پیار اور چُومنا
ہر مسلمان کی محبت حضور ﷺ، صحابہ کرام اور اولیاء کرام سے ہے، اسلئے ان کا اور ان سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کا بھی ادب و احترام کرتے ہیں۔ اگر کسی سے کوئی پیار کرتا ہے تو اُس کو بوسہ دیتا ہے، البتہ کسی کم ظرف، دو نمبر پیر، فاسق و گمراہ علماء سوء کے ہاتھ چُومے جائیں تو عذاب ہے مگر اس عمل کو شرک نہیں کہہ سکتے بلکہ ضعیف احادیث پر عمل جائز ہے۔
اللہ عزوجل کو چوم نہیں سکتے اور جس کو چوما جائے وہ اللہ نہیں ہوتا۔ اللہ کریم کو الہ سمجھ کر پکارا جاتا ہے، اللہ کریم کی ذات و صفات میں کسی کو شریک سمجھنا، کسی زندہ یا وصال کر جانے والی ہستی کو ”الہ“ سمجھ کر پُکارنا یا مدد مانگنا شرک ہے۔ البتہ حضور ﷺ کی احادیث سے چومنا فرض، واجب یا سنت موکدہ نہیں بلکہ جائز ہے۔
1۔ دو یہودیوں نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہو کر نو آیات ِبینات کے متعلق سوال کئے۔ آپ ﷺ نے ان کے جوابات دے دیے تو انہوں نے آپ ﷺ کے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں مبارک کو (فَقَبَّلَا یَدَیْہِ وَرِجْلَیْہِ) بوسہ دیا۔‘‘ (ترمذی 2733، ابن ماجہ 3705)
2۔ صحابی رسول، سیدنازارع بن عامر رضی اللہ عنہ ،جو وفدِ عبدالقیس میں شامل تھے،ان کی طرف منسوب ہے کہ ’’جب ہم مدینہ منورہ پہنچے، تو ہم جلدی کرتے ہوئے اپنے کجاووں سے نکلے اور نبی اکرم ﷺ کے ( فَنَتَقَبَّلُ یَدَ النَّبِيِّ ﷺ وَرِجْلَہٗ) ہاتھ اور پاؤں مبارک کو چومنے لگے۔‘‘ (ابوداود 5225)
3۔ ایک دیہاتی نبی اکرم ﷺ کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہو کر کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں یقینا مسلمان ہوں۔ مجھے کوئی ایسی چیز دکھائیں، جس سے میرا ایمان بڑھ جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: آپ اس درخت کو بلائیں، وہ آپ ﷺ کے پاس آئے۔ آپ ﷺ نے درخت کو بلایا اور وہ آپ ﷺ کے پاس آیا اور سلام کہا ۔آپ ﷺ نے اسے واپس اپنی جگہ جانے کا کہا، تو وہ چلا گیا، تب اس دیہاتی نے کہا ’’مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کے سر اور دونوں پاؤں مبارک کو چوموں (اِئْذَنْ لِي أَنْ أُقَبِّلَ رَأْسَکَ وَ رِجْلَیْکَ) آپ ﷺ نے اسے اجازت دی، تو اس نے ایسا کر لیا۔ (دارمی 1472)
4۔ سیدنا عامر بن طفیل رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کے واقعہ میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’وہ آئے اور آپ ﷺ کے دونوں قدموں(أَتٰی، فَقَبَّلَ قَدَمَیْہِ) کو چوم لیا۔‘‘ (الرخصۃ فی تقبیل الید لابن المقری 14، المعجم لابی یعلی الموصلی 89)
5۔ ابو بُردہ ،یسار،مولیٰ عبد اللہ بن سائب مخزومی سے مروی ہے: میں اپنے مولیٰ عبد اللہ بن سائب کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں آپ ﷺ کی طرف گیا اور آپ ﷺ کا سر، ہاتھ اور پاؤں مبارک چوم لیا۔‘‘ (الرخصۃ في تقبیل الید لابن المقری: 24)
6۔ مشہور مفسر،امام،اسماعیل بن عبد الرحمن بن ابوکریمہ، سدی، تابعی رحمہ اللہ (م : 127ھ) سورۂ مائدہ کی آیت 111 کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : میرا باپ کون ہے؟ جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا : فلاں۔اس پر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، آپ ﷺ کی طرف بڑھے اور آپ کا پاؤں مبارک چوم لیا۔‘‘ (تفسیر الطبری: 17/9، طبعۃ ہجر، 102/11، ح : 12801، طبعۃ شاکر)
7۔ صہیب مولیٰ عباس کا بیان ہے: ’’میں نے سیدنا علی کو سیدنا عباس کے ہاتھ اور دونوں پاؤں کو چومتے ہوئے دیکھا اور کہہ رہے تھے : چچا جان ! مجھ سے راضی ہو جائیے۔‘‘(رَأَیْتُ عَلِیًّا یُّقَبِّلُ یَدَ الْعَبَّاسِ وَرِجْلَیْہِ، وَیَقُولُ : یَا عَمِّ ! ارْضَ عَنِّي) (الأدب المفرد للبخاری: 976، الرخصۃ فی تقبیل الید لابن المقری: 15، تاریخ دمشق لابن عساکر: 372/26)
8۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا: ’’مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کے دونوں پاؤں کو چوم لوں۔‘‘ (دَعْنِي حَتّٰی أُقَبِّلَ رِجْلَیْکَ) (تاریخ دمشق لابن عساکر : 68/52، التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن و المسانید لابن نقطۃ: 331)
9۔ سیدنا عمر نے حجر اسود کو بوسہ دیا،تو فرمایا : ’’اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا، تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘‘ (صحیح بخاری 1597، صحیح مسلم 1270)
10۔ ابو داؤد بن ابی صالح سے روایت ھےکہ ایک دن مروان نبی کریم ﷺ کے روضے پر آیا تو دیکھا ایک صاحب اپنا چہرہ قبر انور پر رکھے ھوئے ھیں۔ مروان نے کہا تمہیں معلوم ھو تم کیا کر رھے ھو؟ ان صاحب نے جب اپنا چہرہ قبر انور سے اٹھایا تو وہ حضرت ابو ایوب انصاری تھے انہوں نے فرمایا: ھاں میں جانتا ھوں میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ھوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ (مسند احمد جلد 5 صفحہ 422، مجمع الزوائد جلد 4 صفحہ 5، مستدرک امام حاکم جلد 4 صفحہ 515، امام حاکم نے فرمایا: ھذاحدیث صحیح الاسناد)
11۔ نبی کریم ﷺ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا دونوں ایک دوسرے کے ھاتھ چوما کرتے تھے۔ (مستدرک حاکم)
12۔ سیدنا اقرع بن حابس نے نبی اکرم ﷺ کو حسین (حسین بن علی رضی اللہ عنہما) کو بوسہ لیتے دیکھا تو کہنے لگے: میرے دس لڑکے ہیں لیکن میں نے ان میں سے کسی سے بھی ایسا نہیں کیا، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کسی پر رحم نہیں کیا تو اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا“ (ابو داود 5218، صحیح مسلم 2318، ترمذی 1911)
13۔ نبی اکرم ﷺ سیدنا جعفر بن ابی طالب سے ملے تو انہیں سینے سے لگایا اور دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ (ابوداود 5220)
14۔ سیدنا براء نے سیدنا ابوبکر کو سیدہ عائشہ کے رخسار کو چُوم کر یہ پوچھتے دیکھا کہ کیا حال ہے کیونکہ وہ بخار میں تپ رہی تھیں۔ (ابوداود 5222)
15۔ نبی کریم ﷺ کے وصال ظاھر کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی پیشانی کوچوما۔ (صحیح بخاری 4452، 4453)
16۔ نبی کریم ﷺ کےرضائی بھائی حضرت عثمان بن مظعون کاوصال ھوا تو نبی کریم ﷺ نے وصال کےبعد انکی پیشانی کوچوما۔ (ابوداؤد 3163)
مُشرک: مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی، اور اس کی چادر (ظاہری روپ) اسلام ہوگا۔ یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا، پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا، اور اپنے (مسلمان) ہمسائے پر تلوار اٹھائے گا اور اس پر شرک کا فتویٰ جڑ دے گا، راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا: یا نبی اللہ ﷺ! دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا؟ جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا) یعنی وہ فتویٰ مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہوا تھا واپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا۔ (اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے پارہ نمبر۹، سورۃ الاعراف ،آیت نمبر ۱۷۵ کی تفسیر میں نقل کیا اور لکھا ہے: ھذا اسناد جید یعنی اس روایت کی سند جید،عمدہ اور کھری ہے۔)