ٹیسٹ ٹیوب بے بی
شریعت کے مطابق ٹیسٹ ٹیوب بے بی لینے کے تین طریقے ہیں جن میں سے پہلا طریقہ جائز ہے کیوں کہ اس طریقے میں نطفہ ، بیضہ اور رحم بے اولاد جوڑے کا ہوتا ہے اور ان تینوں میں کوئی ایک چیز میں کسی دوسرے مرد و عورت کا استعمال نہیں ہوتا۔دوسرا و تیسرا طریقہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں کیونکہ اُس میں بیضہ، نطفہ اور رحم میں سے کوئی ایک چیز کسی دوسرے مرد و عورت کا استعمال ہوتا ہے، جس کے باعث وراثت کے مسائل جنم لے سکتے ہیں، اور کئی بیماریوں کی منتقلی کا احتمال بھی رہتا ہے۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے پہلا جائز اور دوسرو و تیسرا ناجائز طریقے یہ ہیں:
پہلا طریقہ: بے اولاد جوڑے کا بیضہ اور نطفہ لے کر باور (mature) کرایا جاتا ہے اور پھر باور نطفے کو ماں کے رحم میں منتقل کردیا جاتا ہے، بچے کی نمو قدرتی طریقے سے جاری رہتی ہے اور مقررہ وقت میں بچے کی پیدائش عمل میں لائی جاتی ہے، یہ عمل جائز ہے۔
دوسرا طریقہ: نطفے یا بیضہ کسی اور جوڑے سے لیا جاتا ہے اور اسے باور کرا کے مذکورہ خاتون کے رحم میں منتقل کردیا جاتا ہے جہاں وہ نومہینے مکمل کرنے کے بعد پیدائش کے مرحلے سے گذرتا ہے۔
تیسرا طریقہ: بیوی اور شوہر کے بیضے اور نطفے کو باور کراکے کسی دوسرے خاتون کے رحم میں منتقل کردیا جاتا ہے جہاں وہ نمو کے مراحل طے کرتا ہے جسے پیدائش کے بعد بے اولاد جوڑے کے حوالے کردیا جاتا ہے۔
احتیاط: ہر مرحلے پر ستر و حجاب کا پورا اہتمام کیا جائے اور بہتر ہے کسی لیڈی ڈاکٹر سے کام لیا جائے۔ مرد سے مادہ تولید انجکشن کے ذریعہ ہو یا اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کر کے مادہ منویہ لیا جائے مگر ہتھ رسی سے بچا جائے۔ ہر ممکن و ضروری تدابیر اختیار کی جائیں جس سے مادہ منویہ تبدیل نہ ہو تک نسب نہ بدلے۔
شرعی عدالت کا فیصلہ: اگر بچے کی پیدائش کی وجہ بننے والا سپرم اس کے قانونی والد ہی کا ہو اور بیضہ اس کی والدہ کا، جو متعلقہ مرد کی بیوی ہو، تو ایسی صورت میں طبی طریقہء کار سے مصنوعی حمل ٹھہرانے کے بعد اگر ایمبریو دوبارہ اس بچے کی حقیقی والدہ ہی کے رحم میں رکھا جائے، تو یہ طبی عمل مذہبی حوالے سے بھی قانون کے مطابق اور جائز ہو گا۔ایسی صورت میں پیدا ہونے والا بچہ بھی ان والدین کی قانونی اور مذہبی طور پر جائز اولاد اور وارث ہو گا۔ اگر ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی پیدائش کے لیے بیضہ اور سپرم میں سے دونوں یا کوئی ایک بھی متعلقہ جوڑے کے علاوہ کسی دوسرے مرد یا عورت کا ہو، تو ایسی صورت میں کسی ٹیسٹ ٹیوب بچے کی پیدائش اخلاقی طور پر ’غلط، ناجائز اور غیر اسلامی‘ ہو گی۔
مشورے
1۔ اس دور میں نکاح سادگی سے کرنا چاہئے، لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو دیکھیں، پسند کریں اور اُس کے بعد راضی ہوں تو اُن کا نکاح مسجد میں کریں۔ لڑکے کو چاہئے کہ لڑکی کے لئے گھر، ضروریاتِ زندگی کا بندوبست کرے جس میں کسی کی مداخلت نہ ہو۔ اسطرح ہر ایک گھر میں بہن و بیٹی ہوتی ہے اُن کے والدین پر کوئی ذمہ داری نہیں آئے گی۔ یہ کام وہ مرد کر سکتے ہیں جن کے گھروں میں عورتوں کی حکومت نہ ہو۔ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جس کی حکمران عورت ہو۔
2۔ نکاح کے بعد میاں بیوں کی نہیں بنتی تودونوں اپنے بڑوں کی موجودگی میں اپنا اختلاف بتائیں تاکہ دور کیا جا سکے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ہر ایک کا ذہن مختلف ہے، اسلئے گھوڑے اور گدھے یا گدھے اور ہرن کو ایک ساتھ نہ باندھیں۔ لڑکا اور لڑکی بڑوں کے ساتھ مشاورت کریں، آپس میں مذاکرات کریں اور لڑکا پھر طلاق دے۔ بچے خاوند کے ہوتے ہیں، اسلئے لڑکی بچے خاوند کو دے کر واپس آ جائے اور دوسرا نکاح کرے۔
3۔ اکثر لڑکے نامرد اور لڑکیاں بانجھ ہیں مگر ساری زندگی کُڑھتے رہتے ہیں لیکن دوسرا نکاح نہیں کرتے، کیا اُن کو خاندان بنانے کی ضرورت نہیں ہے؟ خاندان خاندانی لوگ بناتے ہیں اور ہم سب خاندانی نظام کو تباہ کرنے لگے ہوئے ہیں کیونکہ نکاح کرنا مشکل اور زنا کرنا بہت آسان کر دیا گیا ہے۔ متعہ، ہتھ رسی، لڑکا لڑکے کے ساتھ اور لڑکی لڑکی کے ساتھ غیر اخلاقی کاموں میں مصروف ہیں۔
جھگڑا: شریعت پر چلنے سے سب کے پرابلم حل ہو جاتے ہیں، شریعت نے جس کا جتنا حق دیا ہے وہ لے اور جس کا حق نہیں بنتا اس کو نہ دیا جائے۔ اگر لڑکا لڑکی علیحدہ رہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے والدین کی خدمت نہ کریں۔ دونوں اپنے اپنے والدین کی علیحدہ علیدہ اور ایک دوسرے کے والدین کی ملکر مینجمنٹ کے ساتھ خدمت کریں لیکن کوئی ایک دوسرے پر بوجھ نہ بنے۔