قدرت اور کرامت
بزرگ سمجھاتے ہیں کہ کیا تمہارا اللہ سب اختیارات و طاقتوں و خزانوں کا مالک نہیں؟ اگر سب خزانوں کا مالک ہے تو اس سے مانگو اور لے کر دکھاؤ۔ اسکا بندہ بے اختیار نہیں ہوتا بلکہ اسکی صفات سے متصف ہوتا ہے۔
معجزہ اور کرامت سب اللہ کریم کے حُکم سے ہوتے ہیں، کسی کو اختیار دینے والا بھی اللہ ہی ہے، اللہ کریم کے حُکم کے بغیر کُچھ نہیں ہوتا جیسے:
قدرت الٰہی
1۔ خانہ کعبہ میں پڑے 360 بُتوں کے باوجود، اپنے گھر کی حفاظت کے لئے، ابرہہ کا لشکر سورہ فیل کی ابابیلوں کے ہاتھوں ہاتھیوں کو مروا دیتا ہے۔
2۔ سورہ بقرہ: سیدنا عزیر علیہ السلام کو 100 سال سُلائے رکھتا ہے۔
3۔ سورہ کہف: غار والوں کو تقریبا 309 سال تک سُلائے رکھا۔
اختیار نبی
4۔ سورہ آل عمران: سیدنا عیسی علیہ السلام مٹی سے پرندہ بنا کر زندہ کر دیتے ہیں، پیدائشی اندھے کو آنکھیں عطا کر دیتے ہیں، برص والوں کا برص ٹھیک کر دیتے ہیں وغیرہ
کرامت ولیہ
5۔ سورہ آل عمران کی سیدہ مریم کو بن موسم کے پھل ملتے تھے۔
6۔ ملکہ سبا کا تحت سیدنا سلیمان علیہ السلام کے دربار میں لانے والے کا اختیار تھا۔
استدراج
7۔ احادیث کے مطابق دجال کے پاس بھی بڑی قوتیں ہوں گی جس سے وہ انسانوں کو گمراہ کرے گا۔
نتیجہ: اللہ کریم کی قدرت کا انکاری وہ ہے جو سمجھتا ہے اب اللہ کریم وہی اسباب پیدا نہیں کر سکتا جو قرآن مجید میں موجود ہیں۔ انبیاء کرام کے معجزات کو بھی سچا نہیں مانتے۔ کرامت برحق ہے اور ولی کا کرامت نہ دکھانا بھی حق ہے اور ہو جانا بھی حق ہے، البتہ کرامت کے نام پر ڈھونگ کرنے والوں کی کمی نہیں بلکہ بہت زیادہ ہیں۔
جو ہر ولی سے کرامت مانگتے پھرتے ہیں کہ کر کے دکھاو، اسی طرح اپنے رب کی قدرت کو بھی کہیں کہ کر کے دکھاو ورنہ جو بات قدرت کے لئے ہو گی وہی جواز کرامت کے لئے بھی ہو گا۔ کسی کی کرامت نہ مانیں کوئی گناہ نہیں مگر کرامت کا انکار قرآن کا انکار ہے۔