جھوٹی کرامات یا واقعات
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی کئی کرامات ہیں مگر مندرجہ ذیل کرامات ان سے جھوٹ منسوب ہیں:
1۔ مشہور کتاب "تفریح الخاطر” میں حضور سیدنا غوث اعظم علیہ الرحمہ کی نسبت سے یہ روایت داخل ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک خادم فوت ہو گیا- اس کی بیوی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آہ وزاری کرنے لگی- اس نے آپ سے اپنے شوہر کو زندہ کرنے کی التجا کی- آپ نے علم باطن سے دیکھا کہ ملک الموت اس دن قبض کی گئی تمام روحوں کو لے کر آسمان پر جا رہے ہیں- آپ نے اسے روکا اور کہا کہ میرے خادم کی روح واپس کر دو تو ملک الموت نے یہ کَہ کر منع کر دیا کہ میں نے یہ روحیں اللہ تعالی کے حکم سے قبض کی ہیں۔
جب ملک الموت نے روح واپس نہیں کی تو آپ نے اس سے روحوں کی ٹوکری (جس میں اس دن قبض کی گئی تمام روحیں تھیں، وہ) چھین لی! اس سے ہوا یہ کہ جتنی روحیں تھیں وہ سب اپنے اپنے جسموں میں واپس چلی گئیں۔
ملک الموت نے اللہ تعالی کے حضور عرض کی: مولا تُو تو جانتا ہے جو تکرار آج میرے اور عبد القادر کے درمیان ہوئی، اس نے تمام ارواح چھین لیں۔
اس پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اے ملک الموت بے شک عبد القادر میرا محبوب ہے۔ تو نے اس کے خادم کی روح کو واپس کیوں نہیں کیا؟ اگر ایک روح کو واپس کر دیتے تو اتنی روحیں اپنے ہاتھوں سے دے کر پریشان نہ ہوتے۔ (ملخصاً: تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبد القادر، المنقبۃ الثامنۃ، ص 68، قادری رضوی کتب خانہ لاہور)
اسی روایت کے بارے میں امام اہل سنت، اعلی حضرت رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا، بس فرق اتنا ہے کہ یہاں خادم کی بیوی کا ذکر ہے اور سوال میں خادم کے بیٹے کا۔ سوال میں یہ اضافہ بھی ہے کہ جب ملک الموت نے روح واپس کرنے سے انکار کیا تو حضور غوث پاک نے انھیں ایک تھپڑ مارا جس کی وجہ سے ملک الموت کی آنکھ باہر نکل گئی!
اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ یہ روایت ابلیس کی گھڑی ہوئی ہے اور اس کا پڑھنا اور سننا دونوں حرام! احمق، جاہل، بے ادب یہ سمجھتا ہے کہ (اس روایت کو بیان کر کے) حضرت غوث اعظم کی تعظیم کرتا ہے حالانکہ وہ حضور کی سخت توہین کر رہا ہے۔ (انظر: فتاوی رضویہ، ج 29، ص 630، رضا فاؤنڈیشن لاہور، س1426ھ)
2۔ بارہ سال پہلے ڈوبی ہوئی بارات
چند کتابوں میں حضور غوث پاک علیہ الرحمہ کی ایک کرامت کا ذکر ملتا ہے کہ آپ نے بارہ سال پہلے ڈوبی ہوئی بارات کو واپس نکال دیا۔ یہ روایت عوام و خواص میں بہت مشہور ہے لہذا مکمل واقعہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
اس روایت پر گفتگو کرتے ہوئے خلیفۂ اعلی حضرت، حضرت علامہ سید دیدار علی شاہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضور سیدنا غوث اعظم علیہ الرحمہ کی کرامات درجۂ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں جیسا کہ امام یافعی نے لکھا ہے کہ "آپ کی کرامات متواتر یا تواتر کے قریب ہیں اور علما کے اتفاق سے یہ امر معلوم ہے کہ آپ کی مانند کرامات کا ظہور آپ کے بغیر آفاق کے مشائخ میں سے کسی سے نہیں ہوا” مگر یہ بارات والی روایت کسی معتبر نے نہیں لکھی لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت غوث اعظم علیہ الرحمہ اس درجے کے نہ تھے- اکثر میلاد خواں (مقررین) واقف نہ ہونے کی وجہ سے مہمل روایات اولیا و انبیا کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ یہاں غلط ہے تو بھی ان کی تعریف پوری ہم نے کر دی- یہ ثواب کی توقع بھی کرتے ہیں، خیر خدا ان پر رحم کرے۔
ہزاروں کرامات اولیاءاللہ سے اور اصحاب رسول علیہ السلام سے ظاہر نہ ہوئیں تو کیا جھوٹی روایت کَہ دینے سے ان کا رتبہ بڑھ جائے گا؟ ہرگز نہیں؛ اصحاب رسول تمام غوث و قطب و اولیا سے افضل ہیں اور تحقیق سے ثابت ہے کہ اولیاءاللہ کی کرامات اکثر اصحاب سے زیادہ ہیں- بہر حال یہ روایت کسی معتبر نے نہیں لکھی ہے اور امکان عقلی سے کوئی امر یقینی نہیں ہو سکتی-(ملخصاً: فتاوی دیداریہ، ص 45)
امام اہل سنت، اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے جب اس روایت کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اگرچہ یہ روایت نظر سے کسی کتاب میں نہ گزری مگر زبان پر مشہور ہے اور اس میں کوئی امر خلاف شرع نہیں لہذا اس کا انکار نہ کیا جائے۔ (انظر: فتاوی رضویہ، ج 29، ص 630، ط رضا فاؤنڈیشن لاہور، س 1426ھ)
معلوم ہوا کہ اس روایت کا کوئی معتبر و مستند ماخذ موجود نہیں اور ایک پہلو یہ ہے کہ بہ قول امام اہل سنت اس روایت کا انکار بھی نہ کیا جائے لیکن پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ زیادہ مناسب یہی ہے کہ ایسی روایات کو بیان کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل بیان کرنے کے لیے دیگر صحیح روایات کو شامل بیان کیا جائے۔
3۔ حضور غوث پاک اور دھوبی کا جھوٹا واقعہ
بیان کیا جاتا ہے کہ حضور غوث پاک علیہ الرحمہ کا ایک دھوبی تھا، جب اس کا انتقال ہوا تو قبر میں فرشتوں نے اس سے سوال کیے جیسا کہ سب سے کرتے ہیں- اس نے ہر سوال کے جواب میں کہا کہ "میں غوث پاک کا دھوبی ہوں” اور اسے بخش دیا گیا۔
اس روایت کے متعلق فقیہ ملت، حضرت علامہ مفتی محمد جلال الدین احمد امجدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ روایت بے اصل ہے۔ اس کا بیان کرنا درست نہیں لہذا جس نے اسے بیان کیا وہ اس سے رجوع کرے اور آئندہ اس روایت کے نہ بیان کرنے کا عہد کرے، اگر وہ ایسا نہ کرے تو کسی معتمد کتاب سے اس روایت کو ثابت کرے۔ (انظر: فتاوی فقیہ ملت، کتاب الشتی، ج 2، ص 411، شبیر برادرز لاہور، س2005 ء)
شارح بخاری، حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ حکایت نہ مَیں نے کسی کتاب میں دیکھی ہے اور نہ کسی سے سنی ہے۔ احادیث میں تصریح ہے کہ اگر (مرنے والا) مومن ہوتا ہے تو قبر کے تینوں بنیادی سوالوں کا جواب دے دیتا ہے، منافق یا کافر ہوتا ہے تو یہ کہتا ہے کہ ہاے ہاے میں نہیں جانتا لہذا یہ روایت حدیث کے خلاف ہے۔ (ملخصاً و ملتقطاً: فتاوی شارح بخاری، کتاب العقائد، ج 2، ص 125، ط دائرۃ البرکات گھوسی، س1433ھ)
مفتی اعظم ہالینڈ، حضرت علامہ مفتی عبد الواجد قادری رحمہ اللہ مذکورہ روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ غالباً یہی واقعہ یا اس کے مثل "تفریح الخاطر” میں ہے لیکن اس کے بیان میں تحقیق ضروری ہے- یوں ہی مبہم طور پر بلا توضیح کے بیان کرنا خلاف احتیاط ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔ (انظر: فتاوی یورپ، کتاب الصلوٰۃ، ص 220)
حضرت مولانا محمد اجمل عطاری صاحب اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فقیہ ملت کا قول بیان کرتے ہیں کہ روایت مذکورہ بے اصل ہے۔ اس کا بیان کرنا درست نہیں لہذا جس نے اسے بیان کیا وہ اس سے رجوع کرے…. الخ (انظر: امام الاولیاء، ص70، ط مکتبہ اعلی حضرت لاہور، س1433ھ)
4۔ جا تجھے سات بیٹے ہوں گے
حضرت سیدنا غوث اعظم کی کرامت بتا کر یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک عورت آپ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا: یا حضرت مجھے بیٹا دو! آپ نے فرمایا کہ لوح محفوظ میں تیری قسمت میں بیٹا نہیں ہے۔
عورت نے کہا: اگر لوح محفوظ میں ہوتا تو آپ کے پاس کیوں آتی؟
آپ نے اللہ تعالی سے عرض کیا کہ یا خدا تو اس عورت کو ایک بیٹا دے دے، جواب آیا کہ لوح محفوظ میں نہیں- عرض کیا کہ دو بیٹے دے، حکم ہوا کہ جب ایک نہیں تو دو کہاں سے دوں؟
عرض کیا کہ تین بیٹے دے، ارشاد ہوا کہ ایک بھی نہیں تو تین کہاں سے دوں، اس کی تقدیر میں بالکل نہیں!
جب وہ عورت ناامید ہو گئی تو غوث اعظم نے غصے میں آکر اپنے دروازے کی خاک سے تعویذ بنا کر دے دی اور کہا کہ جا! تیرے سات لڑکے ہوں گے- وہ عورت خوش ہو کر چلی گئی اور اس کے سات لڑکے ہوئے۔
اس روایت کے متعلق حضرت علامہ مفتی شاہ محمد اجمل قادری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ کسی معتبر و مستند کتاب میں نظر سے نہ گزرا اور بہ ظاہر بے اصل اور لغو معلوم ہوتا ہے، ان سے احتراز کرنا چاہیے اور "بہجۃ الاسرار” سے حضرت کی کرامات بیان کرنی چاہییں۔ (ملخصاً: فتاوی اجملیہ، کتاب الخطر والاباحۃ، ج 4، ص 9، ط شبیر برادرز لاہور، س 2005 ء)
زبان بندی: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث پاک کو پڑھئے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: ” بے شک کبھی آدمی بغیر غور و فکر کئے کوئی بات زبان سے نکالتا ہے جسکے سبب جہنم کی آگ میں اتنی گہرائی میں جاگرتا ہے جتنا کہ مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ ہے۔” (متفق علیہ)۔
بادشاہ پیر (شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ)
1۔ صوفی قرآن و سنت پر خلوص سے عمل کرکے اپنا تزکئیہ نفس کر کے ایسا مسلمان بنتا ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ صوفی ہر خیال اور خوابات، مکاشفات، واردات و کیفیات کا رد کرتا ہے جو شریعت کے خلاف ہوں۔
2۔ صوفی کرامات سے ڈرتا ہے کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس مردے زندہ کرنے، آنکھوں کو بینائی دینے، برص کا مرض ٹھیک کرنے والے ”معجزات“ تھے مگر اصل یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا مقصود معجزات دکھانا نہیں بلکہ اپنی امت کی اپنی شریعت کے مطابق راہنمائی کر کے ان کو اللہ کریم کا مقرب بندہ بنانا تھا۔کرامات، کشف، خوابات کسی بھی ولی کی منزل نہیں بلکہ منزل اللہ کریم کی ذات اقدس ہے جس کے دیدار کے لئے ہر مسلمان عبادت کرتا ہے۔
3۔ بادشاہ پیر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ایک عظیم بزرگ گذرے ہیں جنہوں نے عوام کو گمراہی سے نکال کر حضورﷺ کی شریعت پر چلنے کی دعوت دی اور کثیر مسلمانوں کو آپ کی بدولت ہدایت نصیب ہوئی۔ آپ 470ھ، رمضان کے مہینے میں ایران کے شہر ”گیلان“ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم جناب ابو صالح موسی جنگی رحمتہ اللہ علیہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور آپ کی والدہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں، اسلئے آپ حسنی حُسینی بزرگ ہیں۔
4۔ آپ کو اولیاء اللہ کی فہرست میں بادشاہ پیر کہا جاتا ہے۔ آپ کو کھیل کود سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ بچپن کی تعلیم اپنے ہی شہر اور اعلی تعلیم بغداد کے علماء سے حاصل کی۔ بغداد میں رہتے ہوئے درس و تدریس اور فتوی دینے کا کام شروع کیا۔ آپ حنبلی طریقے اور تصوف میں قادریہ سلسلے کے بانی ہیں۔ آپ کے مرشد حضرت قاضی ابو سعید مبارک مخزومی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔
5۔ آپ نے پچاس سال کی عمر کے بعد چار نکاح کئے اور آپ کے بیس لڑکے اور انیس لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ غوثِ اعظم، پیران پیر دستگیر، محی الدین وغیرہ آپ کےالقابات ہیں۔ آپ کی کتابیں الفتح البانی و الفیض الرحمانی، فتوح الغیب، بہجتہ الاسرارہیں۔
6۔ آپ ساری زندگی علم الحدیث، علم التفسیر، علم العقیدہ، علم الفقہ، تصوف، فنی علوم اور فتاوی دیتے رہے۔ آپ کا وصال 11ربیع الثانی کو ہوا اسلئے آپ کو گیارھویں والا پیر بھی کہا جاتا ہے۔ مسلمان اللہ کریم کی عبادت کر کے ثواب حضورﷺ کو ہدیہ کرتا ہے اور گیارھویں شریف کا مطلب بھی یہی ہے کہ ان کی علمی و عملی کاوش بیان کر کے اللہ واسطے عوام کو کھانا کھلا کر حضرت شیخ عبدالقادر گیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو ایصالِ ثواب کرنا۔ اگر کوئی کہے کہ یہ گیارھویں والے کے نام کی ہے تو عوام کو تعجب ہوتا ہے، اسلئے کہنا چاہئے کہ یہ گیارھویں والے کو ایصال ثواب کیا ہے اُس کے لئے کھانا تقسیم کیا ہے۔