کا انکار کرے مسلمان نہیں ہے اور جو اپنا جیسا سمجھے وہ بھی مسلمان نہیں۔
اہلحدیث حضرات کا قرآن سے استدلال
سورہ رعد 15: اور جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی اور ناخوشی سے اللہ تعالیٰ کے آگے سجدہ کرتی ہیں اور ان کے سائے بھی صبح و شام سجدہ کرتے ہیں۔
سورہ النخل 48: کیا انہوں نے اللہ کی مخلوقات میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا کہ اس کے سائے دائیں اور بائیں سے لوٹتے ہیں یعنی اللہ کے آگے عاجز ہو کر سربسجود ہوتے ہیں۔
پہلی بات: قرآن کی دو آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین و آسمان میں اللہ نے جتنی مخلوق پیدا کی ہے ان کا سایہ بھی ہے اور رسول اللہ ﷺ بھی تو اللہ کی مخلوق ہیں لہذٰا آپ ﷺ کا بھی سایہ تھا۔
اعتراض: اہلسنت نے ان دو آیات کا کب انکار کیا ہے مگر رسول اللہ ﷺ کو قرآن کریم میں نور اور سراج منیر (روشنی دینے والا چراغ) فرمایا گیا، اسلئے نبی کریم ﷺ کی بعض خصوصیات مخلوق سے جُدا ہیں۔
پوائنٹ 2: اہلسنت کا احادیث و محدثین کی رائے سے دلائل
1۔ امام ترمذی نے ذکوان سے روایت کی: ان رسول اللہ لم یکن لہ ظل فی الشمس ولا قمر ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کا سایہ نہ دھوپ میں نظر آتا نہ چاندنی میں۔ (الخصاص الکبری بحوالہ الحکیم الترمذی ج 1 ص 68)
2۔ حضرت عبداللہ ابن مبارک اور حافظ جوزی نے حضرت ابن عباس سے روایت: حضور ﷺ کے جسم پاک کا سایہ نہیں تھا، نہ سورج کی دھوپ میں نہ چراغ کی روشنی میں، سرکار کا نور سورج اور چراغ کے نور پر غالب رہتا تھا۔ (الخصائص الکبرٰی ج 1 ص 68 از نفی الظل، علامہ کاظمی زرقانی علی المواہب ج 4 ص 220، جمع الوسائل للقاری ج 1 ص 176)
3۔ امام نسفی فرماتےہیں: حضرت عثمان غنی نے حضور اقدس ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ اللہ تعالٰی نے آپ ﷺ کا سایہ زمین پر نہیں ڈالا تاکہ کوئی انسان اس پر اپنا قدم نہ رکھ دے۔ (تفسیر مدارک ج 2 ص 103)
4۔ حضرت جلال الدین سیوطی نے مستقل ایک باب (باب الایةِ فی انّهٗ ﷺ لم یکن یرٰی لهٗ ظلٌّ یعنی اس معجزہ کا بیان کہ حضوراقدس ﷺ کے جسم کا سایہ نہیں دیکھا گیا) تحریر فرمایا۔ (خصائص کبری ج 1 ص 68)
5۔ حضرت ابن سبع نے کہا یہ حضوراقدس ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا اس لئے کہ وہ نور تھے تو جب چاند وسورج کی روشنی میں وہ چلتے تھے تو سایہ نظرنہیں آتا تھا۔ بعض ائمہ نے کہا کہ اس خصوصیت پر حضور اقدس ﷺ کی وہ حدیث شاہد ہے کہ جس میں آپ کی یہ دعاء منقول ہے کہ اے اللہ مجھے نور بنادے۔ (خصائص کبری ج 1 ص 68)
6۔ امام قاضی عیاض تحریرفرماتے ہیں: یہ جو ذکر کیا گیا ہے کہ آفتاب و ماہتاب کی روشنی میں حضور ﷺ کے جسم مبارک کا سایہ نہیں پڑتا تھا تو اس کی وجہ یہ ہے حضور ﷺ (بشر ہونے کے علاوہ) نور تھے۔ (شفا شریف ج 1، ص 342 ۔ 343)
7۔ امام علامہ احمد قسطلانی تحریر فرماتے ہیں: سرکار دو عالم ﷺ کے جسم اطہر کا سایہ نہ آفتاب کی روشنی میں پڑتا تھا نہ ماہتاب کی چاندی میں، ابن سبع اس کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نور تھے، اسی لئے چاندنی اور دھوپ میں چلتے تھے تو جسم پاک کا سایہ نہیں پڑتا تھا۔ (مواہب اللدنیہ ج 1 ص 180، زرقانی ج 4 ص 220)
8۔ امام ابن حجر مکی تحریر فرماتے ہیں: اس بات کی تائید میں کہ حضور ﷺ سراپا نور تھے اسی واقعہ کا اظہار کافی ہے کہ حضور ﷺ کے جسم مبارک کا سایہ نہ دھوپ میں پڑتا تھا، نہ چاندنی میں، اس لئے کہ سایہ کثیف چیز کا ہوتا ہے، اور خدائے پاک نے حضور کو تمام جسمانی کثافتوں سے پاک کرکے انھیں "نور محض“ بنا دیا تھا اس لئے ان کا سایہ نہیں پڑتا تھا۔ (افضل القرٰی ج 1 ص 129)
9۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی تحریرفرماتے ہیں: حضور ﷺ کا سایہ نہ آفتاب کی روشنی میں پڑتا تھا نہ ماہتاب کی چاندنی میں۔ (مدراج النبوۃ ج 1 ص 21) مزید تحریر فرماتے ہیں: حضور اقدس ﷺ سراپا نور ہیں اور نور کیلئے سایہ نہیں ہوتا۔ (مدارج النبوۃ ج 1 ص 118) مزید تحریر فرماتے ہیں: آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا۔ (تفسیر عزیزی پارہ عم ص 219)
10۔ حضرت شیخ احمد مجددالف ثانی تحریرفرماتےہیں: بیشک حضوراقدس ﷺ کا سایہ نہیں تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم شہادت میں ہرچیز سے اس کا سایہ لطیف ہوتا ہے اور حضوراقدس ﷺ سے لطیف کائنات میں کوئی چیز نہیں تو پھر آپ کا سایہ کس صورت سے ہو سکتا ہے۔ (مکتوبات شریف ج 2 صفحہ 187)
پھر تحریر فرماتے ہیں: جب محمد رسول اللہ ﷺ کے لطیف ہونے کے سبب سایہ نہیں ہے تو حضوراقدس ﷺ کے خداکے لئے کیسے سایہ ہو سکتا ہے۔ (مکتوبات شریف ج 2 ص 237)
اہلحدیث کا صحیح و حسن لذاتہ احادیث سے استدلال
پہلی و دوسری حدیث: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’فبینما أنا یومًافي منصف النھا ر، إذا أنا بظل رسو ل اللہ ﷺ مقبلاً‘‘ دوپہر کا وقت تھاکہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کا سایہ آرہا ہے۔ (مسند احمد: حدیث 26250)، (مسند احمد:حدیث 25002)(طبقات الکبریٰ ج 8 ص 127) (مجمع الزوائد ج 4 ص 323)
اسی طرح کی ایک طویل روایت سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے جس کا ایک حصہ کچھ یوں ہے ’’فلما كان شهر ربيع الاول دخل عليها فرأت ظله……الخ‘
جب ربيع الاول كا مہینہ آیا تو آپ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے انھوں نے آپ ﷺ کا سایہ دیکھا…(مسند احمد: حدیث 26866)
اعتراض: لغت میں ظل کا مطلب سایہ بھی ہوتا ہے اور ظل کا مطلب ذات بھی ہے۔ اسلئے اس فبينما انا يوما بنصف النهار اذا انا بظل رسول الله ﷺ مقبل کا ترجمہ ہو گا کہ اسی دوران دوپہر کے وقت میں نے رسول اللہ ﷺ کی ذات پاک کو سامنے سے آتے دیکھا۔
دوسرا اللہ پاک قیامت کے دن فرمائے گا۔ میری عزت و جلال کی بنا پر آپس میں محبت کرنے والے کہاں ہیں: اَلْيَوْمَ اُظِلُّهُمْ فِيْ ظِلِّيْ يَوْمَ لاَ ظِلَّ اِلاَّ ظِلِّيْ ترجمہ: آج میں ان کو اپنے سایہ میں، زیر سایہ رکھوں گا۔ جس دن میرے سائے کے بغیر کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (مشکوة ص 425 بحواله مسلم)
اعتراض: کیا یہاں بھی ظل کا مطلب اللہ کا سایہ ہی کریں گے جیسا رسول اللہ ﷺ کا سایہ ثابت کرتے ہو؟
تیسری حدیث: سیدنا انس فرماتے ہیں کہ ایک رات نبی کریم ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی اور نماز کی حالت میں اپنا ہاتھ اچانک آگے بڑھایا، مگر پھر جلدی ہی پیچھے ہٹا لیا۔ ہم نے عرض کیا: ’’ اے اللہ کے رسول ! آج آپ نے خلاف معمول نماز میں ایک نیا عمل کیا ہے۔ “ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ میرے سامنے ابھی ابھی جنت پیش کی گئی، میں نے اس میں بہترین پھل دیکھے تو جی میں آیا کہ اس میں سے کچھ اچک لوں مگر فورا حکم ملا کہ پیچھے ہٹ جاؤ، میں پیچھے ہٹ گیا، پھر مجھ پر جہنم پیش کی گئی حتي رايت ظلي و ظلكم اس کی روشنی میں میں نے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا، دیکھتے ہی میں نے تمہاری طرف اشارہ کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔ (صحیح ابن خزیمہ،ج 2 ص 50 حدیث: 892) (مستدرک حاکم ج 4 ص 456)
اعتراض: کیا جہنم میں اصلی سورج کی روشنی ہوگی اور وہاں کی روشنی سے اسطرح کا استدلال گمراہی نہیں؟
تیسری حدیث: جب سیدنا جابر کے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ غزوہ احد میں شہید ہو گئے تو ان کے اہل و عیال ان کے گرد جمع ہو گئے اور رونے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ما زالت الملائكة تظله باجنحتها حتى رفعتموه ’’ جب تک تم انہیں یہاں سے اٹھا نہیں لیتے اس وقت تک فرشتے اس پر اپنے پروں کا سایہ کیے رکھیں گے۔ “ (بخاری، كتاب الجنائز : باب الدخول على الميت بعد الموت 1244)
اعتراض: اگر فرشتوں نے سایہ کیا ہوا تھا تو حضور ﷺ کو دکھائی دے رہا تھا یا سب کو؟
اہلحدیث حضرات کے دیگر اعتراضات
1۔ اجتہاد مثلاً آثارِ صحابہ، آثارِ تابعین، آثارِ تبع تابعین، آثارِ ائمہ اربعہ اور آثارِ خیر القرون وغیرہ میں سایہ کے متعلق ذکر نہیں ملتا۔ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام سے بھی یہ قول ثابت نہیں اور خیر القرون کے صدیوں بعد سیوطی، قسطلانی، زرقانی اور ملا علی قاری وغیرہ ہم کے بے سند حوالہ جات کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہے۔
جواب: یہ تو پہلے ہی بتا دیا ہے کہ یہ مسئلہ خلافت عثمانیہ کے محدثین اور سعودیہ کے وہابی علماء کے درمیان ہے۔ دوسرا اعتراضات تو آپ کی احادیث پر بھی موجود ہیں۔
2۔ آپ ﷺ کا سایہ تھا۔ اگر جسم اطہر کا سایہ مبارک نہ تھا تو کیا جب آپ ﷺ لباس پہنتے تو آپ کو ملبوسات کا بھی سایہ نہ تھا۔ اگر وہ کپڑے اتنے لطیف تھے کہ ان کا سایہ نہ تھا تو پھر ان کے پہننے سے ستر وغیرہ کی حفاظت کیسے ممکن ہو گی؟
3۔ سایہ پاؤں کے نیچے آ ہی نہیں سکتا، جب کبھی کوئی شخص سائے پر پاؤں رکھے گا تو سایہ اس کے پاؤں کے اوپر ہو جائے گا نہ کہ نیچے۔
جواب: محدثین کی رائے کے سامنے ایسے عقلی دلائل کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
4۔ دیوبندی علماء عاشق الٰہی میرٹھی اور زکریا دیوبندی وغیرہ کا عقیدہ یہ تھا کہ نبی ﷺ کا سایہ نہیں تھا۔ (امداد السلوک ص 201، فضائل درود ص 115) لیکن دوسری طرف نور محمد تونسوی دیوبندی نے عدم سایہ کی روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’بعض روایتوں سے حضور اکرم ﷺ کے سایہ کا ثبوت ملتا ہے‘‘ (حقیقی نظریات صحابہ ص 217)
جواب: سلطنت عثمانیہ ختم ہونے کے بعد اور سعودی عرب کے وہابی علماء کے آنے کے بعد دیوبندی علماء اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی و حنبلی کے متفقہ عقائد و اعمال سے یو ٹرن لے کر سیاسی طور پر سعودیہ کے وہابی علماء کے ساتھ ہو گئے حالانکہ ان کی المہند کتاب کو سعودیہ کے وہابی علماء کے سامنے پیش کیا جائے تو دیوبندی کو بدعتی و مشرک کہیں۔
نوٹ: جناب احمد رضا خاں صاحب جن کو مجدد وقت کہا جاتا ہے، ان کا فتاوی رضویہ سلطنت عثمانیہ کے دور کے اہلسنت علماء کرام کے متفقہ عقائد و اعمال کا انسائیکلوپیڈیا ہے۔ اس مسئلے کے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے فتاوی رضویہ کی ج 30 میں موجودامام اہلسنت ،امام احمدرضاخان علیہ الرحمۃ کے یہ رسائل ضرور مطالعہ فرمائیں:(الف) نفی الفیئ عمن استنار بنورہ کل شیئ (ب) قمرالتمام فی نفی الظل عن سیدالانام علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام (ج) ھدی الحیران فی نفی الفیئ عن سیدالاکوان علیہ الصلوۃ والسلام۔
اہم بات: دونوں طرف کے جذباتی و متعصب عوام کو سمجھنا چاہئے کہ حضور ﷺ کا سایہ تھا یا نہیں تھا، یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس پر کسی کو اسلام سے نکال دیں۔
مشورہ: اہلسنت بریلوی حضرات کو چھوڑ کر مسجد نبوی و خانہ کعبہ کے نامزد امام کے پیچھے نماز ادا کرنے والے پاکستان کے دیوبندی حنفی، سلفی، توحیدی، محمدی، غیر مقلد اور اہلحدیث جماعتوں کو اپنی اپنی شناخت مٹا کر ایک جماعت، ایک عقیدہ، ایک طرح کی نماز ادا کرنے والا ہونا چاہئے تاکہ فرقہ واریت کا خاتمہ ہو ورنہ خود سمجھ لیں کہ فرقہ واریت کس کی طرف سے ہے اور اہلسنت کے خلاف پراپیگنڈا کیوں؟
رائے: اس تحریر کو لکھنے کے لئے اہلسنت و اہلحدیث و دیوبندی کے مختلف فتاوی و آرٹیکلز پڑھ کر لکھا گیا ہے جس میں سچے وہ ہیں جن کی رائے یہ ہے:
بیشک حضوراقدس ﷺ کے جسم اطہر کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا کیونکہ آپ بشرہونے کے ساتھ نور بھی ہیں اور نور کا سایہ نہیں ہوتا۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general