قبر پر اذان
قبر پر اذان، نماز غوثیہ، استمداد، توسل، استغاثہ وغیرہ کے الفاظ ایک دوسرے کو سمجھانے میں غلطی ہو رہی ہے کیونکہ ہم ایک دوسرے کو اکٹھا کرنے کے لئے نہیں سمجھا رہے بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے لڑ رہے ہیں نہیں حالانکہ سب سے پہلے اہلسنت و اہلحدیث جماعت کے قانون و اصول کی پہچان ہونی چاہئے۔
جناب احمد رضاخاں صاحب نے قبر پر اذان نماز کے لئے نہیں بلکہ میت کو تلقین کے لئے لکھا اور مندرجہ ذیل دلائل دئے۔ البتہ رسالہ میں سے عربی نکال دی ہے تاکہ مزید لمبی پوسٹ نہ ہو، دلائل مضبوط ہیں لیکن قبر پر اذان دینا پھر بھی فرض نہیں بلکہ مستحب کہلائے گا۔
استفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ دفن کے وقت جو قبر پر اذان کہی جاتی ہے۔ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟بینوا توجروا۔
الجواب: بعض علمائے دین نے میت کو قبر میں اتارتے وقت اذان کہنے کو سنت فرمایا۔ امام ابن حجر مکی وعلامہ خیر الملۃ والدین رَملی استاذِ صاحب درمختار علیہم رحمۃ الغفار نے ان کا یہ قول نقل کیا: مکی نے اپنے فتاوٰی اور شرح العباب میں نقل کیا اور اس نے معارضہ کیا، رملی نے حاشیہ بحرالرائق میں نقل کیا اور اسے کمزور کہا)۔ حق یہ ہے کہ اذان مذکور فی السوال کا جواز یقینی ہے۔ ہرگز شرع مطہر سے اس کی ممانعت پر کوئی دلیل نہیں اور جس امر سے شرع منع نہ فرمائے اصلاً ممنوع نہیں ہوسکتا۔ قائلانِ جواز کے لئے اسی قدر کافی۔ جو مدعی ممانعت ہو دلائل شرعیہ سے اپنا دعویٰ ثابت کرے پھر بھی مقام تبرع میں آکر فقیر غفراﷲ تعالیٰ بدلائل کثیرہ اس کی اصل شرعِ مطہر سے نکال سکتا ہے جنہیں بقانون مناظرہ اسانید سوال تصور کیجئے فاقول وباﷲ التوفیق وبہٖ الوصول الٰی ذری التحقیق۔
دلیل اول: جب بندہ قبر میں رکھا جاتا اور سوال نکیرین ہوتا ہے شیطانِ رجیم وہاں بھی خلل انداز ہوتا اور جواب میں بہکاتا ہے۔ امامِ ترمذی محمد بن علی نوادرالاصول میں امام اجل سفیانِ ثوری رحمۃ ﷲ تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں: جب مردے سے سوال ہوتا ہے کہ تیرارب کون ہے۔ شیطان اس پر ظاہر ہوتا ہے اور اپنی طرف اشارہ کرتا ہے کہ میں تیرا رب ہوں۔ اس لئے حکم آیا کہ میت کے لئے ثابت قدم رہنے کی دعا کریں۔
امام ترمذی فرماتے ہیں: وہ حدیثیں اس کی مؤید ہیں جن میں وارد کہ حضور حضورﷺ میت کو دفن کرتے وقت دعا فرماتے: الٰہی اسے شیطان سے بچا اگر وہاں شیطان کا کچھ دخل نہ ہوتا تو حضور اقدس حضورﷺ یہ دعا کیوں فرماتے اور صحیح حدیثوں سے ثابت کہ اذان شیطان کو دفع کرتی ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہما میں حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی حضور اقدس حضورﷺ فرماتے ہیں: جب مؤذن اذان کہتا ہے۔ شیطان پیٹھ پھیر کر گوززناں بھاگتا ہے‘‘۔ صحیح مسلم کی حدیث جابر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے واضح کہ چھتیس میل تک بھاگ جاتا ہے اور خود حدیث میں حکم آیا کہ جب شیطان کا کھٹکا ہو، فوراً اذان کہو کہ وہ دفع ہوجائے گا۔
اخرجہ الامام ابوالقاسم سلیمٰن بن احمد الطبرانی فی اوسط معاجیمہٖ عن ابی ھریرۃ رضیﷲ تعالٰی عنہ ہم نے اپنے رسالے ’’نسیم الصبا فی ان الاذان یحول الوبا‘‘ میں اس مطلب پر بہت احادیث نقل کیں اور جب ثابت ہولیا کہ وہ وقت عیاذًا باﷲ مداخلت شیطان لعین کا ہے اور ارشاد ہوا کہ شیطان اذان سے بھاگتا ہے اور ہمیں حکم آیا کہ اس کے دفع کو اذان کہو تو یہ اذان خاص حدیثوں سے مستنبط بلکہ عین ارشادِ شارع کے مطابق اور مسلمان بھائی کی عمدہ امداد واعانت ہوئی جس کی خوبیوں سے قرآن و حدیث مالامال۔
دلیل دوم: جب سعد بن معاذ رضیﷲ تعالیٰ عنہ‘ دفن ہوچکے اور قبر درست کردی گئی نبی ﷺ دیر تک سبحانﷲ، سبحانﷲ فرماتے رہے اور صحابہ کرام بھی حضور کے ساتھ کہتے رہے۔ پھر حضور ﷲ اکبرﷲ اکبر فرماتے رہے اور صحابہ بھی حضور کے ساتھ کہتے رہے، پھر صحابہ نے عرض کی یا رسول ﷲ حضور اول تسبیح پھر تکبیر کیوں فرماتے رہے؟ ارشاد فرمایا اس نیک مرد پر اس کی قبر تنگ ہوئی تھی۔ یہاں تک کہﷲ تعالیٰ نے وہ تکلیف اس سے دور کی اور قبر کشادہ فرما دی۔ (احمدو طبرانی و بیہقی)
علامہ طیبی شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں: حدیث کے معنی یہ ہیں کہ برابر میں اور تم ﷲ اکبر ﷲ اکبرسبحٰن ﷲ سبحٰنﷲ کہتے رہے یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ نے اس تنگی سے انہیں نجات بخشی۔
اقول اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خود حضور اقدس صلی ﷺ نے میت پر آسانی کے لئے بعد دفن کے قبر پرﷲ اکبر، ﷲ اکبر بار بار فرمایا ہے۔ اور یہی کلمہ مبارکہ اذان میں چھ بار ہے تو عین سنت ہوا۔ غایت یہ کہ اذان میں اس کے ساتھ اور کلمات طیبات زائد ہیں سو ان کی زیادت نہ معاذ ﷲ مضر، نہ اس امر مسنون کے منافی بلکہ زیادہ مفید و مؤید مقصود ہے کہ رحمت الٰہی اتارنے کے لئے ذکرِ خدا کرنا تھا، دیکھو یہ بعینہٖ وہ مسلک نفیس ہے جو دربارہ تلبیہ اجلہ صحابۂ عظام مثل حضرت امیر المومنین عمر و حضرت عبدﷲ بن عمر و حضرت عبدﷲ بن مسعود وحضرت امام حسن مجتبیٰ و غیرہم رضیﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین کو ملحوظ ہوا اور ہمارے ائمہ کرام نے اختیار فرمایا۔ ہدایہ میں ہے:ان کلمات میں کمی نہ چاہیئے کہ یہی نبی ﷺ سے منقول ہیں تو ان سے گھٹائے نہیں اور اگر بڑھائے تو جائز ہے کہ مقصودﷲ تعالیٰ کی تعریف اور اپنی بندگی کا ظاہر کرنا ہے تو اور کلمے زیادہ کرنے سے ممانعت نہیں۔ فقیر غفرﷲ تعالیٰ لہ نے اپنے رسالہ ’’صفائح للجین فی کون التصافح بکفی الیدین (۱۳۰۶)‘‘ وغیرہا رسائل میں اس مطلب کی قدرے تفصیل کی۔
دلیل سوم: بالاتفاق سنت اور حدیثوں سے ثابت اور فقہ میں مثبت کہ میت کے پاس حالت نزع میں کلمۂ طیبہ لا الہ الا ﷲ کہتے رہیں کہ اسے سن کر یاد ہو۔ حدیث متواتر میں ہے حضورِ اقدس ﷺ فرماتے ہیں:اپنے مردوں کو لا الٰہ الا ﷲ سکھائو رواہ احمد و مسلم و ابوداؤد و الترمذی والنسائی وابن ماجہ
اب جو نزع میں ہے وہ مجازاً مردہ ہے اور اسے کلمہ سکھانے کی حاجت کہ بحولﷲ تعالیٰ خاتمہ اسی پاک کلمے پر ہو اور شیطانِ لعین کے بہلانے میں نہ آئے اور جو دفن ہو چکا حقیقۃً مردہ ہے اور اسے بھی کلمہ پاک سکھانے کی حاجت کہ بعون ﷲ تعالیٰ جواب یاد ہوجائے اور شیطانِ رجیم کے بہکانے میں نہ آئے اور بے شک اذان میں یہی کلمہ لا الٰہ الا اﷲ تین جگہ موجود بلکہ اس کے تمام کلمات جوابِ نکیرین بتاتے ہیں۔ ان کے سوال تین ہیں من ربک تیرا رب کون ہے؟ ما دینک تیرا دین کیا ہے؟ ما کنت تقول فی ھذا الرجل تو اس مرد یعنی نبی ﷺ کے باب میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ اب اذان کی ابتداء میں ﷲ اکبر، ﷲ اکبر، ﷲ اکبر، ﷲ اکبر، اشھد ان لا الٰہ الا ﷲ، اشھد ان لا الٰہ الا ﷲ اورآخر میں ﷲ اکبر، ﷲ اکبر، لا الٰہ الا ﷲ، سوال من ربک کا جواب سکھائیں گے ان کے سننے سے یاد آئے گا کہ میرا رب ﷲ ہے اور اشھد ان محمدًا رسول ﷲ، اشھد ان محمدًا رسول ﷲ، سوال ما کنت تقول فی ھٰذا الرجل کا جواب تعلیم کریں گے کہ میں انہیں ﷲ کا رسول جانتا تھا اور حی علیٰ الصلٰوۃ، حی علی الفلاح، جواب ما دینک کی طرف اشارہ کریں گے کہ میرا دین وہ تھا جس میں نماز رکن و ستون ہے کہ الصلٰوۃ عماد الدین تو بعد دفن اذان دینا عین ارشاد کی تعلیم ہے جو نبی ﷺ نے حدیث صحیح متواتر مذکورمیں فرمایا۔
دلیل چہارم: حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں: آگ کو تکبیر سے بجھائو۔ ابن عدی حضرت عبدﷲ بن عباس وہ اور ابن السنی و ابن عساکر حضرت عبدﷲ بن عمروبن عاص رضی ﷲ تعالیٰ عنہم سے راوی حضور ﷺ فرماتے ہیں: جب آگ دیکھو ﷲ اکبر، ﷲ اکبر کی بکثرت تکرار کرو وہ آگ کو بجھادیتا ہے۔
علامہ مناوی تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں: ’’فکبروا‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ﷲ اکبر، ﷲ اکبر، کثرت کے ساتھ بار بار کہو)۔ مولانا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری اس حدیث کی شرح میں کہ حضور ﷺ قبر کے پاس دیر تک ﷲ اکبر، ﷲ اکبر فرماتے رہے، لکھتے ہیں:اب یہ ﷲ اکبر، ﷲ اکبر کہنا غضبِ الٰہی کے بجھانے کو ہے و لہٰذا آگ لگی دیکھ کر دیر تک تکبیر مستحب ٹھہری‘‘۔
وسیلۃ النجاۃ میں حیرۃ الفقہ سے منقول ہے: اہل قبرستان پر تکبیر کہنے میں حکمت یہ ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: جب تم کسی جگہ آگ بھڑکتی ہوئی دیکھو اور تم اسے بجھانے کی طاقت نہ رکھتے ہو، تو تکبیر کہو کہ اس تکبیر کی برکت سے وہ آگ ٹھنڈی پڑجائے گی چونکہ عذاب قبر بھی آگ کے ساتھ ہوتا ہے اور اسے تم اپنے ہاتھ سے بجھانے کی طاقت نہیں رکھتے لہٰذا ﷲ کا نام لو تاکہ فوت ہونے والے لوگ دوزخ کی آگ سے خلاصی پائیں گے)۔ یہاں سے بھی ثابت کہ قبر مسلم پر تکبیر کہنا فرد سنت ہے تو یہ اذان بھی قطعاً سنت پر مشتمل اور زیادات مفیدہ کا مانعِ سنیت نہ ہونا تقریر دلیل دوم سے ظاہر ہے۔
دلیل پنجم: ابن ماجہ و بیہقی میں حضرت عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کے ساتھ ایک جنازہ میں حاضر ہوا، حضرت عبدﷲ رضیﷲ تعالیٰ عنہ نے جب اسے لحد میں رکھا کہا۔ بسم ﷲ وفی سبیل ﷲ، جب لحد برابر کرنے لگے کہا الٰہی اسے شیطان سے بچا اور عذاب قبر سے امان دے پھر فرمایا میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ امام تر مذی حکیم قدس سرہ الکریم بسند جید عمرو بن مرۃ تابعی سے روایت کرتے ہیں: صحابہ کرام یا تابعین عظام مستحب جانتے تھے کہ جب میت کو لحد میں رکھا جائے تو دعا کریں الٰہی اسے شیطان رجیم سے پناہ دے۔
ابن ابی شیبہ مستحب جانتے تھے کہ جب میت کو دفن کریں یوں کہیں اللہ کے نام سے اور اللہ کی راہ میں اور رسول اللہ ﷺ کی ملت پر، الٰہی اسے عذاب قبر وعذاب ِ دوزخ و شیطان ملعون کے شرسے پناہ بخش۔ ان حدیثوں سے جس طرح یہ ثابت ہوا کہ اس وقت عیاذا بااللہ شیطان رجیم کا دخل ہوتا ہے یونہی یہ بھی واضح ہوا کہ اس کے دفع کی تدبیر سنت ہے کہ دعا نہیں مگر ایک تدبیر اور احادیث سابقہ دلیل اول سے واضح کہ اذان دفع شیطان کی ایک عمدہ تدبیر ہے تو یہ بھی مقصود شارع کے مطابق اور اپنی نظیر شرعی سے موافق ہوئی۔
دلیل ششم: ابو داؤد و حاکم و بیہقی: حضوراقدس ﷺ جب دفن میت سے فارغ ہوتے قبر پر وقوف فرماتے اور ارشاد کرتے اپنے بھائی کیلئے استغفار کرو اور اس کے لیے جواب نکیرین میں ثابت قدم رہنے کی دعا مانگو کہ اب اس سے سوال ہو گا‘‘۔ سعید بن منصور اپنے سنن میں:’’جب مردہ دفن ہو کر قبر درست ہو جاتی تو حضورسید عالم ﷺ قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرتے الٰہی ہمارا ساتھی تیرا مہمان ہوا اور دنیا اپنے پس پشت چھوڑ آیا۔ الٰہی سوال کے وقت اسکی زبان درست رکھ اور قبر میں اس پر وہ بلا نہ ڈال جس کی اسے طاقت نہ ہو‘‘۔
ان حدیثوں اور احادیثِ دلیل پنجم وغیرہ سے ثابت کہ دفن کے بعد دعا سنت ہے۔ امام محمد بن علی حکیم ترمذی قدس سرہ دعا بعد دفن کی حکمت میں فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ بجماعت مسلمین ایک لشکر تھا کہ آستانۂ شاہی پر میت کی شفاعت وعذر خواہی کیلئے حاضر ہوا اوراب قبر پر کھڑے ہو کر دعا یہ اس لشکر کی مدد ہے کہ یہ وقت میت کی مشغولی کا ہے اسے اس نئی جگہ کا ہول اور نکیرین کا سوال پیش آنے والا ہے، نقلہ المولی جلال الملۃ والدین السیوطی رحمہ ﷲ تعالیٰ فی شرح الصدوراور میں گمان نہیں کرتا کہ یہاں استحباب دعا کا عالم میں کوئی عالم منکر ہو۔
امام آجری فرماتے ہیں: مستحب ہے کہ دفن کے بعد کچھ دیر کھڑے رہیں اورمیت کیلئے دعا کریں‘‘۔ اسی طرح اذکار امام نووی و جوہرہ نیرہ و در مختار و فتاوی عالمگیریہ و غیرہا اسفار میں ہے طرفہ یہ کہ امام ثانی منکرین مولوی اسحق صاحب دہلوی نے مائۃ مسائل میں اسی سوال کے جواب میں کہ بعد دفن قبر پر اذان کیسی ہے؟ فتح القدیر و بحر الرائق و نہر الفائق و فتاوی عالمگیریہ سے نقل کیا کہ قبر کے پاس کھڑے ہو کر دعا سنت سے ثابت ہے اور براہ بزرگی اتنا نہ جانا کہ اذان خود دعا بلکہ بہترین دعا سے ہے کہ وہ ذکرالٰہی ہے اور ہر ذکر الٰہی دعا تو وہ بھی اسی سنت ثابتہ کی ایک فرد ہوئی پھر سنیت مطلق سے کراہت فرد پر استدلال عجب تما شا ہے۔
مولانا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری مرقاۃ شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں کل دعا ذکرٌ و کل ذکر دعائٌ ہر دعا ذکر ہے اور ہر ذکر دعا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں افضل الدعاء الحمد للہ سب دعاؤں سے افضل دعا الحمد للہ ہے‘‘اخرجہ الترمذی و حسنہ والنسائی و ابن ماجۃ و ابن حبان و الحاکم و صححہ عن جابر بن عبدﷲ رضی ﷲ تعالٰی عنہما۔
صحیحین میں ہے ایک سفر میں لوگوں نے بآواز بلند اللہ اکبر، اللہ اکبر کہنا شروع کیا نبی ﷺ نے فرمایا اے لوگو اپنی جانوں پر نرمی کرو ’’تم کسی بہرے یا غائب سے دعا نہیں کرتے سمیع بصیر سے دعا کرتے ہو‘‘۔ دیکھو حضور اقدس ﷺ اللہ تعالیٰ کی تعریف اور خاص کلمہ اللہ اکبر کو دعا فرمایا تو اذان کے بھی ایک دعا اور فرد مسنون ہونے میں کیا شک رہا۔
دلیل ہفتم: یہ تو واضح ہو لیا کہ بعد دفن میت کے لیے دعا سنت ہے اور علماء فرماتے ہیں آداب دعا سے ہے کہ اس سے پہلے کوئی عمل صالح کرے ۔ امام شمس الدین محمد بن الجزری کی حصن حصین شریف میں ہے: آداب دعا میں سے ہے کہ اس سے پہلے عمل صالح ہو اور ذکر الٰہی مشکل وقت میں ضرور کرنا چاہیئے۔
علامہ علی قاری حرز ثمین میں فرماتے ہیں یہ ادب حدیث ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہ ابو داؤد و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ و ابن حبان نے روایت کی ثابت ہے اور شک نہیں کہ اذان بھی عمل صالح ہے تو دعا پر اس کی تقدیم مطابق مقصودِ سنت ہوئی۔
دلیل ہشتم: رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: دو دعائیں رد نہیں ہوتیں ایک اذان کے وقت اور ایک جہاد میں، جب کفار سے لڑائی شروع ہو‘‘۔ اخرجہ ابو داؤد و ابن حبان و الحاکم بسند صحیح عن سھل بن سعد الساعدی رضی ﷲ عنہ اور فرماتے ہیں حضور ﷺ: جب اذان دینے والا اذان دیتا ہے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دعا قبول ہوتی ہے۔ اخرجہ ابویعلی و الحاکم عن ابی امامۃ الباھلی و ابوداؤد الطیالسی و ابو یعلی و الضیاء فی المختارۃ بسند حسن عن انس ابن مالک رضی ﷲ عنہما ان حدیثوں سے ثابت ہوا کہ اذان اسباب اجابت دعا سے ہے اور یہاں دعا شارع جل و علا کو مقصود تو اس کے اسباب اجابت کی تحصیل قطعا ًمحمود۔
دلیل نہم: حضورﷺ فرماتے ہیں: اذان کی آواز جہاں تک جاتی ہے مؤذن کیلئے اتنی ہی وسیع مغفرت آتی ہے اور جس تر و خشک چیز کو اس کی آواز پہنچتی ہے اذان دینے والے کیلئے استغفار کرتی ہے۔ اخرجہ الا مام احمد بسند صحیح واللفظ لہ و البزار و الطبرانی فی الکبیر عن عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ عنھما و نحوہ عند احمد و ابی داؤد و النسائی و ابن ماجۃ و ابن خزیمۃ و ابن حبان من حدیث ابی ھریرۃ رضی ﷲ عنہ و صدرہ عند احمد و النسائی بسند حسن جید عن البرآء بن عازب و الطبرانی فی الکبیرعن ابی امامۃ و لہ فی الاوسط عن انس بن مالک رضی ﷲ عنہم۔ یہ پانچ حدیثیں ارشاد فرماتی ہیں کہ اذان باعث مغفرت ہے اور بیشک مغفور کی دعا زیادہ قابل قبول و اقرب باجابت ہے اور خود حدیث میں وارد کہ مغفوروں سے دعا منگوانی چاہیئے۔ امام احمد مسند میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے راوی حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں: ’’جب تو حاجی سے ملے اسے سلام کر اور مصافحہ کر اور قبل اس کے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو اس سے اپنے لئے استغفار کرا کہ وہ مغفورہے‘‘۔ پس اگر اہل اسلام بعد دفن میت اپنے میں کسی بندہ صالح سے اذان کہلوائیں تاکہ بحکم احادیث صحیحہ انشاء اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کی مغفرت ہو پھر میت کیلئے دعا کرے کہ مغفور کی دعا میں زیادہ رجائے اجابت ہو تو کیا گناہ ہوا بلکہ عین مقاصد شرع سے مطابق ہوا۔
دلیل دہم: اذان ذکر الٰہی ہے اور ذکر الٰہی دافع عذاب۔ رسول ﷲ ﷺ فرماتے ہیں: کوئی چیز ذکر خد اسے زیادہ عذاب خدا سے نجات بخشنے والی نہیں رواہ الامام احمد عن معاذ بن جبل وا بن ابی الدنیا وا لبیھقی عن ابن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہما اور خود اذان کی نسبت وارِد جہاں کہی جاتی ہے وہ جگہ اس دن عذاب سے مامون ہو جاتی ہے۔
طبرانی: حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں: جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو ﷲ تعالیٰ اس دن اسے اپنے عذاب سے امن دے دیتا ہے اور اس کی شاہد وہ روایت ہے جو معجم کبیر میں حضرت معقل بن یسار رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے) اور بے شک اپنے بھائی مسلمان کیلئے ایسا عمل کرنا جو عذاب سے منجی ہو شارع جل و علا کو محبوب و مرغوب، مولانا علی قاری رحمہ الباری شرح عین العلم میں قبر کے پاس قرآن پڑھنے اور تسبیح و دعائے رحمت و مغفرت کرنے کی وصیت فرماکر لکھتے ہیں: ذکر جس قدر ہیں سب میت کو قبرمیں نفع بخشتے ہیں۔ امام بدرالدین محمود عینی شرح صحیح بخاری میں زیر باب ’’موعظۃ المحدث عند القبر‘‘ فرماتے ہیں! میت کے لیے اس میں مصلحت ہے کہ مسلمان اس کی قبر کے پاس جمع ہو کر قرآن پڑھیں، ذکر کریں کہ میت کو اس سے نفع ہوتا ہے۔ یارب مگر اذان ذکر محبوب نہیں یا مسلمان بھائی کو نفع ملنا شرعا ً مرغوب نہیں۔
دلیل یازد ہم: اذان ذکر مصطفی ﷺ ہے اور ذکر مصطفی ﷺ باعث نزول رحمت، اولاً حضورکا ذکر عین ذکر خدا ہے۔ امام ابن عطا پھر امام قاضی عیاض وغیرہما ائمہ کرام تفسیر قولہ تعالیٰ و رفعنا لک ذکرک میں فرماتے ہیں: میں نے تمہیں اپنی یاد میں سے ایک یاد کیا۔ جو تمہارا ذکر کرے وہ میرا ذکر کرتا ہے، اور ذکرالٰہی بلا شبہ رحمت اترنے کا باعث۔ سید عالم ﷺ صحیح حدیث میں ذکر کرنے والوں کی نسبت فرماتے ہیں: ’’انہیں ملائکہ گھیر لیتے ہیں اور رحمت الٰہی ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکینہ اور چین اترتا ہے۔ رواہ مسلم و الترمذی عن ابی ھریرۃ و ابی سعید رضی ﷲ عنھما۔
ثانیاً ہر محبوبِ خدا کا ذکر محلِ نزولِ رحمت ہے۔ امام سفین بن عیینیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: نیکوں کے ذکر کے وقت رحمت الٰہی اترتی ہے۔ ابو جعفر بن حمدان نے ابو عمرو بن نجید سے اسے بیان کر کے فرمایا: رسول اللہ ﷺ تو سب صالحین کے سردار ہیں، پس بلاشبہ جہاں اذان ہوگی رحمت الٰہی اترے گی اور بھائی مسلمان کیلئے وہ فعل جو باعث نزول رحمت ہو شرع کو پسند ہے نہ کہ ممنوع۔
دلیل دوازدہم: خود ظاہر اورحدیثوں سے بھی ثابت کہ مردے کو اس نئے مکان تنگ و تار میں سخت وحشت اور گھبراہٹ ہوتی ہے مگر جس پر میرا رب رحم فرمائے یقیناً میرا رب بخشش فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے) اور اذان دافع دحشت وباعث اطمینانِ خاطر ہے کہ وہ ذکر خدا ہے اور اللہ عزوجل فرماتا ہے: سن لو خدا کے ذکر سے چین پاتے ہیں دل‘‘۔ ابو نعیم و ابن عساکر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی حضور سرور عالم ﷺ فرماتے ہیں: ’’جب آدم علیہ الصلوٰۃ و السلام جنت سے ہندوستان میں اترے انہیں گھبراہٹ ہوئی تو جبرئیل علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اتر کر اذان دی‘‘۔ پھر ہم اس غریب کی تسکین خاطر و دفع توحش کو اذان دیں تو کیا براکریں۔ حاشا بلکہ مسلمان خصوصاً ایسے بیکس کی اعانت حضرت حق عزوجل کو نہایت پسند ہے حضور سید عالم ﷺ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ بندے کی مدد میں ہے جب تک بندہ اپنے بھائی مسلمان کی مدد میں ہے۔ رواہ مسلم و ابو داؤد و الترمذی وابن ماجۃ والحاکم عن ابی ہریرۃ رضی ﷲ عنہ اور فرماتے ہیں: جو اپنے بھائی مسلمان کے کام میں ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی میں ہو۔ اور جو کسی مسلمان کی تکلیف دور کرے اللہ تعالیٰ اس کے عوض قیامت کی مصیبتوں سے ایک مصیبت اس پر سے دور فرمائے۔ رواہ الیشخان وابو داؤد عن ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما۔
دلیل سیز دہم (13): مسند الفردوس میں سیدنا علی مرتضیٰ سے مروی: ’’مجھے حضور سید عالم ﷺ نے غمگین دیکھا، ارشاد فرمایا: اے علی! میں تجھے غمگین پاتا ہوں۔ اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے۔ اذان غم و پریشانی کی دافع ہے‘‘۔ مولیٰ علی اور مولیٰ علی تک جس قدر اس حدیث کے راوی ہیں سب نے فرمایا: ہم نے اسے تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا۔ ذکرہ ابن حجر کما فی المرقاۃ اور خود معلوم اور حدیثوں سے بھی ثابت کہ میت اس وقت کیسے حزن و غم کی حالت میں ہوتا ہے مگر وہ خاص عباد اللہ اکابر اولیاء اللہ جو مرگ کو دیکھ کر مرحبا بحبیب جآء علیٰ فاقۃٍ (خوش آمدید اس محبوب کو جو بہت دیر سے آیا) فرماتے ہیں تو اس کے دفع غم والم کے لیے اگر اذان سنائی جائے، کیا معذورِ شرعی لازم آئے حاشاللہ! بلکہ مسلمان کا دل خوش کرنے کے برابر اللہ عزوجل کو فرائض کے بعد کوئی عمل محبوب نہیں۔ طبرانی معجم کبیر، معجم اوسط میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے راوی حضور پر نورﷺ فرماتے ہیں: بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک فرضوں کے بعد سب اعمال سے زیادہ مسلمان کا دل خوش کرنا ہے۔ انہیں دونوں میں حضرت امام ابن الا مام سیدنا حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی حضور سید عالم ﷺ فرماتے ہیں: بے شک موجبات مغفرت سے ہے تیرا اپنے بھائی مسلمان کو خوش کرنا۔
دلیل چہا درہم: قال ﷲ تعالیٰ: اے ایمان والو اللہ کا ذکر کرو بکثرت ذکر کرنا، حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں: اللہ کا ذکراس درجہ بکثرت کرو کہ لوگ مجنون بتائیں۔ اخرجہ احمد و ابو یعلی و ابن حبان و الحا کم و البیھقی عن ابی سعید الخدری رضی ﷲ عنہ صححہ الحاکم و حسنہ الحا فظ ابن حجر اور فرماتے ہیں: ہر سنگ و شجر کے پاس اللہ کا ذکر کر اخرجہ الامام احمد فی کتا ب الزھد و الطبرانی فی الکبیر عن معاذ بن جبل رضی ﷲ عنہ بسند حسن۔
عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر کوئی فرض مقرر نہ فرمایا مگر یہ کہ اس کے لئے ایک حد معین کر دی۔ پھر عذر کی حالت میں لوگوں کو اس سے معذور رکھا۔ سوا ذکر کے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے کوئی حد مقرر نہ رکھی جس پر انتہا ہو اور نہ کسی کو اس کے ترک میں معذور رکھا مگر وہ جس کی عقل سلامت نہ رہے اور بندوں کو تمام احوال میں ذکر کا حکم دیا۔ ان کے شاگرد امام مجاہد فرماتے ہیں: ذکرکثیریہ ہے کہ کبھی ختم نہ ہو۔ ذکر الٰہی ہمیشہ ہر جگہ محبوب و مرعوب و مطلوب و مندوب ہے جس سے ہرگز ممانعت نہیں ہو سکتی۔ جب تک خصوصیت خاصہ کوئی شرعی نہ آئی ہو اور اذان بھی قطعاً ذکر خدا ہے۔ پھر خدا جانے کہ ذکر خدا سے ممانعت کی وجہ کیا ہے۔ ہمیں حکم ہے کہ ہم ہر سنگ و درخت کے پاس ذکر الٰہی کریں۔ قبرِ مومن کے پتھر کیا اس حکم سے خارج ہیں۔ خصوصاً بعد دفن ذکر خدا کرنا تو خود حدیثوں سے ثابت اور بہ تصریح ائمہ دین مستحب و لہٰذا امام اجل ابو سلیمان خطابی دربارئہ تلقین فرماتے ہیں: ہم اس میں کوئی حدیث مشہور نہیں پاتے اور اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے کہ اس میں نہیں ہے مگر خدا کا ذکر اور یہ سب کچھ محمود ہے۔
دلیل پانز دہم: امام اجل ابو زکریا نووی شارح صحیح مسلم کتاب الا ذکار میں فرماتے ہیں: مستحب یہ ہے کہ دفن سے فارغ ہو کر ایک ساعت قبر کے پاس بیٹھیں اتنی دیر کہ ایک اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گو شت تقسیم ہواور بیٹھنے والے قرآن مجید کی تلاوت اور میت کے لئے دعا اور وعظ و نصیحت اور نیک بندوں کے ذکر و حکایت میں مشغول رہیں۔ شیخ محقق مولانا عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ لمعات شرح مشکوٰۃ میں زیر حدیث امیرالمومنین عثمان غنی رضی اللہ عنہ کہ فقیر نے دلیل ششم ذکر فرماتے ہیں: بتحقیق میں نے بعض علماء سے سنا کہ دفن کے بعد قبر کے پاس کسی مسئلہ فقہ کا ذکر مستحب ہے‘‘۔
اشعۃ اللعمات شرح فارسی مشکوٰۃ میں اس کی وجہ بیان فرماتے ہیں’’کہ باعث نزول رحمت است‘‘ (نزول رحمت کا باعث ہے) اور فرماتے ہیں’’مناسب حال ذکر مسئلہ فرائض است ‘‘(ذکر مسئلہ فرائض مناسب حال ہے) اور فرماتے ہیں کہ اگر’’ختم قرآن کنند ادلیٰ وافضل باشد‘‘ (اگر قرآن پاک ختم کریں تو یہ اولیٰ اور بہتر ہے)۔ جب علماء کرام نے حکایت اہل خیر و تذکرہ صالحین وختم قرآن و بیا ن مسئلہ فقہیہ و ذکرِ فرائض کو مستحب ٹھہرایا حالانکہ ان میں بالحضوص کوئی حدیث وارد نہیں بلکہ وجہ صرف وہی کہ میت کو نزول رحمت کی حاجت اور اِن امور میں ا مید نزول رحمت تو اذان کہ بشہادت احادیث موجب نزول رحمت و دفع عذاب ہے کیو نکر جائز بلکہ مستحب نہ ہوگی۔
بحمدﷲ: یہ پندرہ دلیلیں ہیں کہ چند سا عت میں فیض قدیر سے قلب فقیر پر فائض ہوئیں ناظر منصف جانے گا کہ ان میں کثرت تو محض استخراج فقیر ہیں اور باقی کے بعض مقدمات اگرچہ بعض اجلہ علمائے اہل سنت و جماعت رحمہم اللہ تعالیٰ کے کلام میں مذکور مگر فقیرغفراللہ تعالیٰ لہ نے تکمیل ترتیب و تسجیل تقریب سے ہر مقدمہ منفردہ کو دلیل کامل اور ہر مذکور ضمنی کو مقصود مستقل کردیا و الحمد للہ رب العالمین
ہم پر ان اکابر کا شکر واجب جنہوں نے اپنی تلاش و کوشش سے بہت کچھ متفرق کو یکجا کردیا اور اس دشوار کام کو ہم پر آسان کردیا۔
تنبیھات جلیلہ
تنبیہ اول: ہمارے کلام پر مطلع ہونے والا عظمت رحمت الٰہی پر نظر کرے کہ اذان میں انشاء اللہ الرحمن اس میت اور ان احیاء کے لئے کتنے منافع ہیں سات فا ئدے میت کیلئے
(۱) بحولہٖ تعالیٰ شیطان رجیم کے شرسے پناہ۔
(۲) بدولت تکبیر عذاب نار سے امان۔
(۳) جواب سوالات کا یاد آجانا۔
(۴) ذکر اذان کے باعث عذاب قبر سے نجات پانا۔
(۵) بہ برکت ذکر مصطفی ﷺ نزول رحمت۔
(۶) بدولت اذان دفع و حشت۔
(۷) زوال غم حصول سرور و فرحت اور پندرہ احیاء کیلئے، سات تو یہی سات منافع اپنے بھائی مسلمان کو پہنچانا کہ ہر نفع رسانی جدا حسنہ ہے او رہر حسنہ کم از کم دس نیکیاں۔ پھر نفع رسانی مسلم کی منفعتیں خدا ہی جا نتا ہے۔
( ۸) میت کیلئے تدبیر دفع شیطان سے اتباع سنت۔
(۹) تدبیر آسانیٔ جواب سے اتباع سنت۔
(۱۰) دعاء عند القبرسے اتباع سنت۔
(۱۱) بقصد نفع میت قبر کے پاس تکبیریں کہہ کر اتباع سنت۔
(۱۲) مطلق ذکر کے فوائد ملنا جن سے قرآن وحدیث مالا مال۔
(۱۳) ذکر مصطفی ﷺ کے سبب رحمتیں پانا۔
(۱۴) مطلق دعا کے فوائد ہاتھ آنا جسے حدیث میں مغز عبادت فرمایا۔
(۱۵) مطلق اذان کے برکات ملنا جن میں منتہائے آواز تک مغفرت اور ہر ترو خشک کی استغفار و شہادت اور دلوں کو صبر و سکون و راحت ہے۔ اورلطف یہ کہ اذان میں اصل کلمے سات ہی ہیں۔
ﷲ اکبر، اشھد ان لا الہ الا ﷲ، اشھد ان محمد اً رسول ﷲ، حی الصلٰوۃ، حی علیٰ الفلاح، ﷲ اکبر، لا الہ الا ﷲ اور مکررات کو گنئے تو پندرہ ہوتے ہیں میت کے لیے وہ سات فائدے اور احیاء کیلئے پندرہ انہی سات اور پندرہ کے برکات ہیں۔ والحمدللہ رب العالمین!
تعجب کرتا ہوں کہ حضرات مانعین نے میت و احیاء کو ان فوائد جلیلہ سے محروم رکھنے میں کیا نفع سمجھا ہے؟ ہمیں تو مصطفی ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا ہے: ’’تم میں سے جس سے ہو سکے اپنے بھائی مسلمان کو نفع پہنچائے لازم اور مناسب ہے کہ پہنچائے۔ رواہ احمد و مسلم عن جابر بن عبدﷲ رضی ﷲ عنھما۔ پھر خدا جانے اس اجازت کلی کے بعد جب تک خاص جذئیہ کی شرع میں نہی نہ ہو مما نعت کہاں سے کی جاتی ہے واللہ المو افق۔
تنبیہ دوم:حدیث میں ہے نبی ﷺ فرماتے ہیں: مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے رواہ البیھقی عن انس و الطبرانی فی الکبر عن سھل بن سعد رضی ﷲ عنھما اور بے شک جو علم نیت جانتا ہے ایک ایک فعل کو اپنے لیے کئی کئی نیکیاں کر سکتا ہے مثلاً جب نماز کیلئے مسجد کو چلا اور صرف یہی قصد ہے کہ نماز پڑھوں گا تو بے شک اس کا یہ چلنا محمود ہر قدم پر ایک نیکی لکھیں گے اور دوسرے پر گناہ محوکریں گے مگر عالم نیت اس ایک ہی فعل میں کئی نیتیں کرسکتا ہے۔
(۱) اصل مقصود یعنی نماز کو جاتا ہوں۔
(۲) خانہ خدا کی زیارت کروںگا۔
(۳) شعارِ اسلام ظاہر کرتا ہوں۔
(۴) داعی اللہ کی اجابت کرتا ہوں۔
(۵) تحیۃ المسجد پڑھنے جاتا ہوں۔
(۶) مسجد سے خس وخاشاک وغیرہ دور کروں گا۔
(۷) اعتکاف کرنے جاتا ہوں کہ مذہب مفتی بہ پر اعتکاف کے لئے روزہ شرط نہیں اور ایک ساعت کا بھی ہو سکتا ہے، جب سے داخل ہو باہر آنے تک اعتکاف کی نیت کرلے انتظار نماز و ادائے نماز کے ساتھ اعتکاف کا بھی ثواب پا ئے گا۔
(۸) امر الٰہی خذوا زینتکم عند کل مسجد (جب مسجد میں جائو) کے امتثال کو جاتا ہوں۔
(۹) جو وہاں علم والا ملے گا اس سے مسائل پوچھوں گا، دین کی باتیں سیکھوں گا۔
(۱۰) جاہلوں کو مسئلے بتاؤں گا، دین سکھاؤنگا۔
(۱۱) جوعلم میں میرے برابرہو گا اس سے علم کی تکرار کروںگا۔
(۱۲) علماء کی زیارت۔
(۱۳) نیک مسلمانوں کا دیدار۔
(۱۴) دوستوں سے ملاقات۔
(۱۵) مسلمانوں سے میل۔
(۱۶) جو رشتہ دار ملیں گے ان سے بکشادہ پیشیانی مل کر صلہ ٔ رحم۔
(۱۷) اہل اسلام کو سلام۔
(۱۸) مسلمانوں سے مصافحہ کروں گا۔
(۱۹) ان کے سلام کا جواب دو ں گا۔
(۲۰) نماز جماعت میں مسلمانوں کی برکتیں حاصل کرونگا۔
(۲۱،۲۲) مسجد میں جاتے نکلتے حضور سید عالم ﷺ پر سلام عرض کروں گا۔ بسم ﷲ الحمد ﷲ والسلام علی رسول ﷲ۔
(۲۳، ۲۴) دخول و خروج میں حضور و آل حضور و ازواج حضور پر درود بھیجوں گا کہ اللھم صل علی سیدنا محمدوعلیٰ ال سید نا محمدوعلی ازواج سیدنا محمد۔
(۲۵) بیمار کی مزاج پرسی کروں گا۔
(۲۶) اگر کوئی غمی والا ملا تعزیت کروں گا۔
(۲۷) جس مسلمان کو چھینک آئی، اس نے الحمدللہ کہا اسے ’’یرحمک ﷲ‘‘ کہوں گا۔
(۲۸،۲۹) امر بالمعرف و نہی عن المنکرکروں گا۔
(۳۰) نمازیوں کے وضو کو پانی دوں گا۔
(۳۱،۳۲) خود مؤذن ہے یا مسجد میں کوئی مؤذن مقرر نہیں تو نیت کرے کہ اذان و اقامت کہوں گا۔ اب اگر یہ کہنے نہ پا یا۔ دوسرے نے کہہ دی تاہم اپنی نیت پر اذان و اقامت کا ثواب پا چکا: ﷲ تعالیٰ اسے اجر عطا فرمائے گا)۔
(۳۳) جو راستہ بھولا ہوگا راستہ بتاؤں گا۔
(۳۴) اندھے کی دستگیری کروں گا ۔
(۳۵) جنازہ ملا تو نماز پڑھوں گا۔
(۳۶) موقع پایا تو ساتھ دفن تک جاؤں گا۔
(۳۷) دو مسلمانوں میں نزع ہو ئی توحتی الو سع صلح کراؤں گا۔
(۳۸،۳۹) مسجد میں جاتے وقت داہنے اور نکلتے وقت بائیں پاؤں کی تقدیم سے اتباع سنت کروں گا۔
(۴۰) راہ میں لکھا ہوا کاغذ پاؤں گا اٹھا کر ادب سے رکھ دوں گا۔
الٰی غیر ذالک من نیات کثیرۃ تو دیکھئے جو اِن ارادوں کے ساتھ گھر سے مسجد کو چلا وہ صرف حسنہ نماز کیلئے نہیں جاتا بلکہ ان چالیس حسنات کیلئے جاتا ہے تو گویا اس کا یہ چلنا چالیس طرف چلنا ہے اور ہر قدم چالیس قدم۔ پہلے اگر ہر قدم ایک نیکی تھی اب چالیس نیکیاں ہونگی۔ اسی طرح قبر پر اذان دینے والے کو چاہیئے کہ ان پندرہ نیتوں کا تفصیلی قصد کرے تاکہ ہر نیت پر جدا گانہ ثواب پائے اور ان کے ساتھ یہ بھی ارادہ ہو کہ مجھے میت کیلئے دعا کا حکم ہے۔ اس کی اجابت کا سبب حاصل کرتا ہوں اور اس سے پہلے عمل صالح کو تقدیم چاہیئے یہ ادب دعا بجا لاتا ہوں۔ الٰی غیر ذالک مما یستخرجہ العارف النبیل و ﷲ الھادی الٰی سوآء السبیل بہت لوگ اذان تو دیتے ہیں مگر ان منا فع دینیات سے غافل ہیں۔ وہ جو کچھ نیت کرتے ہیں اسی قدر پائیں گے۔ فانما الاعمال با لنیات و انما لکل امریئٍ مانویٰ۔
تنبیہ سوم: جہال منکرین یہاں اعتراض کرتے ہیں کہ اذان تو اعلام نماز کے لیے یہاں کونسی نماز ہو گی جس کیلئے اذان کہی جاتی ہے مگر یہ ان کی جہالت انہیں کو زیب دیتی ہے وہ نہیں جا نتے کہ نماز میں کیا کیا اغراض و منا فع ہیں اور شرع مطہر نے نماز کے سوا کن کن مواضع میں اذان مستحب فرمائی ہے ازانجملہ گوش مغموم میں اور دفع وحشت کو کہنا تو یہیں گذرا اور بچے کے کان میں اذان دینا سنا ہی ہو گا۔ ان کے سوا اور بہت مواقع ہیں۔