گٹھی دینا
گھٹی کیا ہے اور احادیث میں طریقہ کیا لکھا ہے؟
گھٹّی دینا یعنی کھجور یا کوئی میٹھی چیز چبا کر نومولود بچے کے تالُو میں لگانا، نبیِّ کریم ﷺ اور صحابۂ کرام کا طریقہ ہے۔ گھٹّی دلوانا مستحب ہے نیز یہ بزرگوں سے برکت حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے صحابۂ کرام اپنے بچوں کوگھٹّی دلوانے کے لئے نبیِّ کریم ﷺکے پاس لاتے تھے۔ نیک لوگوں سے گھٹی دلوانے سے بچے کے ایمان واخلاق اچھا ہونے کی نیک فال ہے۔
صحیح مسلم 5616: حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بچے لائے جاتے، آپ ان کے لئے برکت کی دعا کرتے اور انھیں گھٹی دیتے۔
مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرَّحمہ فرماتے ہیں : ”تحنیک کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چھوہارا چبا کر بچے کے تالو میں چپکا دیاجائے، یہ بھی مستحب ہے کہ جب بچہ پیدا ہو علماء، مشائخ، صالحین میں سے کسی کی خدمت میں پیش کیا جائے اور وہ کھجور یا کوئی میٹھی چیز چبا کر اس کے منہ میں ڈال دیں۔ “(نزھۃ القاری، 5/430)
صحیح مسلم 5616 : سیدہ اسماء رضی اللہ تعالی عنہا (مکہ سے) ہجرت کی نیت سے جس وقت نکلیں، ان کے پیٹ میں عبداللہ بن زبیر تھے (یعنی حاملہ تھیں) جب وہ قباء میں آ کر اتریں تو وہاں سیدنا عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے۔ پھر ولادت کے بعد انہیں لے کر نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں تاکہ آپ ﷺ اس کو گھٹی لگائیں، پس آپ ﷺ نے انہیں سیدہ اسماء سے لے لیا اور اپنی گود میں بٹھایا، پھر ایک کھجور منگوائی۔ سیدہ عائشہ کہتی ہیں کہ ہم ایک گھڑی تک کھجور ڈھونڈتے رہے، آخر آپ ﷺ نے کھجور کو چبایا، پھر (اس کا جوس) ان کے منہ میں ڈال دیا۔ یہی پہلی چیز جو عبداللہ کے پیٹ میں پہنچی، وہ رسول اللہ ﷺ کا تھوک تھا۔ سیدہ اسماء نے کہا کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لئے دعا کی اور ان کا نام عبداللہ رکھا۔ پھر جب وہ سات یا آٹھ برس کے ہوئے تو سیدنا زبیر کے اشارے پر وہ نبی کریم ﷺ سے بیعت کے لئے آئے۔ جب نبی کریم ﷺ نے ان کو آتے دیکھا تو تبسم فرمایا۔ پھر ان سے (برکت کے لئے) بیعت کی (کیونکہ وہ کمسن تھے)۔ (صحیح بخاری 5469)
صحیح بخاری 5467 : سیدنا ابوموسیٰ کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تو اسے لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور کھجور کو اپنے دندان مبارک سے نرم کر کے اسے چٹایا اور اس کے لیے برکت کی دعا کی پھر واپس حضرت ابو موسی کو دے دیا۔ یہ ان کے سب سے بڑے لڑکے تھے۔ (صحیح مسلم 5615)
صحیح بخاری 5468 : نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک نو مولود بچہ لایا گیا تاکہ آپ ﷺ اس کی تحنیک کر دیں اس بچہ نے آپ ﷺکے اوپر پیشاب کر دیا، آپ نے اس پر پانی بہا دیا۔
صحیح بخاری 5470 : حضرت ابوطلحہ کا ایک لڑکا بیمار تھا۔ ابوطلحہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے کہ بچہ کا انتقال ہو گیا۔ جب وہ (تھکے ماندے) واپس آئے تو پوچھا کہ بچہ کیسا ہے؟ ان کی بیوی ام سلیم نے کہا کہ وہ پہلے سے زیادہ سکون کے ساتھ ہے پھر بیوی نے ان کے سامنے کھانا رکھا اور ابوطلحہ نے کھانا کھایا۔ اس کے بعد انہوں نے ان کے ساتھ ہمبستری کی پھر جب فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا کہ بچہ کو دفن کر دو۔ صبح ہوئی تو حضرت ابوطلحہ، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو واقعہ کی اطلاع دی۔ نبی کریمﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم نے رات ہمبستری بھی کی تھی؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ نبی کریم ﷺنے دعا کی ”اے اللہ! ان دونوں کو برکت عطا فرما۔“ پھر ان کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا تو مجھ سے ابوطلحہ نے کہا کہ اسے حفاظت کے ساتھ نبی کریمﷺ کی خدمت میں لے جاؤ۔ چنانچہ بچہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لائے اور ام سلیم نے بچہ کے ساتھ کچھ کھجوریں بھیجیں، نبی کریم ﷺنے بچہ کو لیا اور دریافت فرمایا کہ اس کے ساتھ کوئی چیز بھی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں کھجوریں ہیں۔ آپ نے اسے لے کر چبایا اور پھر اسے اپنے منہ میں نکال کر بچہ کے منہ میں رکھ دیا اور اس سے بچہ کی تحنیک کی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔ (صحیح مسلم 5613)
ابوداود 4951 : حضرت انس، عبداللہ بن ابی طلحہ کی پیدائش پر، ان کو لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، آپ ﷺ اس وقت عبا پہنے ہوئے تھے، اور اپنے ایک اونٹ کو دوا لگا رہے تھے، آپ نے پوچھا: کیا تمہارے پاس کھجور ہے؟ میں نے کہا: ہاں، پھر میں نے آپ ﷺ کو کئی کھجوریں پکڑائیں، آپ نے ان کو اپنے منہ میں ڈالا اور چبا کر بچے کا منہ کھولا اور اس کے منہ میں ڈال دیا تو بچہ منہ چلا کر چوسنے لگا، اس پر نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ”انصار کی پسندیدہ چیز کھجور ہے“ اور آپ نے اس لڑکے کا نام ”عبداللہ“ رکھا۔ (صحیح مسلم 5612)
بچے اور احساسِ ذمہ داری
دینِ اسلام میں بچوں کی تربیت ان کی پیدائش سے شروع ہو جاتی ہے، اسلئے بچہ پیدا ہوتے ہی طہارت (غسل)، اللہ کا نام (کان میں اذان)، تبرک (نیک بندے کی گُھٹی)، گندے بال صاف (ٹنڈ)، غیر ضروری کھال صاف (ختنہ)، بہترین نام رکھ کر جانور کا صدقہ (عقیقہ) کرکے خوشی مناتے ہیں۔ البتہ جاہل، بے وقوف اور ڈرپوک عوام اپنے لئے مسائل خود پیدا کرتی ہے۔
غسل: بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ ماں کے ناڑو (ناف) سے بندھا ہوتا ہے، اسلئے اُس کو وہاں سے جُدا کر کے اُس کی ناف باندھ دی جاتی ہے۔ اُس کے بعد سمجھدار مرد یا عورت گرمی سردی کا دھیان رکھتے ہوئے اُس کو سب سے پہلے پانی بہا کرصاف کر تے ہیں، جسے غسل کہتے ہیں۔ بچہ مُردہ ہو تو اُس کو بھی پانی سے صاف (غسل) کر کے کپڑے میں لپیٹ کر کسی گڑھے میں دبایا جاتا ہے۔ اگر بچے نے چیخ ماری، سانس لی اور مر گیاتو پھر نام رکھ کر، غسل دے کر، کفن پہنا کر، نماز جنازہ ادا کر کے چھوٹی سی قبر بنا کر دفن کیا جائے گا۔
اذان: ترمذی 1514 ابوداود 5105: سیدنا ابو رافع نے حضور ﷺ کو سیدنا حسن بن علی کے کان میں نماز کی طرح اذان کہتے دیکھا۔ مسند ابویعلی میں ہے کہ سیدنا حسین نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو وہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے تو اسے مرگی کی بیماری نہیں ہو گی۔
مسائل: عورت یا مرد کوئی بھی بچے کے کان میں اذان اور اقامت آہستہ آواز میں پڑھ سکتا ہے۔ اذان غسل دینے کے بعد جلدی کہنی چاہئے۔ البتہ اگر اذان دینے میں کئی دن کی دیر ہو گئی یا غسل سے پہلے دے دی یا نہیں دے سکے، تب بھی کوئی گناہ نہیں لیکن افضلیت غسل دینے کے بعد کی ہے۔
گُھٹی: بخاری 5510 اور 5512 حضور ﷺ نے کھجور چبا کربچے کے منہ میں ڈالی اور برکت کی دُعا کی۔ ابو داود 5127 کے مطابق آپ ﷺ بچوں کے لئے دُعا کرتے۔
مسائل: کسی بھی نیک آدمی یا عورت کا گُھٹی یا گُڑھتی دے کر خیر و برکت کی دُعا دینا ایک مستحب عمل ہے، بچہ پیدا ہونے کے بعد پہلے غسل، پھر اذان و اقامت اور پھر گُھٹی دیتے ہیں۔
آجکل لڑائی ہوتی ہے کہ دادکے دیں یا نانکے دیں۔ لڑکی کو گُھٹی دیتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں بدکار نہ نکل آئے حالانکہ اگر اذان و اقامت، گُڑھتی نہ بھی دی جائے تو کوئی گناہ نہیں، البتہ عمل کرنے پرثواب ہو گا۔ لازم نہیں کہ نیک آدمی کے گھٹی دینے سے کوئی نیک ہی نکلے، البتہ گھٹی نیک ہی دے۔
جاہلوں کا علاج یہی ہے کہ ان کو شعور دیں ورنہ یہ جاہل عذاب در عذاب اپنی جیسی نسلیں پیدا کریں گے۔