خفیہ کاروائی

خفیہ کاروائی

1

ہر انسان کے اندر شیطان نے اپنا ہیڈ کوارٹر بنا رکھا ہے جو اُس کو مالک کی غداری پر اُکساتا ہے، بُرے کاموں میں پھنسا کر نیکی کے کاموں سے روک دیتا ہے، غیر ضروری کام میں وقت اور پیسہ ضائع کرواتا ہے۔ اسلئے یاد رکھیں کہ سب سے بڑا کام اپنے شیطان کو مسلمان کرکے اپنے شر سے دوسروں کو محفوظ رکھنا ہے۔
* کیا آپ نے اپنے شیطان کو اچھے کاموں میں لگا رکھا ہے تو پھر دجال آئے یا قیامت، آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟
تنظیمیں: ہر مُلک کی خفیہ تنظیمیں ہوتی ہیں جو اپنے مُلک کی بقا کے لئے دوسرے ممالک کے وفاداروں کو مار دیتے ہیں، اپنے ممالک کے غداروں کو پکڑتے ہیں، دوسرے ممالک کو قرضہ دے کر پھنساتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح ہر مُلک کی بعض دینی و سیاسی جماعتیں بھی دوسرے ممالک کے ایجنڈے پر ہوتی ہیں جو مسلمانوں کے روپ میں منافق ہوتی ہیں۔
* کیا آپ کسی جماعت کے ممبر ہیں تو اس جماعت کا مقصد کیا ہے؟
ہر کوئی کہتا ہے کہ ہم نے وطن پرست بننا ہے یا دین پرست بننا ہے حالانکہ جماعت وہی ہو گی جو عوام و علماء، عام و خاص کو ایک عقائد پر اکٹھا کرے گی؟ کیا آپ اپنی جماعت میں داخلے کی شرائط بتا سکتے ہیں یا اپنے کسی عالم یا پیر کی شخصیت کا غلام بنانا چاہتے ہیں؟؟
کہانیاں: ہمارے بچے سمپسن کارٹون دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سمپسن کارٹون میں جو ہونے والا ہے وہ پہلے سے بتا دیتے ہیں۔ ہر ملک کے نجومی، پنڈت، جادوگر بھی یہی کام کرتے ہیں کیونکہ ہم سب کل کے متعلق جاننا چاہتے ہیں اور آج کو بہتر بنانا نہیں چاہتے۔
کیا آپ کو علم ہے کہ بے نمازی کی سزا کیا ہے؟ کیا آپ کو سود کے نقصانات کا علم ہے؟ کیا آپ کو معاشرتی اور معاشی معاملات کا علم ہے تو بتائیں کہ جو کام آپ کر رہے ہیں وہ آپ کو جہنم میں لے کر جائیں گے یا جنت میں؟ بس اتنا علم ضروری ہے اور کسی بھی غیبی خبر کو جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔
ایک دوست نے الیمناٹی تنظیم کے متعلق سوال کیا ہے کہ یہ کیا ہے؟؟
الیومناٹی تنظیم: حسن بن صباح کی بھی ایک خفیہ تنظیم تھی، اسی طرح الیومناٹی ایک خفیہ سوسائٹی تھی جس کا قیام باوریا (موجودہ جرمنی) میں ہوا تھا۔ 1776 سے 1785 تک چلنے والی اس سوسائٹی سے منسلک افراد خود کو ’پرفیکٹبلسٹس‘ کہتے تھے۔ اس سوسائٹی کے بانی قانون کے پروفیسر ایڈم ویشپٹ کا مقصد تھا کہ وہ قانونِ منطق اور فلاح و بہبود کی تعلیم کو پھیلائیں اور معاشرے سے توہم پرستی اور مذاہب کے اثرات کو کم کریں۔ ایڈم ویشپٹ کی خواہش تھی کہ وہ یورپی ممالک میں نظام حکومت کو تبدیل کریں اور ریاستی اُمور سے مذہب کو ختم کریں اور لوگوں کو ’روشنی کی نئی راہ‘ دکھائیں۔
خاتمہ: باوریا کے حکمران کارل تھیوڈور نے سنہ 1784 میں معاشرے میں نئی سوسائٹیوں کے بلااجازت قیام پر پابندی عائد کر دی اور اس کے اگلے برس انھوں نے ایک اور حکم نامہ جاری کیا جس میں صرف الیومناٹی کو ہدف بنایا گیا اور اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔
افواہ: البتہ آج تک افواہیں جیسے آج بھی سوشل میڈیا پر جاری ہیں جو ہمارے وقت کا ضیاع ہیں۔ (مزید کمنٹ سیکشن میں)
فرق بتاؤ فرق مٹاؤ مسلمان بناؤ
حق کو پانے کے لئے صرف حق حق نہیں کہنا بلکہ ان پوائنٹس پر تحقیق کرکے ہمیں سب نے حق بتانا ہے کیونکہ ہماری تحقیق کے مطابق:
اتباع رسول: صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ کی اتباع کی، نبی کریم ﷺ کے بعد صحابہ کرام نے قرآن و سنت کے مطابق مختلف مسائل میں اجتہاد کیا اور تابعین نے نبی کریم و صحابہ کرام سے جو منتقل ہوا اس کے علاوہ خود بھی اجتہاد کیا۔
فقہی اصطلاحات؛ چار فقہی امام حضرات نعمان بن ثابت (امام ابو حنیفہ 80 ۔150)، مالک بن انس (93۔ 179)، محمد بن ادریس (امام شافعی 150۔ 204)، احمد بن محمد حنبل (165۔ 241)ھجری میں تشریف لائے اور فقہی اصطلاحات پہلے مرتب کی گئیں۔
اختلاف: چار فقہی امام کی آپس میں عقائدپر لڑائی ہرگز نہیں تھی بلکہ اختلاف کی وجہ اس وقت (1) قرآن کریم کی قراتوں میں اختلاف تھا (2) صحابہ کرام نے مختلف روایات بیان کیں تھیں (3) روایات کے ثبوت میں شبہ تھا (4) قرآن و احادیث کی نص کو سمجھنے اور اس سے مسائل اخذ کرنے کا مسئلہ تھا (5) عربی الفاظ کی ڈکشنری کے مطابق سمجھناکیونکہ مطلب میں فرق پڑ جاتا ہے (6) حالات کی وجہ سے دلائل میں فرق ہوتا ہے اس کو سمجھنا جسے دلائل میں تعارض کہتے ہیں (7) کتاب و سنت میں احکام محدود اور مسائل بہت زیادہ ہیں اسلئے اجتہاد کرنا وغیرہ۔ اسلئے ان چار امام نے مجتہد بن کر قرآن و احادیث سے سمجھنے کے فقہی قانون بنائے۔
اصطلاحات احادیث: اس کے بعد چھ محدث امام حضرات محمد بن اسماعیل (194۔256 بخاری)، مسلم بن حجاج (204۔261)، ابو داؤد (202۔275)، محمد بن عیسی (229۔279 ترمذی)، محمد بن یزید (209۔273 ابن ماجہ)، احمد بن شعیب (215۔303 نسائی) ھجری میں پیدا ہوئے جنہوں نے احادیث اکٹھی کیں مگر عوام کوفقہی مسائل نہیں سکھائے اور نہ ہی کسی نے ان کی تقلید کی بلکہ عوام مختلف مسائل میں چار ائمہ کرام کی تقلید کرتی مگر آپس میں اختلاف بھی ہوتے تھے۔
قانون تقلید: سلطنت عثمانیہ کے 600 سالہ دور میں اہلسنت علماء کرام کی مشاورت سے تقلید کا قانون منظور ہوا جس کے مطابق ہر حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی مقلد اپنے اپنے امام کے پیچھے نماز ادا کرے گا اور زکوت حج وغیرہ کے مسائل میں اپنے اپنے امام کی تقلید قرآن و سنت کے مطابق کرے گا۔ اسلئے خانہ کعبہ میں چار مصلے رکھ دئے یعنی مقام متعین کر دئے کہ ہر کوئی دنیا کہ کسی کونے سے آیا ہوا، اپنے اپنے امام کے پیچھے نماز ادا کر لے
قانون شکنی: سعودی ملوکیت کے دور میں یہ قانون توڑا گیا لیکن ساری دنیا کے اہلسنت علماء کرام کو کوئی قانون نہیں دیا گیا کہ کس قانون پر رہنا ہے بلکہ اس وقت سلفی، توحیدی، محمدی، وہابی، اہلحدیث، غیر مقلد، ڈاکٹر اسرار، غامدی، مودودی، مرزا انجینئر سب کس قانون و اصول پر ہیں کچھ معلوم نہیں؟
یہ ایسے ہی ہے جیسے اہلتشیع ایک بے بنیاد دین ہے اور عقیدہ 14 معصوم اور 12 امام کا جھوٹا ہے۔
فقہ جعفر کے 12 امام: خلافت راشدہ، بنو امیہ اور عباسی خلیفہ المعتمد باللہ (256 – 279ھ) تک سیدنا علی کی شہادت 40ھ تقریباً، سیدنا حسن (3 – 49ھ)، سیدنا حُسین (4 – 61)، سیدنا زین العابدین (38 – 95)، سیدنا باقر (57 – 114)، سیدنا جعفر (82 – 148)، سیدنا موسی (128 – 183)، سیدنا علی (148 – 203)، محمد تقی (195 – 220)، سیدنا علی نقی (212 – 254)، سیدنا حسن عسکری (232 – 260ھ) تشریف لائے۔
فقہ جعفر: فرقہ جعفر یہ کی کتب اربعہ سمیت دیگر کتب میں سے تقریبا 2 لاکھ روایات زیادہ تر حضرت جعفر صادق سے منسوب کر دی گئیں۔ حضرت جعفر صادق مدینہ منورہ میں ساری زندگی رہے اور مدینہ منورہ کا کوئی ایک بھی شاگرد ان کا چودہ اور 12 کے عقیدے پر نہیں تھا بلکہ سارے شاگرد یعنی مفصل زرارہ محمد بن مسلم، ابو بریدہ، ابو بصیر، شاہین،حمران، جیکر مومن طاق، امان بن تغلب اور معاویہ بن عمار "کوفی” تھے جن کی ملاقات بھی حضرت جعفر صادق سے ثابت نہیں۔ اہلتشیع کی کتب اربعہ کے نام یہ ہیں:
(1) الکافی۔ ابو جعفر کلینی 330ھ یعنی حضرت جعفر صادق سے تقریباً 180برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ۔ محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً230 سال بعد (3) تہذیب الاحکام (4) استبصار محمد بن حسن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی گئیں۔
صحیح احادیث: تمام مکتبہ فکر جو اہلسنت کی صحیح احادیث کو اتباع رسول سمجھتے ہیں مگر صحیح احادیث سے پہلے علماء کرام اتباع رسول کسطرح کرتے یہ نہیں بتاتے اور نہ ہی یہ بتاتے ہیں کہ صحیح احادیث پر چلنے کا حکم کس فقہی یا محدث یا مجتہد امام کا ہے جس سے عوام گمراہ ہوتی ہے۔
نتیجہ: اہلسنت علماء وہی ہیں جو دولتِ عثمانیہ کے دور کے اہلسنت علماء کرام حنفی شافعی مالکی حنبلی سے ہوتے ہوئے نبی اکرم ﷺ کے دور تک متصل ہیں۔ دیوبندی اور بریلوی کی 100 سال سے پہلے والی قرآن کی تفسیر اور احادیث کی شرح وہی ہے جو دولتِ عثمانیہ والے اہلسنت علماء کرام کی ہے۔ البتہ دیوبندی و بریلوی میں اصولی فرق حسام الحرمین کے فتاوی ہیں۔
اگر کوئی دیوبندی سعودی علماء کے ساتھ ہے تو اپنے اکابر کو بدعتی و مشرک بنا رہا ہے اور جو بریلوی عالم و مفتی رافضی حضرات کے ساتھ ہیں وہ ڈبل رول سے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔
قیمتی مشورہ؛ مسجد نبوی و خانہ کعبہ کے نامزد امام کے پیچھے نماز ادا کرنے والے پاکستان کے دیوبندی حنفی، سلفی، توحیدی، محمدی، غیر مقلد اور اہلحدیث جماعتوں کو اپنی اپنی شناخت مٹا کر ایک جماعت، ایک عقیدہ، ایک طرح کی نماز ادا کرنے والا ہونا چاہئے تاکہ فرقہ واریت کا خاتمہ ہو۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general