محافل میلاد
شارح مسلم علامہ غلام رسول سعیدی صاحب رقمطراز ہیں:”بعض غیر معتدل لوگ ہر نیک اور اچھے کام میں ہوا وہوس کے تقاضے سے برائی کے راستے نکال لیتے ہیں۔اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض شہروں میں عید میلاد کے جلوس کے تقدس کو بالکل پامال کر دیا گیا۔ جلوس تنگ راستے سے گزرتا ہے اور مکانوں کی کھڑکیاں اور بالکونیوں سے نوجوان لڑکیاں اور عورتیں شرکاء جلوس پر پھول وغیرہ پھینکتی ہیں۔ (شاید ایصال ثواب کی نیت سے العیاذ باللہ) اوباش نوجوان فحش حرکتیں کرتے ہیں۔ جلوس میں مختلف گاڑیوں پر فلمی گانوں کی ریکارڈنگ ہوتی ہے اور نوجوان لڑکے فلمی گانوں کی دھن پرناچتے ہیں اور نماز کے اوقات میں جلوس چلتا رہتا ہے۔ مساجد کے آگے سے گزرتا ہے لیکن نماز کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا۔ اس قسم کے جلوس میلاد النبی ﷺ کے تقدس پر بد نما داغ ہیں۔ ان کی اگر اصلاح نہ ہو سکے تو ان کو فوراً بند کر دینا چاہئے کیونکہ ایک امرِ مستحسن کے نام پر ان حرکات کے ارتکاب کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔ البتہ ان غیر شرعی جلوسوں کو دیکھ کر مطلقاً عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس کوغیر شرعی کہنا صحیح نہیں ہے اور جن شہروں اور جگہوں میں عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس اپنی شرعی حدود و قیود کیساتھ نکلتے ہیں ان جلوسوں پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔“ (شرح صحیح مسلم جلد ثالث صفحہ171)
محفلِ میلاد میں کیا ہوتا ہے؟
تلاوت کلام پاک: حضرت امام احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں: ”لازم ہے محفل میلاد مبارک میں تلاوت قرآن عظیم ہمیشہ سے معمول علماءکرام و بلادِ اسلام ہے ۔“
امام جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ اپنے فتاویٰ میں فرماتے ہیں: ”میلاد شریف کی اصل لوگوں کا جمع ہونا، قرآن مجید کی تلاوت کیا جانا اور ان آیات و احادیث و روایات کو بیان کرنا جو آنحضرت ﷺ کی شان میں وارد ہوئی ہیں ۔“ (الحاوی للفتاویٰ جلد 1 صفحہ 189)
علامہ شامی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: میلاد شریف منانا کہ جس کو ہم نے مستحسن قرار دیا ہے اس میں قرآن مجید کی تلاوت اور کھانا کھلانے کا اہتمام کرنا ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔“
حضرت امام احمد رضا خان بریلوی نے ہی فتاویٰ ہندیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام جب کسی مجلس میں جمع ہوتے تو اپنے ساتھیوں میں سے کسی ایک کو فرمایا کرتے کہ وہ قرآن مجید کی کوئی سورت تلاوت کرے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 118)
تا ہم تلاوت قرآن مجید کے دراون مندرجہ ذیل آداب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے: قرآن مجید کو خو ش الحانی سے پڑھنا جس میں لہجہ خوش نما، دلکش پسندیدہ، دل آویز، غافل دلوں پر اثر ڈالنے والا ہو، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جو خوش الحانی سے قرآنِ مجید نہ پڑھے، وہ ہم میں سے نہیں ۔“ (فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 300، 366)
مدح خوانی: محافلِ میلاد میں حمد باری تعالیٰ کے ساتھ ساتھ نعتیہ اشعار کا پڑھنا اور حاضرین کا نیت نیک سے سننا جائز ہے بلکہ مستحب و مستحسن ہے۔ بخاری شریف کی صحیح حدیث میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کےلئے منبر بچھواتے تھے اور وہ اس پر کھڑے ہو کر نعت اقدس سناتے تھے جبکہ حضور نبی اکرم ﷺ سنتے تھے ۔ان کے علاوہ دیگر صحابہ نے بھی بارگاہِ رسالت ﷺ میں کھڑے ہو کر نعت خوانی کا شرف حاصل کیا ہے تا ہم نعت خوانی کےلئے چند آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے:
1۔ نعت سادہ خوش الحانی کے ساتھ ہو، گانوں کی طرز پر نہ پڑھی جائے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 363)
2۔ نعت خوانی آلاتِ لہو و لعب اور افعالِ لغو مثلاً مزا میر وغیرہ کے ساتھ نہ کی جائے۔(فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 79)
دف اور نعت خوانی: دف کا حکم عام آلاتِ لہو و لعب سا نہیں بلکہ خوشی کے لمحات میں اس کا استعمال جائز ہے مگر اس کےلئے چند شرائط ہیں۔ جناب احمد رضا خاں صاحب لکھتے ہیں: ”اوقات مسرور میں دف جائز ہے بشرطیکہ اس میں جلا جل یعنی جھانج نہ ہو، نہ وہ موسیقی کے تان سر پر بجایا جائے ورنہ وہ بھی ممنوع ۔“ (فتاویٰ رضویہ 25 صفحہ 37)
ذکر والی نعت خوانی سے پرہیز: علماء اسلام نے ذکر والی مروجہ نعت خوانی کو بھی ناجائز قرار دیا ہے۔ اس لئے محافل میلاد کو اس سے پاک کرنا چاہئے۔ حضرت مفتی اختر رضا خان بریلوی اس کے متعلق فرماتے ہیں :”نعت میں ذکر کی آواز اس طرح سنائی دیتی ہے جیسے دف کے ساتھ ذکر ہو رہا ہو اور ایسی آواز جو دف سے مشابہ ہو منہ سے نکالنا جائز نہیں کہ طریقہ فساق ہے اور ذکر و غیرہ میں شبہ ناجائز، نیز اللہ تعالیٰ عزوجل کے نام مبارک کو بصورت مزامیر پیش کرنے میں نور اہانت بھی ہے۔ اس لئے اس کا عدم جواز شدید ترین ہے اگر چہ نیت خیر ہو“ ( فتویٰ بریلی شریف )
محافل میلاد کا انتظام اس اہتمام کے ساتھ ہونا چاہئے جہاں بے ادبی کا کوئی پہلو نہ نکلتا ہو۔
پہلی شرط: بے نمازی کے گھر میلاد نہیں منانا چاہئے۔
سوال: ’’ بے نمازی مسلمان کے گھر میلاد شریف کی محفل میں شریک ہونا یا پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟‘‘
جواب: ’’مجلس میلاد شریف نیک کام ہے اور نیک کام میں شرکت بری نہیں، ہاں اگر اس کی تنبیہہ کیلئے اس سے میل جول یک لخت چھوڑ دیا ہو تونہ شریک ہوں یہی بہتر ہے ‘‘۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر23 صفحہ 736)
اس فتوی میں’’بے نمازی‘‘ کوسبق سکھانے کے لئے اُس سے میل جول چھوڑنے کا حُکم دیا جا رہا ہے کیونکہ بے نمازی میلادی کا’’میلاد‘‘ منانے کا حق نہیں بنتا۔
دوسری شرط: سوال: مخالفِ شرع مثلاََ داڑھی کترواتا یا منڈواتا ہو، تارکِ صلوۃ ہو اس سے میلاد (نعت ) پڑھوانا کیسا ہے؟ فرمایا:’’افعال مذکورہ سخت کبائر ہیں اور ان کا مرتکب اشد فاسق و فاجر مستحق عذاب یزداں و غضب رحمن اور دنیا میں مستوجب ہزاراں ذلت و ہوان، خوش آوازی خواہ کسی علتِ نفسانی کے باعث اسے منبرو مسند پر کہ حقیقتہََ مسندِ حضور پُر نور سید عالم ﷺ ہے تعظیماََ بٹھانا اس سے مجلس مبارک پڑھوانا حرام ہے، فاسق (گندے) کو آگے کرنے میں اسکی تعظیم ہے حالانکہ بوجہ فسق (گناہ) لوگوں پر شرعاََ اسکی توہین (ذلیل) کرنا واجب اور ضرور ی ہے‘‘۔ ( جلد 23 صفحہ 734)
اس شرط پر بھی عمل نہیں ہو سکتا کیونکہ عوام معروف نعت خوانوں کی آواز پر جھومتی ہے اور کسی کو اُس کی نماز یا داڑھی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جیسے جناب مرغوب احمد ہمدانی، قاری وحید ظفر قاسمی، شہباز قمر فریدی اور ہزاروں ایسے ہیں جنہوں نے داڑھی نہیں رکھی ہوئی، کیا کوئی ان معزز ہستیوں کو ذلیل کرنے کا سوچ سکتا ہے جیسا کہ فتاوی رضویہ میں لکھا ہے۔
تیسری شرط:سوال: ’’میلاد شریف جس کے یہاں ہو وہ پڑھنے والے کی دعوت کرے تو پڑھنے والے کو (کھانا ) چاہئے یا نہیں؟ اور اگر کھایا تو پڑھنے والے کو کچھ ثواب ملے گا یا نہیں؟
"تو آپ نے فرمایا: ’’پڑھنے کے عوض کھانا کھلاتا ہے تو یہ کھانا نہ کھلانا چاہئے، نہ کھانا چاہئے اور اگر کھائے گا تو یہی کھانا اس کا ثواب ہو گیا اور ثواب کیا چاہتا ہے بلکہ جاہلوں میں جو یہ دستور ہے کہ پڑھنے والوں کو عام حصوں سے دو نا دیتے ہیں اور بعض احمق پڑھنے والے اگر ان کو اوروں سے دو نانہ دیا جائے تو اس پر جھگڑتے ہیں یہ زیادہ لینا دینا بھی منع ہے اور یہی اسکا ثواب ہوگیا‘‘۔(فتاوی رضویہ جلد 21 صفحہ 662)
اس فتوی پر عمل کرتے ہوئے اگر’’ لنگر کا وسیع انتظام ہے‘‘ نہ لکھا جائے ،عُمرے کے ٹکٹ نہ رکھے جائیں، نعت خوانوں کو پیسے نہ دئے جائیں (دینے کے انداز پر بھی اعتراض ہے) تو ’’میلاد‘‘ کیسے ہو گا جس کا مطلب ہے کہ کھانا، عُمرے کے ٹکٹ وغیرہ نہ ہوں تو عوام کو میلاد سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
چوتھی شرط: سوال: منکراتِ شرعیہ پر مشتمل میلاد کیسا ہے؟ جواب:’’ وہ پڑھناسننا جو منکراتِ شرعیہ پر مشتمل ہو، ناجائز ہے جیسے روایات باطلہ و حکایاتِ موضوعہ و اشعار خلاف شرع خصوصاََ جن میں توہینِ انبیاء و ملائکہ علیھم الصلٰوۃو السلام ہوکہ آجکل کے جاہل نعت گویوں کے کلام میں یہ بلائے عظیم بکثرت ہے حالانکہ وہ صریح کلمہ کفر ہے‘‘۔(فتاوی رضویہ جلد نمبر 23 صفحہ 722)
اسلئے نعت کے رُوپ میں کُفر بھی بَک کر گناہ کمایا جا رہا ہے اورعوام کیلئے یہ فرق کرنا مشکل ہے کہ کونسی نعت کے اشعار کُفر پر مبنی ہیں کیونکہ عوام حقیقی اور مجازی معنوں کو نہیں سمجھتی اوربہت سی جگہوں پر علماء کرام موجود ہی نہیں ہوتے اور نہ ہی زیادہ ترعوام نے علماء کرام سے پوچھنا ہوتا ہے۔
پانچویں شرط: سوال: ’’ایک شخص وظیفہ پڑھتا ہے اور نماز نہیں پڑھتا ہے یہ جائز ہے یا نا جائز‘‘ کے جواب میں فرمایا ’’ جو وظیفہ پڑھے اورنماز نہ پڑھے فاسق و فاجر مرتکب کبائر ہے اُس کاوظیفہ اس کے منہ پر مارا جائے گا، ایسوں ہی کو حدیث میں فرمایا ہے، بہتیرے قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن انہیں لعنت کرتا ہے و العیاذ باللہ‘‘۔ (جلد 6 صفحہ 223)
حضرت امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلوی سے سوال کیا گیا کہ چند عورتیں ایک ساتھ مل کر گھر میں میلاد شریف پڑھتی ہیں اور آواز باہر سنائی دیتی ہے۔ یہ جائز ہے یا نہیں ؟ آپ نے جواب میں لکھا کہ ناجائز ہے کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے ۔عورت کی خوش الحانی کو اجنبی سے محل فتنہ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ )
ایسے ہی ایک اور سوال کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا:” عورتوں کا اس طرح (مولود شریف) پڑھنا کہ ان کی آواز نا محرم سنیں ،باعث ثواب نہیں بلکہ گناہ ہے ۔“
کیسی محافل میلاد میں شرکت کی جائے ؟:محفل میلاد اگر چہ عظیم ترین مستحبات میں سے ہے مگر دیگر مجالس کی طرح محافل میلاد میں شرکت تب ہی جائز ہے جب اس میں خلاف شرع امور کا ارتکاب نہ ہوا گر وہ شرعی منہیات اور ناپسندیدہ بدعات سے پاک نہ ہوتو اس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے ۔فتاویٰ رضویہ میں ہے کہ :”کسی خلاف شرع مجلس میں شرکت جائز نہیں ۔“ (فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 133)
اور جب مجلس میلاد منکراتِ شرعیہ سے خالی ہو تو اس میں شرکت کرنا عظیم سعادت ہے ۔فتاویٰ رضویہ میں ہے :” مجلس میلاد مبارک اعظم مندوبات سے ہے جبکہ بروجہ صحیح ہو ۔“(جلد 23 صفحہ 560)
علمائے دین کا عوام الناس کو ایسی محافل میں غیر شرعی افعال کے ارتکاب سے نہ روکنا گویا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ناراضگی پر راضی رہنا ہے ۔(نعوذ باللہ) ان محافل سے تعلق رکھنے والے ہر طبقہ کو خواہ قراءکرام ہوں ۔ نعت خوانانِ عظام ہوں ،علمائے کرام ہوں یا عوام اسلام ،ہر ایک کو اس انقلابی عمل میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ادب و احترام سے محافل میلاد النبی ﷺ سجانے اور ان سے برکات حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین