کھڈے لائن
میرے ایک ڈاکٹر دوست نے کہا کہ میرے لئے دعا کرو کہ مجھے بیرون مُلک جاب مل جائے۔ میں نے کہا کہ تم تو سرکاری نوکری پر ہو تو اپنی خدمات اچھے طریقے سے انجام دے رہے ہو۔ کہنے لگا یہاں پر میں مطمئن نہیں ہوں کیونکہ یہاں میں اپنی صلاحیت کو انسانیت کے کام پر نہیں لگا سکتا۔
میں نے پوچھا وہ کیسے، کہنے لگا اب اس سرکاری ہسپتال کو دیکھ لو، یہاں ہمیں اوپر سے حکم ملا ہے کہ پیسے کوئی نہیں ہیں اور جو بھی مریض اور کسی بھی بیماری کا مریض آئے اس کو صرف یہی دوائی دینی ہے جو اسٹاک میں موجود ہے۔ اب جو بھی آتا ہے اُس کو یہی دوائی دے رہے ہیں سوائے جو اپنا قریبی ہوتا ہے اُس کو کہہ دیتے ہیں کہ باہر سے فلاں دوائی لے لو اگر شفا چاہئے۔
اب اُس نے مجھ سے سوال کیا کہ بتاو کہ کیا یہ نوکری جائز ہے۔ میں نے کہا کہ تم اس کے خلاف آواز اُٹھاو، کہنے لگا کہ یہاں کا بہت سا عملہ تو ویسے ہی کرپٹ ہے اور اگر میں آواز اُٹھاوں گا تو میرا ساتھ نہ تو عوام نے دینا ہے اور نہ میرے ایڈوائزرز نے، مجھے یا تو تنگ کیا جائے گا یا کوئی میرے خلاف کیس بنا دیا جائے گا یا مجھے کُھڈے لائن لگا دیا جائے گا۔
میں نے کہا تو پھر کُھڈے لائن لگ جاو، اُس نے کہا اسلئے تو کہہ رہا ہوں کہ کُھڈے لائن لگنے سے بہتر ہے کہ اپنی صلاحیت یورپ یا عرب ممالک کو دی جائیں، وہاں سے پیسہ کماوں گا تو اپنے بچوں یا اپنے ملک کے غریبوں پر لگا سکتا ہوں۔ یہاں رہ کر تو صلاحیت برباد ہو جائے گی اور عوام کی نفرت کا شکار بھی بنوں گا۔ مال ہی تو آزمائش ہے اور ہم مال کمانے کے چکر میں اپنی اولادوں کو زہر دے رہے ہیں۔
میں نے کہا اپنی اولادوں کو کیسے، کہنے لگا دیکھو دودھ والا دودھ میں پانی ملاتا ہے، وہی دودھ ہماری اولاد پئے گی تو اُس کی صحت کا کیا بنے گا۔ اب اُس نے پیسہ کما کر گوشت خریدا تو اُس میں قصائی نے پانی ملا رکھا تھا جس سے اُس کی اولاد نے کھایا تو صحت کیسے بنے گی۔ اُس قصائی نے نمک مرچ لیا تو اُس میں بھی ملاوٹ تھی تو ہر کوئی اپنی اولادوں کو زہر تو دے رہا ہے۔
میں نے کہا اس کا حل کیا ہے، کہنے لگا حل اللہ کریم ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اور کس سے نکلوائے گا۔ ہم تو بنی اسرائیل کی طرح فرعون کے غلام ہیں مگر درس سیدنا موسی علیہ السلام بننے کے دے رہے ہیں۔ بتاو 1947 سے لے کر کون کون سیدنا موسی علیہ السلام کا کردار بن کر ہمیں بچا رہا ہے۔
میں نے کہا اس قوم کا عقیدہ تو بہت مضبوط ہے، کہنے لگا عقیدہ اگر مضبوط ہوتا تو تم روزانہ اتحاد امت کا درس نہ دے رہے ہوتے۔ یہاں ہر کوئی اپنی اپنی جنت بنانے کے چکر میں دوسروں کی زندگی جہنم بنا رہا ہے۔ اللہ کرے تمہاری بات کسی کی سمجھ میں آ جائے ورنہ عوام میں تو یہ جرات بھی نہیں کہ تمہارے سوالوں پر تحقیق کرلے۔
سب دوست خیال پیش کریں کہ کیا کرنا چاہئے؟