صدیق اکبر

صدیق اکبر

1

صحیح بخاری 3675 : نبی کریم ﷺ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر احد پہاڑ پر چڑھے تو احد کانپ اٹھا، آپ ﷺ نے فرمایا ”احد! قرار پکڑ کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔
صحیح بخاری 3661: آپﷺ نے فرمایا: اللہ نے مجھے تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا تھا اور تم لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، لیکن ابوبکر نے کہا تھا کہ آپ سچے ہیں اور اپنی جان و مال کے ذریعہ انہوں نے میری مدد کی تھی۔
المستدرك للحاكم 4407: راوی ام المؤمنین سیدہ عائشہ، حضور ﷺمعراج سے واپس آئے، کچھ لوگ سیدنا ابوبکر کے پاس آئے اور کہا: یہ آپ کا ساتھی اس قسم کا دعویٰ کر رہا ہے کہ اسے آج رات بیت المقدس تک سیر کرائی گئی، اب آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟ سیدنا ابوبکر نے پوچھا: آیا آپ ﷺ نے یہ دعویٰ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں ! سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر آپ ﷺ نے ایسی بات کی ہے تو آپ ﷺ نے سچ فرمایا ہے، انہوں نے کہا: کیا تم تصدیق کرو گے کہ آپ راتوں رات بیت المقدس گئے اور صبح سے پہلے پہلے واپس بھی آ گئے ہیں؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں! ‏‏‏‏(غور کرو کہ) میں تو ان امور میں بھی آپ کی تصدیق کرتا ہوں، جو ‏‏‏‏تمہاری سمجھ کے مطابق اس‏‏‏‏ واقعہ سے بھی مشکل اور بعید ہیں، میں تو صبح کے وقت آسمانی خبر یعنی آپ ﷺ پر نازل ہونے والی وحی کی تصدیق کرتا ہوں، وہ صبح کو ہو یا شام کو، اسی وجہ سے ابوبکر کو "صدیق” کہا گیا۔
اجماع: علامہ نووی (م676ھ)نےفرمایا کہ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ حضرت ابوبکر کا لقب "صدیق” تھا۔حضرت علی نے فرمایا: ابوبکر ہی وہ شخصیت ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے جناب رسول اللہ ﷺکی زبانی "صدیق” کا لقب عطاء فرمایا۔(تهذيب الأسماء و اللغات للنووی: (1/281، ط: دار الکتب العلمیة)
2۔ فاروق اعظم
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک یہودی اور منافق کا جھگڑا ہوا تو یہودی نے اس منافق کو فیصلے کے لیے جناب رسول اللہ ﷺکی طرف بلایا پھر وہ دونوں نبی اکرم ﷺ کے پاس اپنا فیصلہ لے گئے، آپ ﷺنے یہودی کے حق میں فیصلہ فرما دیا ،جب دونوں باہر آئے تو منافق نے کہا: میں راضی نہیں ہوں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس چلو،تو حضرت ابوبکر نے بھی جناب رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کی طرح یہودی کے حق میں فیصلہ کردیا تو منافق نے کہا: آجاؤ! ہم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس اپنا فیصلہ لے جاتے ہیں جب دونوں حضرت عمر کے پاس پہنچےتو یہودی نے حضرت عمر کو ساری بات بتائی اور اس منافق نے بھی اس کی تصدیق کی تو حضرت عمر نے فرمایا کہ اپنی جگہ ٹھہرے رہو! یہاں تک کہ میں تمہارے پاس آتا ہوں۔ حضرت عمر گھر گئے اور اپنی ت ل وار اٹھا لائے اور باہر آکر اس منافق کی گردن اڑا دی یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا ۔ پھر انہوں نے فرمایا میں اسی طرح فیصلہ کرتا ہوں اس آدمی کے لئے جو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ پر راضی نہ ہو ،اس قصہ پر یہ آیات(سورۃ النساء کی آیت 60، 61)نازل ہوئی اور حضرت جبریل علیہ السلام نےحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: عمر نے حق اور باطل میں تفریق کی تو آپ ﷺ نے حضرت عمر کو ’’فاروق‘‘ کے لقب سے ملقب فرمایا۔(التحرير والتنوير لابن عاشور: 5/103)
حضرت ایوب بن موسی سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے حضرت عمر کی زبان اور دل پر حق جاری فرمادیا، اور وہی فاروق ہیں، جن کی وجہ سے اللہ تعالی نے حق اور باطل کے درمیان تفریق فرمائی۔(الطبقات الكبير لابن سعد: 3791)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ حضرت عمر کا لقب "فاروق” کس نے منتخب کیا؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جناب رسول اللہ ﷺ نے منتخب فرمایا ہے۔(الطبقات الكبير لابن سعد: 3792)
اجماع: علامہ ابن حجر عسقلانی م852ھ)فرماتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لقب "فاروق” پر علماء کا اتفاق ہے۔(فتح الباري: 7/44)
3۔ مولا علی کی شان
مولا علی کی شان میں بہت سی احادیث ہیں لیکن ابن ماجہ 120 والی حدیث کچھ کہتے ہیں موضوع ہے اور کچھ کہتے ہیں ضعیف ہے۔
سنن ابن ماجہ 120: مولا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول ﷺکا بھائی ہوں، اور میں صدیق اکبر ہوں، میرے بعد اس فضیلت کا دعویٰ جھوٹا شخص ہی کرے گا، میں نے سب لوگوں سے سات برس پہلے نماز پڑھی۔(اسنادی حیثیت کمنٹ سیکشن میں)
سیدنا ابوبکر و عمر مولا علی کی نظر میں
صحیح بخاری 3671: علی کے بیٹے محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ (حضرت علی ) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر، میں نے پوچھا پھر کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا، اس کے بعد ہیں۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب (پھر میں نے پوچھا اس کے بعد؟) کہہ دیں گے کہ عثمان، اسلئے میں نے خود کہا، اس کے بعد آپ ہیں؟ یہ سن کر بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں۔
صحیح بخاری 3677؛ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ عمر کا جنازہ تحت پر تھا اور لوگ دعا کر رہے تھے کہ ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کاندھے پر رکھی اور کہا کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے، میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کا مقام آپ کے دو صاحبوں (رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر) کے ساتھ کر دے گا کیونکہ میں نے کئی بار رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ”میں اور ابوبکر اور عمر تھے، میں نے ابوبکر و عمر نے یہ کام کیا، میں اور ابوبکر اور عمر گئے“ بے شک میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ رکھے گا، میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو یہ کہنے والے حضرت علی بن ابی طالب تھے۔
مشاجرات صحابہ کرام نبی اکرم ﷺ نے مختلف احادیث میں، مختلف اصحاب کی، ایک جیسی تعریف کی ہے جیسے علم کے متعلق فرمایا:
صحیح بخاری 3681: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا۔ میں نے پیا ، یہاں تک کہ سیرابی کو اپنے ناخنوں سے نکلتے ہوئے دیکھا۔ پھر بچا ہوا دودھ میں نے عمر بن خطاب کو دے دیا۔ لوگ عرض گزار ہوئے ، یا رسولﷲ ! آپ اس (دودھ) سے کیا مراد لیتے ہیں؟ فرمایا ، علم۔
ترمذی 3723 : حضرت علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں“۔
نتیجہ: اب صحیح حدیث میں حضرت عمر کو عالم ہونے کی نوید سنائی گئی اور ترمذی کی حدیث حسن ہے لیکن ہمارے نبی کریم ﷺ نے قرآن کریم کے مطابق یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ یعنی تمام صحابہ کرام کا تزکئیہ نفس کیا اور ان کو قرآن کی تعلیم دی اور حکمت سکھائی۔ اب یہاں گھر والے اور در والے کا فرق نہیں ہے بلکہ فرق ڈالنے والا منگھڑت دین اہلتشیع ہے جس کا دین کتب اربعہ کے راویوں مفصل زرارہ محمد بن مسلم، ابو بریدہ، ابو بصیر، شاہین، حمران، جیکر مومن طاق، امان بن تغلب اور معاویہ بن عمار سے شروع ہوتا ہے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general