شفاعت کبری و صغری
سورہ بقرہ من ذا لذی یشفع عندہ الا باذنہ ترجمہ: کون ہے جو اللہ کے سامنے سفارش کر سکے مگر وہ جسے وہ اجازت دے دے۔
عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ترجمہ: قریب ہے کہ تمہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں۔ (بنی اسرائیل: 79) ترمذی 3148: نبی کریم ﷺ سے عرض کی گئی: مقامِ محمود کیا ہے؟ فرمایا: ھُوَ الشَّفَاعَۃُ یعنی وہ شفاعت ہے۔ مسند احمد 23004: رُوئے زمین پر جتنے درخت اور پتّھر ہیں میں قیامت کے دن ان سب کی تعداد کے برابر آدمیوں کی شفاعت فرماؤں گا۔ جامع صغیر 4896: میری شفاعت روزِ قِیامت حق ہے جو اس پر ایمان نہ لائے گا اس کے قابل نہ ہو گا۔
شَفاعت کے لُغوی معنٰی ہیں: وسیلہ اور طلب جبکہ شرعی طور پر غیر کے لئے خیر مانگنا شفاعت کہلاتا ہے (شرح الصاوی علی جوہرۃ التوحید، ص 400)
عقیدہ شفاعت: اس بات کا عقیدہ رکھنا واجب ہے کہ نبی کریم ﷺ کی شفاعت شفاعت قَبول کی جائے گی۔
شفاعتِ کُبریٰ صرف حضور (ﷺ) کریں گے، اس شفاعت کا فائدہ ساری خلقت حتّٰی کہ کفّار کو بھی پہنچے گا کہ اس شفاعت کی برکت سے حساب کتاب شُروع ہو جائے گا اور قِیامت کے میدان سے نَجات ملے گی، یہ شفاعت حضور ﷺ ہی کریں گے، اس وقت کوئی نبی اس شفاعت کی جرات نہ فرمائیں گے۔
مُنکِرکاحکم: نبی کریم ﷺ کی شفاعت کا منکر مسلمان نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے نماز جائزہے۔ (بحرالرائق 611/1 ملتقطاً)
جب تک نبی کریم ﷺ ہمارے شفاعت کا دروازہ نہیں کھولیں گے کسی کو بھی شفاعت کی اجازت نہ ہو گی۔ (المعتقد المنتقد، ص240)
شفاعت صغری: اس بات پر ایمان رکھنا بھی واجب ہے کہ نبی کریم ﷺ کے علاوہ انبیاء و ملائکہ اور عُلَما و شُہدا، صالحین اور کثیر مؤمنین، قراٰنِ مجید، روزے اور کعبۃُ اللّٰه وغیرہ سب شفاعت کریں گے۔ (المعتقد المنتقد، ص247)
اللّٰه تعالیٰ کے مقبول بندے قِیامت کے دن گنہگاروں کی شفاعت کریں گے۔
(تفسیر کبیر، الزّخرف، تحت الآیۃ:86، 648/9 ماخوذاً)
سورہ مدثر 48: تو (اس حال میں) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی۔‘‘
شفاعت دھونس (زور زبردستی) کی نہ ہو گئی لہٰذا جو بِالکل شفاعت کا اِنکاری ہو وہ بے ایمان ہے اور جو مشرکینِ عرب کی طرح دھونس کی شفاعت مانے وہ بھی بے دین ہے۔
شفاعت اور احادیث مبارکہ
ابن ماجہ 4311: نبی کریم ﷺ کو اختیار دیا گیا کہ تمہاری آدھی امت جنت میں بھیج دیتے ہیں یا تم شفاعت کرنے کا حق لے لو، تو میں نے شفاعت کو اختیار کیا، کیونکہ وہ عام ہو گی اور کافی ہو گی، کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ شفاعت متقیوں کے لیے ہے؟ نہیں، بلکہ یہ ایسے گناہگاروں کے لیے ہے جو غلطی کرنے والے اور گناہوں سے آلودہ ہوں گے۔ (مسند احمد 5452)
ترمذی 2441: میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا (جبرائیل علیہ السلام) میرے پاس آیا اور مجھے اختیار دیا کہ میری آدھی امت جنت میں داخل ہو یا یہ کہ مجھے شفاعت کا حق حاصل ہو، چنانچہ میں نے شفاعت کو اختیار کیا، یہ شفاعت ہر اس شخص کے لیے ہے جس کا خاتمہ شرک کی حالت پر نہیں ہو گا“۔
ترمذی 2435: میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لیے ہو گی۔ (ابوداود 4739، مسند احمد 13222)
صحیح بخاری 7510: قیامت کے روز لوگ دریا کی موجوں کی مانند بے قرار ہوں گے۔ وہ حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کریں گے: آپ اپنے رب کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کیجئے، وہ فرمائیں گے: یہ میرا مقام نہیں، تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ پس لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوجائیں گے جس پر وہ فرمائیں گے: میرا منصب یہ نہیں ہے تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ کلیم اللہ ہیں۔ پس وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں جائیں گے وہ فرمائیں گے: میرا منصب یہ نہیں ہے تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ روح اللہ اور اس کا کلمہ ہیں۔ پس وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے تو وہ بھی فرمائیں گے: میرا یہ مقام نہیں ہے تم محمد مصطفی ﷺ کے پاس جاؤ۔ ’’پس لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں کہوں گا: ہاں! آج شفاعت کا منصب تو میرے پاس ہی ہے۔ پھر میں اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت مل جائے گی اور مجھے ایسے حمدیہ کلمات الہام کئے جائیں گے جن کے ساتھ میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کروں گا جو اب مجھے مستحضر نہیں ہیں۔ پس میں ان محامد سے ﷲ تعالیٰ کی تعریف و توصیف کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ سو مجھے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے اور کہو! تمہیں سنا جائے گا، مانگو تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت، میری امت، پس فرمایا جائے گا: جاؤ اور جہنم سے اسے نکال لو جس کے دل میں جو کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو۔ میں جاکر یہی کروں گا۔ پھر واپس آکر ان محامد کے ساتھ اس کی حمد و ثنا کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ پس کہا جائے گا: محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو تمہاری سنی جائے گی، مانگو تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت، میری امت! پس فرمایا جائے گا: جاؤ اور جہنم سے اسے بھی نکال لو جس کے دل میں ذرے کے برابر یا رائی کے برابر بھی ایمان ہو۔ پس میں جاکر ایسے ہی کروں گا۔ پھر واپس آکر انہی محامد کے ساتھ اس کی حمد و ثنا بیان کروں گا اور پھر اس کے حضور سجدے میں چلاجاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا: محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو تمہاری سنی جائے گی، مانگو تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے رب! میری امت، میری امت، پس وہ فرمائے گا: جاؤ اور اسے بھی جہنم سے نکال لو جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی بہت ہی کم، بہت ہی کم، بہت ہی کم ایمان ہو۔ پس میں خود جاؤں گا اور جا کر ایسا ہی کروں گا۔ ’’راوی کہتے ہیں: جب ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس سے نکلے تو میں نے اپنے بعض ساتھیوں سے کہا: ہمیں حسن بصری کے پاس چلنا چاہئے جو کہ ابوخلیفہ کے مکان میں روپوش ہیں اور انہیں وہ حدیث بیان کرنی چاہئے جو انس بن مالک نے ہم سے بیان کی ہے۔ چنانچہ ہم ان کے پاس آئے اور انہیں سلام کیا پھر انہوں نے ہمیں اجازت دی تو ہم نے ان سے کہا: ابو سعید! ہم آپ کے پاس آپ کے بھائی انس بن مالک کے ہاں سے ہوکر آئے ہیں اور انہوں نے ہم سے جو شفاعت کے متعلق حدیث بیان کی اس جیسی حدیث ہم نے آج تک نہیں سنی۔ انہوں نے فرمایا مجھے بھی سناؤ: ہم نے ان سے حدیث بیان کی جب اس مقام تک پہنچے تو انہوں نے کہا: آگے بیان کرو، ہم نے کہا: اس سے زیادہ انہوں نے بیان نہیں کیا۔ انہوں نے کہا: حضرت انس رضی اللہ عنہ آج سے بیس سال قبل جب صحت مند تھے تو انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی تھی، مجھے معلوم نہیں کہ وہ باقی بھول گئے یا اس لئے بیان کرنا ناپسند کیا کہ کہیں لوگ صرف اسی پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں۔ ہم نے کہا: ابو سعید! پھر آپ ہم سے وہ حدیث مکمل بیان کیجئے اس پر آپ ہنسے اور فرمایا: انسان عجلت پسند پیدا کیا گیا ہے۔ میں نے اس کا ذکر ہی اس لئے کیا ہے کہ تم سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ انس نے مجھ سے اس طرح حدیث بیان کی جس طرح تم سے بیان کیا۔ ’’(اس میں یہ اضافہ کیا کہ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں چوتھی دفعہ واپس لوٹوں گا اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کروں گا پھر اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا: محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو تمہیں سنا جائے گا، مانگو تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: یا رب ! مجھے ان کی (شفاعت کی) اجازت بھی دیجئے جنہوں نے صرف لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ کہا ہے، پس وہ فرمائے گا: مجھے اپنی عزت و جلال اور اپنی کبریائی وعظمت کی قسم! میں انہیں ضرور دوزخ سے نکال دوں گا جنہوں نے لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ کہا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم 475)
ترمذی 3616: چند صحابہ کرام حضور نبی اکرم ﷺ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں آپ ﷺ تشریف لائے، جب آپ ﷺ ان کے قریب پہنچے تو انہیں گفتگو کرتے ہوئے سنا، (آپ ﷺ نے سنا) ان میں سے بعض نے کہا: تعجب کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے اپنا خلیل بنایا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا: یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ سے ہمکلام (کلیم اللہ) ہونے سے زیادہ تعجب خیز تو نہیں۔ ایک نے کہا: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں، کسی نے کہا: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو چن لیا۔ پس حضور ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، سلام کیا اور فرمایا: میں نے تمہاری گفتگو اور تمہارا اظہارِ تعجب سن لیا ہے۔ بے شک حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں، اور واقعی وہ اسی طرح ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نجی اللہ ہیں، بے شک وہ اسی طرح ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں، واقعی وہ اسی طرح ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا، وہ بھی یقیناً اسی طرح ہیں۔ مگر سنو! اچھی طرح آگاہ ہو جائو کہ (میری شان یہ ہے) میں اللہ کا حبیب ہوں اور (اس پر) کوئی فخر نہیں، میں قیامت کے دن (اللہ تعالیٰ کی) حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں اور مجھے کوئی فخر نہیں، قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت کرنے والا میں ہوں گا اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور مجھے کوئی فخر نہیں، سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹانے والا بھی میں ہوں تو اللہ تعالیٰ اسے میری لئے کھول دے گا پس مجھے اس میں داخل کر دے گا اور میرے ساتھ فقیرو غریب مؤمن ہوں گے اور مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں، میں اولین و آخرین میں سب سے زیادہ مکرم و معزز ہوں لیکن میں کوئی فخر نہیں کرتا۔‘‘
المستدرک 220: (قیامت کے دن) تمام انبیاء علیہم السلام کے لئے سونے کے منبر بچھائے جائیں گے وہ ان پر بیٹھیں گے، اور میرا منبر خالی رہے گا میں اس پر نہ بیٹھوں گا بلکہ اپنے رب کریم کے حضور کھڑا رہوں گا اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے جنت میں بھیج دے اور میری امت میرے بعد (کہیں بے یار و مددگار) رہ جائے۔ پس میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت، میری امت۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: محمد(ﷺ)! آپ کی کیا مرضی ہے، آپ کی امت کے ساتھ کیا سلوک کروں؟ حضور نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں: میں عرض کروں گا: اے میرے رب! ان کا حساب جلدی فرما دے۔ پس ان کو بلایا جائے گا اور ان کا حساب ہو گا، کچھ ان میں سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوں گے، اور کچھ میری شفاعت سے۔ میں شفاعت کرتا رہوں گا یہاں تک کہ مجھے ان کی رہائی کا پروانہ بھی عطا کر دیا جائے گا جنہیں دوزخ میں بھیجا جا چکا ہو گا، جب میں داروغۂ جہنم کے پاس آؤں گا تو وہ عرض کرے گا: اے محمد! آپ نے اپنی امت میں سے کوئی بھی دوزخ میں باقی نہیں چھوڑا جس پر اللہ رب العزت ناراض ہو۔‘‘
صحیح بخاری 335: مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھیں (1) ایک مہینہ کی مسافت سے رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے (2) تمام زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور پاکی کے لائق بنائی گئی، پس میری امت کا جو انسان نماز کے وقت کو (جہاں بھی) پالے اسے وہاں ہی نماز ادا کر لینی چاہیے (3) میرے لیے غنیمت کا مال حلال کیا گیا ہے، مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے بھی حلال نہ تھا (4) مجھے شفاعت عطا کی گئی (5) تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کے لیے مبعوث ہوتے تھے لیکن میں تمام انسانوں کے لیے عام طور پر نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
صحیح بخاری 7474: ہر نبی کی ایک دعا قبول ہوتی ہے تو میں چاہتا ہوں اگر اللہ نے چاہا کہ اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھوں۔
صحیح مسلم 488: یقیناً ہر نبی کی ایک دعا ہے (جس کی قبولیت یقینی ہے۔) میں نے ارادہ کیا ہے کہ ان شاءاللہ میں اپنی اس دعا کو قیامت کے روز اپنی امت کی سفارش کرنے کے لیے محفوظ رکھوں گا۔“
صحیح مسلم 5940: میں قیامت کے دن (تمام) اولاد آدم کا سردار ہوں گا، پہلا شخص ہوں گا جس کی قبر کھلے گی، سب سے پہلا شفاعت کرنے والا ہوں گا اور سب سے پہلا ہوں گا جس کی شفاعت قبول ہوگی۔”
صحیح بخاری 99: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ ﷺ کی شفاعت سے سب سے زیادہ سعادت کسے ملے گی؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اے ابوہریرہ مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی اس کے بارے میں مجھ سے دریافت نہیں کرے گا۔ کیونکہ میں نے حدیث کے متعلق تمہاری حرص دیکھ لی تھی۔ سنو! قیامت میں سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت سے وہ شخص ہو گا، جو سچے دل سے یا سچے دل سے لا إله إلا الله کہے گا۔
ترمذی 2433: انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ آپ قیامت کے دن میرے لیے شفاعت فرمائیں، آپ نے فرمایا: ”ضرور کروں گا“۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ کو کہاں تلاش کروں گا؟ آپ نے فرمایا: ”سب سے پہلے مجھے پل صراط پر ڈھونڈنا“، میں نے عرض کیا: اگر پل صراط پر آپ سے ملاقات نہ ہو سکے، تو فرمایا: ”تو اس کے بعد میزان کے پاس ڈھونڈنا“، میں نے کہا: اگر میزان کے پاس بھی ملاقات نہ ہو سکے تو؟ فرمایا: ”اس کے بعد حوض کوثر پر ڈھونڈنا، اس لیے کہ میں ان تین جگہوں میں سے کسی جگہ پر ضرور ملوں گا“۔
طبرانی 2084: میں اپنی امت کے لئے شفاعت کرتا رہوں گا حتی کہ میرا رب مجھے ندا دے کر پوچھے گا: محمد (ﷺ)! کیا آپ راضی ہوگئے؟ چنانچہ میں عرض کروں گا: ہاں! میں راضی ہوگیا۔ (مسند بزار 638)
ترمذی 2437: میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میری امت سے ستر ہزار افراد کو بغیر حساب وعذاب کے جنت میں داخل فرمائے گا۔ ان میں سے ہر ہزار کے ساتھ مزید 70 ہزار کو داخل کرے گا نیز اللہ تعالیٰ اپنے چلوؤں میں سے تین چلو(اپنے حسبِ حال جہنمیوں سے بھر کر) بھی جنت میں ڈالے گا۔‘‘
صحیح بخاری 6541، 5705: میرے سامنے امتیں پیش کی گئیں کسی نبی کے ساتھ پوری امت گزری، کسی نبی کے ساتھ چند آدمی گزرے، کسی نبی کے ساتھ دس آدمی گزرے، کسی نبی کے ساتھ پانچ آدمی گزرے اور کوئی نبی تنہا گزرا۔ پھر میں نے دیکھا تو انسانوں کی ایک بہت بڑی جماعت دور سے نظر آئی۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا کیا یہ میری امت ہے؟ انہوں نے کہا نہیں بلکہ افق کی طرف دیکھو۔ میں نے دیکھا تو ایک بہت زبردست جماعت دکھائی دی۔ فرمایا کہ یہ ہے آپ کی امت اور یہ جو آگے آگے ستر ہزار کی تعداد ہے ان لوگوں سے حساب نہ لیا جائے گا اور نہ ان پر عذاب ہو گا۔ میں نے پوچھا: ایسا کیوں ہو گا؟ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ داغ نہیں لگواتے تھے۔ دم جھاڑ نہیں کرواتے تھے، شگون نہیں لیتے تھے، اپنے رب پر بھروسہ کرتے تھے۔ اس پر عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان میں سے ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔ اس کے بعد دوسرے صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں بھی ان میں ہوں؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عکاشہ تم سے بازی لے گئے۔
صحیح بخاری 7280: ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا۔“ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! انکار کون کرے گا؟ فرمایا ”جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا۔“
شیخ عبدُالحقّ مُحَدِث دِہلَوی رحمتہ اللہ علیہ نے شفاعت کی چند قسمیں بیان کی ہیں:
1۔ شَفاعَتِ عُظمیٰ
2۔ شَفاعت ایک قوم کو بےحساب جنَّت میں داخِل کروانے کے لئے ہو گی اور یہ شَفاعت بھی ہمارے نبی کریم ﷺ کے لئے ثابِت ہے اور بعض عُلَمائے کرام کے نزدیک یہ شَفاعت حُضُورِ انور ﷺ ہی کے ساتھ خاص ہے۔
3۔ شَفاعت اُن لوگوں کے بارے میں ہو گی کہ جن کی نیکیاں اور بُرائیاں برابر برابر ہوں گی اور شَفاعت کی مدد سے جنَّت میں داخِل ہوں گے۔
4۔ شَفاعت اُن لوگوں کے لئے ہو گی جو کہ دوزخ کے حق دار ہو چکے ہوں گے تو حضورِ پُر نور ﷺ شَفاعت فرما کر اُن کو جنَّت میں لائیں گے۔
5۔ شَفاعت مرتبے کی بُلندی اور بُزُرگی کے اِضافے کے لئے ہو گی۔
6۔ شَفاعت اُن گنہگاروں کے بارے میں ہو گی جو کہ جہنَّم میں پُہنچ چکے ہوں گے اور شَفاعت کی وجہ سے نکل آئیں گے اور اِس طرح کی شَفاعت دیگر انبیائے کرام، فِرِشتے، عُلَما اور شُہَدا بھی فرمائیں گے۔
7۔ شَفاعت جنَّت کا دروازہ کھولنے کے بارے میں ہو گی۔
8۔ شَفاعت خاص کر مدینہ منوّرہ والوں اور نبی کریم ﷺ کے روضہ انور کی زیارت کرنے والوں کیلئے خُصُوصی طریقے پر ہو گی۔ (اشعۃ اللمعات، 404/4 ملخصاً)