اسلام میں داڑھی ہے مگر داڑھی میں اسلام نہیں
بہت سے لوگوں کے یہ الفاظ ہوتے ہیں مگر اہلسنت علماء کے نزدیک داڑھی نہ رکھنے والا فاسق ہے۔ اس کا چہرہ سنت نبوی سے محروم ہے، داڑھی رکھنا امام ابوحنیفہ کے ماننے والوں کے نزدیک واجب ہے اور باقی ائمہ کرام کے نزدیک سنت موکدہ ہے۔
داڑھی کی مقدار: چار انگل یا جو ایک مٹھی میں آ جائے ، اس سے کم اور زیادہ میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن چار انگل رکھنے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ داڑھی اگر رکھنی ہے تو پھر دو انگل ہی کیوں، کام وہ کریں جس میں کوئی اختلاف نہ ہو۔
داڑھی نہ رکھنے والے کی اذان و اقامت کہنا
پہلی بات: اہلسنت علماء کرام کے نزدیک جس نے داڑھی نہ رکھی ہو وہ اذان و اقامت نہ کہے۔ اس پر مختلف رائے یہ ہیں:
1۔ صرف داڑھی رکھنے والا نمازی ہی اذان و اقامت کہے۔
2۔ اگر داڑھی نہ رکھنے والا اذان کہتا ہے تو اذان دینا مکروہِ تحریمی ہے۔ اُس کو سمجھانا چاہئے اور پھر اذان کو دُہرانا چاہئے اور یہ دُہرانا بھی مستحب ہے یعنی دُہرا لیں تو ثواب ورنہ گناہ کوئی نہیں۔
3۔ کچھ فرماتے ہیں کہ اذان دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے مگر ایسے لوگوں کو نرمی اور خیر خواہی سے اصلاح و فہمائش کرنی چاہیۓ تا کہ وہ اس گناہ سے تائب ہو کر اپنے اندر اذان کی اہلیت پیدا کریں۔
4۔ اگر مساجد میں داڑھی نہ رکھنے والوں نے بہت سی اذانیں دی ہیں تو گناہ گار تو ہیں مگر ان کو دُہرانے کا اب وقت نہیں، صرف توبہ کریں۔
5۔ اقامت فاسق نے دی یعنی داڑھی نہ رکھنے والے نے تو اُس کو دُہرانے کی ضرورت نہیں۔
دوسری بات: داڑھی نہ رکھنے والے اور چھوٹی رکھنے والوں کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے، اسلئے ایسا امام نہیں رکھنا چاہئے لیکن ایک رائے یہ بھی ہے:
1۔ اگر کہیں ایسے امام کے پیچھے مجبوری سے نماز ادا ہو گی اور بعد میں علم ہوا تو نماز ہو گئی، دُہرانے کی ضرورت نہیں۔
2۔ اگر کوئی دُہرا لے تو زیادہ بہتر ہے۔
3۔ جہاں سارے ہی بغیر داڑھی کے ہوں، وہاں سب اپنی اپنی نماز ادا کریں گے۔ جماعت نہیں کروائیں گے۔
تیسری بات: داڑھی نہ رکھنے والے کی نماز بھی مکروہ تحریمی ہے۔ اسکے متعلق رائے یہ ہے:
1۔ اُس کی نماز مکروہِ تحریمی ہے لیکن نماز ہو جائے گی۔
2۔ داڑھی منڈے کی نماز ہوتی تو ہے مگر مکروہ تحریمی ہوتی ہے کہ دوبارہ عیب دور کرکے دہرائی جاۓ ۔لیکن اس نے تو داڑھی منڈا رکھی ہے، دوبارہ صحت کے ساتھ پڑھے گا کیسے؟
البتہ داڑھی منڈانے پر توبہ کرکے پڑھے تو اوربات ہے۔مختصر یہ ہے کہ اس طرح نماز پڑھنے کے بعد بھی آخرت میں مواخذہ ہوگا اگر صحیح طریقہ سے دہرایا نہیں۔ ہاں اس کا عذاب تارک الصلوة کے عذاب سے کم ہوگا۔
بے نمازی کے بارے میں حُکم
1۔ ایک عالم صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو انہوں نے بڑے سخت لہجے میں فرمایا کہ اگر روٹیوں کا ڈھیر پڑا ہو، اُس کے اوپر کوئی کُتا منہ مار دے تو اوپر والی روٹیاں پھینک دو اور نیچے والی کھا لو لیکن اگر کوئی بے نمازی روٹیوں کے اوپر ہاتھ رکھ دے تو ساری روٹیاں کتوں کے آگے پھینک دو۔
ایک آدمی نے کہا کہ اتنی سختی تو اسلام میں نہیں ہے تو عالم صاحب نے بے نمازی کے خلاف قرآن کی سورہ المدثر کی آیت 38 تا 49، التوبہ 5 اور 11، الروم 31، القیامہ 31 تا 35 اورصحیح مسلم 246، 247 ابوداود 4678 ترمذی 2618، 2621، 2622 ابن ماجه 1080 سُنا کر دل نماز کے لئے نرم کرنے کی کوشش کی۔ بے شک نماز کفرو ایمان کے درمیان فرق ہے۔
2۔ دوسرے آدمی نے کہا کہ ہم نماز کا انکار نہیں کرتے مگر نماز پڑھتے نہیں ہیں، اُس عالم نے کہا کہ انکار کرنے والا تو مسلمان نہیں رہتا، البتہ نہ پڑھنے والا بھی اُس کے برابر ہے کیونکہ قرآن و سنت کے مطابق چاروں ائمہ کرام کا مندرجہ ذیل کتابوں میں فتوی موجود ہے:
امام احمد ابن حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسا شخص کافر ہے۔ اس کی سزا یہ ہے کہ اگر توبہ کرکے نماز کی پابندی نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے۔ امام مالک اورامام شافعی رحمتہ اللہ علیھما کہتے ہیں کہ نمازوں کو چھوڑنے والا کافر تو نہیں، البتہ اس کو قتل کیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، البتہ حاکم وقت اس کو جیل میں ڈال دے گا یہاں تک کہ توبہ کرکے نماز شروع کردے یا پھر وہیں مرجائے۔ امام ابوحنیفہ: (حاشیہ ابن عابدین 352/1۔353، احکام القرآن للجصات 81/3۔83)، امام مالک: (مواہیب الجلیل 420/1۔421، الخرشی علی خلیل 227/1۔228)، امام شافعی: (المجموع للنووی 17/3۔19، روضۃ الطالبین 146/2)، امام احمد بن حنبل: (المغنی لابن قدامہ 444/2، المبدع لابن مفلح 305/1 ۔ 307)۔
مختلف سوالات و خيالات
3۔ تیسرے آدمی نے کہا کہ آپ بتا دو کہ یہ سزائیں کسی ایک دور میں کسی بھی حکومت نے دی ہوں، اگر نہیں دیں تو کیوں؟ عالم صاحب نے کہا کہ جس کو قرآن و سنت مطمئن نہیں کر سکتا اُس کو میرا جواب بھی مطمئن نہیں کر سکتا۔
چوتھے آدمی نے کہا کہ اگر اس دور میں یہ سزائیں دی جائیں تو پاکستان کی چوبیس کروڑ عوام سے میں سے شاید پانچ کروڑ عوام بچ پائے گی، اُن میں وہ بھی شامل ہوں گے جو کبھی کبھی نماز ادا کرتے ہیں۔
4۔ ایک آدمی نے زارو قطار رونا شروع کر دیا اور کہنے لگا مجھے سمجھ آ گئی ہے، قرآن بھی حق اور حضور ﷺ کا فرمان بھی حق ہے مگر مجھے پھر بھی نماز چھوڑنے سے ڈر نہیں لگتا۔ مجھے بتاؤ میں کس مقام پر ہوں۔ عالم نے کہا کہ علماء تو صرف بیان کر سکتے ہیں ورنہ رستہ دکھانا تو اللہ کریم کاکام ہے، اُس کی توفیق کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔
5۔ ایک مجذوب نے نعرہ لگایا اور کہا کہ کوئی ہے اللہ کا بندہ جو کسی دُعا سے، کسی تعویذ سے، کسی عمل سے مجھے نمازی بنا دے، میں اللہ کریم کی حاضری میں رہنا چاہتا ہوں، کوئی مجھے سے میری غفلت چُھڑا کر معرفت کے مقام پر پہنچا کر اپنا غلام بنا لے مگر ہامی کون بھرے۔
6۔ ایک سمجھدار نے کہا کہ بے نمازی سے نمازی ہونے کا فاصلہ طے کرنے میں بڑی آوازیں آتی ہیں کیونکہ شیطان کہتا ہے کہ اللہ کریم کو تمہاری نمازوں سے کیا لینا دینا، دیکھو لوگ نماز صرف اپنے کاروبار کے لئے ادا کرتے ہیں اور کچھ بیماری سے بچنے کے لئے کرتے ہیں، البتہ عالم نے سمجھایا کہ عبادت بھی ریاکاری سے شروع ہو کر خلوص تک پہنچتی ہے اسلئے ان آوازوں پر غور نہ کرو۔ اللہ واسطے تو وہ ادا کرتا ہے جس کا دل نور معرفت سے منور ہو گیا ہو اور حق کو پہچان گیا ہو اور یہ منزل ایک دن میں نہیں ملتی۔
7۔ ایک نے کہابے نمازی تھا تو صدا یہ تھی یا اللہ مجھے نماز کا روگ لگا دے، جب روگ لگ گیا تو صدا دی کہ نماز پڑھنے کا طریقہ بھی سکھا دے، پھر صدا بدل کر نماز میں خشوع حضوع مانگنے لگی اور اب کہتی ہے کہ یا اللہ میری نماز کو نبی کی نماز سے کچھ فیضان عطا فرما کر دل کی آنکھ کھول دے۔
کمال: کسی بے نمازی کا نمازی ہونا کمال ہے اور کسی نمازی کا بے نمازی ہونا زوال ہے ، اسلئے کمال نماز پڑھنے میں ہے اور ہر بے نمازی کو با کمال ہونے کی دعوت ہے۔