توتلا پن یا لکنت
تفسیر مظہری اور قرطبی وغیرہ کے مفسرین کہتے ہیں کہ فرعون بڑا مغرور، مال و دولت، زیب و زینت کے لئے ہیرے جواہرات اور داڑھی کی خوبصورتی کے لئے سونے کا برادہ لگاتا تھا۔ ایک دفعہ سیدنا موسیٰ نے بچپن میں فرعون کی داڑھی کھینچ کر توہین کی تو فرعون نے اُس کے قتل کا ارادہ کیا مگر اس کی مومنہ بیوی آسیہ نے کہا کہ بچے کو کیا شعور ہے۔ جس پر بچے کو آزمانے کے لئے ایک طشت میں لعل ہیرے جواہرات اور دوسرے میں جلتے کوئلے رکھے۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے جلتا ہوا کوئلہ پکڑ کر زبان پر رکھ لیا جس سے لکنت پیدا ہوئی اور فرعون نے قتل کا ارادہ منسوخ کر دیا۔
موجودہ دور کے چند مفسرین جناب شمس پیرزادہ صاحب، جناب امین احسن اصلاحی اور سیدابوالاعلیٰ مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ لُکنت والا واقعہ مفسرین نے بائبل اور تالمود سے لیا ہے:
’’تب موسیٰ نے خداوند سے کہا: اےخداوند! میں فصیح نہیں، نہ تو پہلے ہی تھا اور نہ جب سے تو نے اپنے بندے سے کلام کیا،بلکہ رک رک کر بولتا ہوں اور میری زبان کندہے۔‘‘ (کتاب مقدس، خروج، ۴:۱۰، اردو ترجمہ ،بائبل سوسائٹی آف انڈیا بنگلور، ۱۹۷۹ء)
یہ بات تو حق ہے کہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے جب وادی مقدس طویٰ میں پہنچے تو وہاں اللہ کریم نے آپ سے کلام کیا۔ وہیں پر لاٹھی کے سانپ بن جانے کا معجزہ ظاہر ہوا۔ وہیں پر ید بیضا کا معجزہ بھی ملا اور تبلیغ کے لئے فرعون کے پاس جانے کا حُکم ہوا۔ جس پر آپ نے شرح صدر مانگا، کام کی آسانی کی دعا کی، زبان کی گرہ کھولنے کی دعا کی تاکہ لوگ بات کو سمجھ سکیں اور بھائی سیدنا ہارون کو اپنا وزیر بنانے کی دعا کی (طہ 25 – 31)
نتیجہ: اللہ تعالی نے تمام دعائیں قبول کیں۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان کی گرہ مکمل طور پر نہیں کھولی گئی تھی بلکہ اتنی مقدار میں دور کی گئی تھی جس سے بات کرنے میں آسانی پیدا ہوگئی تھی، اس کے باوجود لکنت کا کچھ حصہ آپ کی زبان میں باقی رہ گیا تھا۔ مفسرین یہ بھی فرماتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے مکمل گرہ کشائی کے لئے دعا ہی نہیں کی تھی۔ اگر ایسا کرتے تو مکمل شفاء ہوجاتی۔