
صلح کی شرائط
عوام کو ایک تحقیقی مائنڈ کا ہونا چاہئے، اسلئے ان سوالوں پر سوچنا پڑے گا:
پوائنٹ1: کیا متفقہ احادیث و سیرت صحابہ کتابوں میں حضرت حسن اور معاویہ دونوں کے فضائل ملتے ہیں یا نہیں؟ کسی کا عقیدہ 14 اور 12 کا نہیں تھا بلکہ بیعت و صُلح حضرت معاویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سیدنا حسن نے امامت نہیں کی بلکہ خلافت حضرت معاویہ کے سُپرد کر دی۔ اسلئے
حضرت حسن رضی اللہ عنہ
سورہ آل عمران 61 مباہلے والی آیت ”اور ہم اپنے بیٹے بلائیں تم اپنے بیٹے بلاؤ“ نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے حضرت علی، فاطمہ، حسن و حسین (رضی اللہ عنھم) کو بلایا اور فرمایا: اے اللہ یہ میرے اہل (بیت) ہیں (صحیح مسلم 6220)۔ سورہ الاحزاب 33: اے اہل بیت! اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے پلید دور کر دے اور تمہیں خوب پاک صاف کر دے نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے اپنی اونی چادر میں حضرات حسن و حسین و فاطمہ و علی کو داخل کر کے یہ آیت پڑھی۔ (مسلم 6261)
ترمذی 3781: بے شک حضرت حسن و حسین اہل جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ ترمذی 3769: یہ دونوں (حسن و حسین) میرے بیٹے اور نواسے ہیں۔ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تُو بھی ان دونوں سے محبت کر اور جو ان سے محبت کرے تُو اس سے محبت کر۔ صحیح بخاری 3751: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: محمد ﷺ کے اہل بیت (سے محبت) میں آپ ﷺ کی محبت تلاش کرو۔ ترمذی 3774: حضرت حسن و حسین جمعہ کے وقت میں آئے تو حضور ﷺ نے منبر سے اُتر کر انہیں پکڑا، اپنے سامنے لا کر پھر خطبہ شروع کر دیا۔
صحیح بخاری3735، 3749، 2122: نبی کریم ﷺ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو اپنے کاندھے پر اُٹھایا ہوا تھا اور آپ ﷺ فرما رہے تھے اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔ بخاری 3752: حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی بھی حضور ﷺ سے مشابہ نہیں تھا۔ ابوداود 4131: حضور ﷺ نے حسن (رضی اللہ عنہ) کو گود میں بٹھا کر فرمایا یہ مجھ سے ہے۔
شہادت: کسی کے زہر کھلا دینے کے سبب 5 ربیع الاول 49 یا 50ھ کو مدینہ منورہ میں شہادت پائی میں آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ (صفۃ الصفوۃ ج 1 ص 386، المنتظم ج 5 ص 226)
نماز جنازہ: حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے پڑھائی جو اس وقت مدینہ منورہ کے گورنر تھے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے آپ کو جنازہ پڑھانے کے لیے آگے بڑھایا۔ (الاستیعاب ج 1 ص 442)
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ
سورہ حدید 10: تم میں سے جن لوگوں نے فتحِ (مکّہ) سے پہلے (اللہ کی راہ میں اپنا مال) خرچ کیا اور (حق کے لیے) قتال کیا وہ (اور تم) برابر نہیں ہوسکتے، وہ اُن لوگوں سے درجہ میں بہت بلند ہیں جنہوں نے بعد میں مال خرچ کیا ہے، اور قتال کیا ہے، مگر اللہ نے حسنِ آخرت (یعنی جنت) کا وعدہ سب سے فرما دیا ہے، اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اُن سے خوب آگاہ ہے۔
مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں”حسنی” سے مراد جنت ہے۔(تفسیر جلالین، ص 449، تفسیر روح المعانی ج 14 ص 171) فتح مکہ کے بعد بھی اگر حضرت معاویہ اسلام لائے تو اس آیت میں شامل ہیں۔
صحیح بخاری 2924: "میری اُمت کا پہلا لشکر جو سمندر میں جہ اد کرے گا، ان کے لئے جنت واجب ہے”۔ سیدنا معاویہ اس میں شامل تھے۔ (صحیح بخاری 2799، 2800، 6282، 6283)
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبین وحی میں سے تھے۔ (صحیح مسلم 2604)
صحیح بخاری 3765: كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة،باب معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیان: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ حضرت معاویہ کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں، انہوں نے وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ «إنه فقيهٌ» وہ خود فقیہ ہیں۔
صحیح بخاری 1730: حج میں حضورﷺ کے بال قینچی سے حضرت معاویہ نے کاٹے تھے۔
ترمذی 3842: اے اللہ! معاویہ کو ہدایت یافتہ بنادے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:”اللھم علم معاویۃ الکتاب والحساب، وقه العذاب
ترجمہ "اے میرے اللہ! معاویہ کو کتاب و حساب سکھا اور اُسے عذاب سے بچا۔” (مسند احمد 17152، صحیح ابن خزیمہ 1938)
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد "اسلام کا اول دور نبوی رحمت کا ہے، اس کے بعد خلافت کی رحمت ہے، اور اس کے بعد ملوکیت کی رحمت ہے” (المعجم الکبیر للطبرانی: 14446)
عہد رسول اور حضرت معاویہ: تمام غزوات بالخصوص غزوۂ حنین، غزوۂ طائف، غزوۂ یمامہ اور چھوٹی بڑی کئی گشتی مہموں میں شرکت فرمائی۔ (سیرت ابن ہشام : 292/2)
عہد صدیقی: سیدنا ابوبکر صدیق نے حضرت معاویہ کو شام بھیجے جانے والے لشکر کے ہراول دستے کا علمبردار مقرر فرمایا اور سپہ سالار حضرت معاویہ کے بھائی یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ تھے۔ (محاصرات تاریخ الامم الاسلامیہ ج 4 ص 471، فتوح البلدان ص 48)
عہد فاروقی: میں بھی حضرت معاویہ اعلی عہدوں پر فائز رہے۔ 18ھ میں عمواس کے طاعون میں حضرت معاویہ کے بھائی حضرت یزید کے انتقال کے بعد سیدنا عمر فاروق نے آپ رضی اللہ عنہ کو دمشق کا گورنر مقرر فرمادیا۔ (البدایہ والنہایہ ج 8 ص 124۔ ابن خلدون ج 3، ص 6) جہاں حضرت معاویہ نے چار سال شام کے گورنر کی حیثیت سے روم کی سرحدوں پر لڑائی کر کے بہت سارے شہر فتح کیے۔
عہد عثمانی: سیدنا عثمان نے اپنے عہد خلافت میں حضرت معاویہ کے حسن انتظام، تدبر اور سیاست سے متاثر ہوکر حمص، قنسرین اور فلسطین کے علاقے بھی آپ کے ماتحت کر دیے۔ (تاریخ ابن خلدون)
عہد سیدنا علی: باغیوں کا دور جس میں مسلمانوں کی آپس میں دو لڑائیاں جمل و صفین ہوئیں یعنی حضرت علی کی لڑائی سیدہ عائشہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی مگر پرابلم قصاص عثمان کا مطالبہ تھا۔ صفین کی لڑائی کے بعد تحکیم کا واقعہ پیش آیا اور دونوں گروپ میں صلح ہوئی جس میں سے ایک صحیح بخاری 2812 والا باغی گروہ نے نکل کر ایک گروپ بنایا جس کو حضرت علی نے نہروان کے مقام پر مارا، جس کی تفصیلات پہلے بیان کی گئی ہیں۔
شہادت سیدنا علی: 17 رمضان المبارک 40ھ کو باغی گروپ کے عبدالرحمن بن ملجم نے حضرت علی کو شہید کیا اور 21 رمضان المبارک 40 ہجری کو جامِ شہادت نوش فرمایا۔
خلافت: حضرت علی کی شہادت کے بعد حضرت حسن کے دست مبارک پر بیعت کی گئی اور 6 ماہ کے بعد چند شرائط کے ساتھ امور خلافت حضرت معاویہ کو سپرد کر دیے۔ حضرت معاویہ نے تمام شرائط قبول کیں اور صلح ہوگئی۔ (تاریخ الخلفاء ص 317)
غیبی خبر کی سچائی: حضور ﷺ نے حسن (رضی اللہ عنہ) کو دیکھ کر فرمایا کہ میرا یہ بیٹا (نواسا) سید (سردار) ہے اور ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی اس کے ذریعے سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کروائے۔ (صحیح بخاری 2704)
وفات: 60ھ میں جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی عمر کا اٹھتّرواں سال تھا۔ اسلامی حکومت کی سرحدیں 64 لاکھ 65 ہزار مربع میل رقبہ تک پھیل چکی تھیں۔ 22 رجب المرجب 60ھ کو آپ کا وصال ہو گیا، نماز جنازہ صحابی رسول حضرت ضحاک بن قیس نے پڑھائی۔ ( الاستیعاب تحت الاصابہ 378/3)
پوائنٹ 2: حضرت حسن نے صُلح حضرت معاویہ سے صحیح بخاری 2812 کا باغی گروہ سمجھ کر کی یا مسلمان صحابی سمجھ کر کی؟
حضرت علی المرتضیٰ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو آپ نے اپنے بیٹے حضرت حسن کو اپنے پاس بلایا اور اُن کو وصیت فرمائی کہ : ’’بیٹا! حضرت معاویہ کی امارت قبول کرنے سے ہرگز نفرت نہ کرنا! ورنہ باہم کشت و خون ریزی دیکھوگے۔‘‘( البدایہ والنہایہ : 131/8)
حضرت حسن نے حضرت معاویہ سے صلح کرنے کا دل میں سوچا ہی تھا کہ حضرت معاویہ نے آپ سے صلح کرنے میں پیش قدمی کرلی ، جس کے بعد حضرت حسن نے اپنی دلی رضاء و رغبت کے ساتھ منصب خلافت حضرت معاویہ کو سونپ دیا اور حضرت معاویہ ؓ کو اپنا خلیفہ تسلیم فرماکر خلافت جیسے عظیم عہدے سے سبک دوش ہوگئے۔ (تاریخ اسلام ج 1 ص 544)
پوائنٹ3: معاہدے کی شرائط کیا تھیں؟
1۔ اس وقت امیر معاویہ خلیفہ بنائے جاتے ہیں لیکن ان کے انتقال کے بعد سیدنا حسن خلیفتہ المسلمین ہوں گے۔
2۔ مدینہ شریف اور حجاز و عراق وغیرہ کے لوگوں سے سیدنا علی کے زمانہ کے متعلق کوئی مواخذہ اور مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔
3۔ سیدنا حسن کے ذمہ جو کچھ قرضہ وغیرہ ہے اس کی ادائیگی حضرت معاویہ کریں گے۔ (تاریخ الخلفاء) اہلتشیع حضرات اسطرح لکھتے ہیں:
4۔ کتاب اللہ، سنت مصطفی اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کو قائم رکھنے کی شرط پر قائم رہنا اور تمھیں یہ اختیار حاصل نہیں ہو گا کہ تم میرے علاوہ کسی اور کو ولی عہد مقرر کرو۔
5۔ میرے والد علی رضی اللہ کو گالیاں نہیں دی جائیں گی۔
6۔ کوفہ کے بیت المال سے پانچ لاکھ درہم لیں گے اور دارا بجرد ان کے لیٸے ھو گا۔
سوال؟ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں (49 یا 50ھ) تک کتنی مرتبہ حضرت معاویہ وفات (60ھ) سے ان شرائط کو پوری نہ کرنے پر شکایت کی؟؟ ادھر ادھر کی کتابوں سے نہیں بلکہ ان کی سٹیٹمنٹ کہاں لکھی ہے۔
قدیم شیعی مورخ ابوحنیفہ الدینوری کی کتاب ” الاخبار الطوال” کے بقول سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے ساتھ جو شرائط طے کی تھیں ان میں کوئی کمی نہ کی۔
علامہ ابن حجر مکی فرماتے ہیں:حق بات یہ ہے کہ حضرت حسن کی صلح کے بعد حضرت معاویہ کی خلافت صحیح معنوں میں ثابت ہے اور اس کے بعد وہ خلیفہ حق اور امام صادق ہیں۔ “ (الصواعق المحرقہ، صفحہ 216)
خواہش: کسی نے سیدنا حسن سے پوچھا کہ آپ خلافت چاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا جس وقت ایک بڑی فو ج میرے ساتھ تھی اُس وقت اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے خلافت چھوڑ دی، اسلئے لوگوں کی خوشی کے لئے خلافت لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ (تاریخ الخلفاء)
علامہ ابن کثیر: آپ (معاویہ) کے زمانہ میں دشمن کے ممالک میں اللہ کا کلمہ بلند تھا۔ غنیمتیں زمین کے سب گوشوں سے سمٹ کر آپ کے پاس آتی تھیں اور مسلمان آپ کے دورِ خلافت میں عدل و انصاف اور راحت و آرام کے ساتھ اپنی زندگی کے دن گزارتے تھے۔ (البدایہ و النہایہ ج 8 ص 188)
پوائنٹ 4: صُلح کے بعد جب تک حضرت حسن حیات یعنی زندہ رہے، کیا حضرت معاویہ سے ملتے رہے؟
1۔ حضرت حسن حضرت معاویہ کی خلافت کے دوران ان کے پاس جایا کرتے تھے، جب وہ ایک باران کے پاس گئے تو حضرت معاویہ نے فرمایا: میں تمہیں ایسا انعام دینا چاہتا ہوں جو میں نے آپ سے پہلے کسی کو دیا اور نہ بعد میں دوں گا، چنانچہ انہوں نے انہیں چار لاکھ درہم دئیے جنہیں حضرت حسن نے قبول کر لیا۔ (سیر اعلام النبلاء 3/269)
2۔ حضرت حسن بن علی ہر سال حضرت معاویہ کے پاس تشریف لے جاتے اور وہ انہیں ایک لاکھ درہم دیا کرتے، ایک سال وہ نہ جا سکے تو حضرت معاویہ نے ان کے پاس کوئی چیز نہ بھیجی، حضرت حسن نے حضرت معاویہ کو خط لکھنے کے لیے دوات منگوائی تو انہیں خط لکھنے سے پہلے نیند آ گئی، انہوں نے خواب میں نبی کریم ﷺ کو دیکھا تو یوں لگا کہ آپ ﷺ فرما رہے ہوں: ’’حسن! کیا تو اپنی ضرورت کے لیے مخلوق کو خط لکھتا ہے اور اپنے رب سے سوال نہیں کرتا؟ حضرت حسن نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں کیا کروں جبکہ میرا قرضہ بہت زیادہ ہو چکا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ دعا کیا کر: ’’یا اللہ! میں تجھ سے ہر اس چیز کا سوال کرتا ہوں جس سے میری قوت اور حیلہ کمزور ہے اور جس تک میری رغبت نہیں پہنچی، اس کا میرے دل میں خیال نہیں آیا، اس تک میری امید نہیں پہنچی اور میری زبان پر وہ یقین جاری نہیں ہوا جسے تو نے پہلی مخلوق میں سے کسی کو دیا، مہاجرین اور دوسروں کو دیا مگر تو مجھ کو اس سے نواز دے، یا ارحم الراحمین۔‘‘حضرت حسن فرماتے ہیں: میں بیدار ہوا تو یہ دعا مجھے یاد ہو چکی تھی، میں یہ دعا کرتا رہا، تھوڑی ہی دیر بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے میرا تذکرہ کیا تو انہیں بتایا گیا کہ وہ اس سال نہیں آئے۔ جس پر انہوں نے میرے لیے دو لاکھ درہم کا حکم دے دیا۔ (تاریخ دمشق: 14/8)
3۔ جب سیدنا علی بن ابو طالب شہید کر دئیے گئے اور حضرت حسن حضرت معاویہ کے پاس آئے تو حضرت معاویہ نے ان سے کہا: اگر تمہیں یزید پر بجز اس کے اور کوئی فضیلت حاصل نہ ہوتی کہ تمہاری ماں قریشی خاتون ہے جبکہ اس کی ماں بنو کلب سے ہے تو تمہیں پھر بھی اس پر فضیلت ہوتی، مگر اس پر تمہاری فضیلت کا تو کوئی ٹھکانا ہی نہیں ہے اس لیے کہ تمہاری ماں فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ ہیں۔ (الشریعۃ للآجری: 5/2470)
4۔ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما معاویہ رضی اللہ عنہ سے عطیات قبول کیا کرتے تھے۔ (الشریعۃ للآجری: 5/2470)
5۔ ایک دفعہ حضرت معاویہ نے حضرت حسن بن علی کے لیے ایک لاکھ درہم بھیجے تو وہ اپنے پاس موجود لوگوں سے کہنے لگے: اس میں سے جو شخص کچھ لے لے وہ اس کا ہوا۔ انہوں نے حضرت حسین بن علی کے لیے ایک لاکھ درہم بھجوائے تو ان کے پاس دس لوگ بیٹھے تھے انہوں نے وہ درہم دس دس ہزار کر کے ان میں تقسیم کر دئیے۔ (تاریخ دمشق: 42/133)
6۔ سیدنا حسن اور سیدنا حسین دونوں بھائی اکثر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاں جایا کرتے تھے وہ دونوں کی بہت عزت و تکریم کرتے، محبت و شفقت سے پیش آتے اور اپنے برابر تخت پر بٹھاتے اور ایک ایک دن میں ان کو دو، دو لاکھ درہم عطا کرتے۔ سیدنا حسن کی شہادت کے بعد سیدنا حسین بدستور ان کی مجلس میں تشریف لے جاتے اور وظائف او رعطایا حاصل کرتے۔ (البدایہ و النہایہ،جلد: 8ص: 150)
7۔ تلخیص شافی میں شیعہ ابو جعفر طوسی صفحہ نمبر49 پر لکھتا ہے ”اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور خلافت ان کے سپرد کر دی اور خود اس سے دست بردار ہو گئے اور حضرت معاویہ سے عطیے اور تحائف لیتے رہے۔
8۔ اہلتشیع حضرات کی کتاب مناقب شہر بن آشوب ۴:۳۳ کے مطابق بھی ”حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے عہد لیا کہ مجھے ہر سال پچاس ہزار درہم دیں گے انہوں نے بقید حلف یہ معاہدہ کیا۔
8۔ کوفے والوں نے پھر حضرت حسین کو بہکانا چاہا مگر ابو حنیفہ دینوری کی تصنیف ”اخبار الطّوال“ کے مطابق انہوں نے فرمایا ”ہم نے بیعت کر لی ہے اور عہد کر لیا ہے اور ہمارے بیعت کے توڑنے کی کوئی سبیل نہیں“۔ (اخبار الطوال، ص: 234، رجال کشی، ص: 102)
پوائنٹ 5: حضرت علی، حسن و حسین کی نظر میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا کردار کیا تھا؟
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم جب صفین سے لوٹے تو آپ نے فرمایا "اے لوگو! تم معاویہ کی امارت کو ناپسند نہ کرو, کیونکہ بخدا اگر تم انہیں کھو دیتے تو سروں کو گردنوں سے حنظل پھل کی طرح گرتے ہوئے دیکھتے۔ (مصنف ابن أبی شیبۃ، المجلد الحادی و العشرین، کتاب الجمل، باب ما ذکر فی صفین ص 412)
ریاح بن حارث کہتے ہیں کہ صفین میں کسی نے کہ دیا کہ اہل شام مسلمان نہیں رہے تو حضرت عمار بن یاسر نے جب یہ سنا تو فرمایا: ایسا نہ کہو، کیونکہ ہمارے اور ان کے نبی ایک ہیں اور قبلہ بھی ایک ہی ہے البتہ وہ ایسے لوگ ہیں جو آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ (مصنف ابن أبی شیبۃ، المجلد الحادی و العشرین، کتاب الجمل، باب ما ذکر فی صفین ص 408)
پوائنٹ 6: کیا اہلبیت کی رشتے داریاں قریش کی شاخ بنو امیہ سے ہوئی یا نہیں؟ دوسرا سیدنا علی، حسن و حسین نے اپنی کسی اولاد کا نکاح کسی 14 اور 12 والے شیعہ سے کیا ہو تو بتا دیں؟
نبی كریم ﷺ كی دوسری بیٹی سیده رقیہ كا دوسرا عقد سیدنا عثمان بن عفان اموی كے ساتھ ہوا( زبیری ص 22) سیده رقیہ كے انتقال كے بعد رسول اللہ ﷺ كی ایك اور بیٹی سیده ام كلثوم بھی سیدنا عثمان بن عفان كے حبالہ نكاح میں آئیں۔ (ابن سعد ص 38) خود رسول اللہ ﷺ كی ایك شادی ابو سفیان بن حرب اموی كی صاحبزادی سیده ام حبیبہ سے ہوئی۔ (طبری دوم 153۔154)
سیدنا عقیل بن ابی طالب كا ایك عقد ان كی پهلی بیوی فاطمہ بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ كی ہم نام پھوپھی فاطمہ بنت عتبہ سے ہوا تھا۔ ( ابن سعد 4 ص 23)
سیدنا علی نے ابو العاص بن ربیع اموی كی ایك صاحبزادی امامہ (جو سیده زینت بنت رسول اللہ ﷺ كے بطن سے تھیں) سے شادی كرلی تھی۔ (زبیری ص 22) سیدنا حسین رضی اللہ عنہ كی ایك شادی سیدنا ابو سفیان اموی كی بیٹی میمونہ كی صاحبزادی آمنہ یا لیلیٰ بنت ابی مرة ثقفی سے ہوئی تھی۔ (زبیر ی 157اور 126)
سیدنا علی كی ایك صاحبزادی رملہ بنت علی كی دوسری شادی معاویہ بن مروان بن حكم بن عاص اموی سے ہوئی۔ (زبیری ص 45) سیدنا علی كی دوسری صاحبزادی خدیجہ كی دوسری شادی بنو امیہ كے خاندان بنو حبیب بن عبد شمس كے ایك اہم فرد ابو السنابل عبد الرحمان بن عبد اللہ سے ہوئی تھی۔ (ابن حزم ، جمہرة انساب العرب مرتبہ لیفی بروفنال قاهره 1948ء ص 68)
سیدنا حسن بن علی كی پوتی ام القاسم بنت حسن بن علی كا نكاح سیدنا عثمان كے پوتے مروان بن ابان سے ہوا تھا۔ (زبیری ص 53) سیدنا حسن كی ایك اور پوتی زینب بنت حسن بن حسن كا نكاح مشہور اموی خلیفہ ولید بن عبد الملك سے ہوا تھا۔( ابن سعد 5 ص 319) سیدنا حسن كے ایك پوتے ابراہیم بن عبد اللہ بن حسن كا عقد سیدنا عثمان كی سگی پوتی رقیہ صغریٰ بنت محمد دیباج الاصغر بن عبد اللہ بن عمر بن عثمان بن عفان سے ہوا تھا۔ (بلاذری 5 ص 111)
حضرت معاویہ کی حقیقی بھانجی آمنہ بنت میمونہ سیدنا حسین کی زوجہ اولیٰ تھیں، اسلئے سیدنا حسین حضرت معاویہ کے داماد تھے۔ (طبری، جلد: 13 ص: 19) جیسے حضرت معاویہ کی ہمشیرہ ام حبیبہ نبی اکرم ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں اور حضور اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات "مومنوں کی مائیں”، اس لحاظ سے سیدنا معاویہ تمام مومنوں کے ماموں ہوئے۔
پوائنٹ 7: اہلسنت دو نمبر علماء جو صحیح احادیث کی بات کرتے ہیں تو کیا بتا سکتے ہیں کہ صحیح بخاری میں امام بخاری نے احادیث کو اکٹھا کرنے کی شرائط میں راوی کو کیسا ہونا چاہئے اور کیا حضرت معاویہ سے جو احادیث مروی ہیں، اُس کو کس حیثیت سے مانیں گے؟ کیونکہ:
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ 163 احادیث کے راوی ہیں جن میں 4 متفق علیہ ہیں، 4 صحیح بخاری اور 5 صحیح مسلم میں ہیں۔ کتبِ ستہ میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایات کی تعداد ساٹھ (60) ہے۔
نوٹ: امام بخاری مسلم عادل كامل کو راوی لیتے تھے، اسلئے جو دو نمبر اہلسنت صحیح بخاری سے حضرت معاویہ کو باغی ثابت کرتے ہیں تو پھر امام بخاری کی شرائط پر ان کے راوی کو کیسے حق مانتے ہیں۔
امام بقی بن مخلد رحمہ اللہ اپنی “المسند” حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک سو تریسٹھ (163) احادیث لائے ہیں۔ علامہ ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:مُسْنَدُهُ فِي “مُسْنَدِ بَقِيٍّ” مائَةٌ وَثَلاَثَةٌ وَسِتُّوْنَ حَدِيْثاً.(سير أعلام النبلاء 162/3)
امام اہل السنہ احمد بن حنبل نے اپنی “المسند” میں “مسند معاوية بن أبي سفيان” میں ایک سو بارہ (112) روایات درج کی ہیں۔
الإمام الحافظ ، شيخ الإسلام أبو يعلى ، أحمد بن علي بن المثنى الموصلي رحمہ اللہ نے اپنی “المسند” میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی سینتیس (37) روایات درج کی ہیں۔
علامہ أبو علي حسن بن علي الأهوازي (446ه) نے ان کی سیرت اور بیان کردہ روایات پر دس اجزاء سے زائد پر مشتمل ایک کتاب لکھی۔(سير أعلام النبلاء 18/13)
حضرات سیدنا عبداللہ بن عباس، وجرير بْن عَبد اللَّهِ البجليی، ابو سَعِيد الخُدْرِيّ، أَبُو عَبد اللَّهِ الصنابحي، أبو ذر الغفاري، عبداللہ بن زبیر، ابو الدرداء، عبداللہ بن عمر، نعمان بن بشیر، محمد بن مسلمہ، ابو الطفیل، سائب بن یزید، عبداللہ بن عمرو بن العاص، وائل بن حجر، معاویہ بن خدیج، سبرة بن معبد، عبدالرحمن بن شبل اسید بن ظھیر، ابو عامر الاشعری، يزيد بن جارية رضي الله عنهم أجمعين نے حضرت معاویہ سے روایات لی ہیں۔
پوائنٹ 8: سوال فدک، جمل و صفین یا یزید وغیرہ پر نہیں ہیں بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ 14 اور 12 امام کا عقیدہ نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام، تابعین کے دور میں کس کا تھا؟ 14 اور 12 والوں کی قرآن کی تفسیر، احادیث کی کتب اور احادیث کی شرح کے اصول کیا ہیں؟
پلان: شیعان محمد ﷺ یعنی بدر، احد، خیبر، بیعت رضوان، فتح مکہ، حنین، تبوک اور حجتہ الوداع کے ساتھ ساتھ غدیر خم پر موجود صحابہ کرام کی "مخالفت” میں دو نمبر شیعان علی کا بنو ثقیفہ، فدک، جمل و صفین، حضرت معاویہ پر گنجھل ڈالنے والوں کا دین "ختم نبوت” کے ساتھ ساتھ 14 و 12 کے فارمولے سے "مائنس نبی” فارمولہ پر کام کر کے ایک نیا دین بنانا ہے۔
قرآن و احادیث میں واضح طور پر 14 و 12 کا عقیدہ تھا تو سیدہ فاطمہ، حضرت علی، حسن و حسین نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا اور کسی بھی صحابی نے ان کو مانا کیوں نہیں؟
دوسرا دو نمبر اہلسنت علماء جو چچا ابو طا ل ب کو مانتے ہیں، حضرت معاویہ کو برا بھلا کہتے ہیں، دراصل وہ 14 اور 12 کو پروموٹ کر رہے ہیں اور شیطان کی طرح مسلمانوں میں صحیح احادیث کے نام پر شک پیدا کر رہے ہیں۔