احادیث اور مفسرين کی رائے

احادیث اور مفسرين کی رائے

 

کچھ لوگ کہیں گے کہ صحیح احادیث نہیں ہیں تو ان سے پوچھا جائے تو جواب نہیں دیتے کہ نبی اکرم نے فرمایا تھا کہ جب محدثین احادیث کی اصطلاحات لکھیں گے تو اس کے بعد تم نے صرف صحیح احادیث پر عمل کرنا؟
اہلسنت ان احادیث پر عمل کرتے ہیں
اللہ تعالی شعبان کی پندرہویں رات رحمت کی نظر فرما کر تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتے ہیں، سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کے۔
(سنن ابن ماجہ: 1390، صحيح الجامع: 1819، صحيح الترغيب: 2767)
ابن ماجہ 1388 : حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ ” جب نصف(15)شعبان کی رات ہو تو اس رات کو نماز پڑھو اور اس کے دن میں (یعنی پندرہویں کو) روزہ رکھو، کیونکہ اللہ جل شانہ ، اس رات کو آفتاب چھپنے کے وقت آسمان دنیا (یعنی نیچے کے آسمان) پر نزول فرماتا ہے (یعنی اپنی رحمت عام کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے) اور (دنیا والوں سے) فرماتا ہےکہ ” آگاہ ! ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ میں اسے بخشوں؟ آگاہ! ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اسے رزق دوں؟ آگاہ! ہے کوئی گرفتار مصیبت کہ میں اسے عافیت بخشوں؟ آگاہ! ہے کوئی ایسا اور ایسا (یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر ضرورت اور ہر تکلیف کا نام لے کر اپنے بندوں کو پکارتا رہتا ہے)یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔”
راوی حضرت ابو بکر صدیق، آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل پندرہویں شعبان کی رات میں آسمان ِ دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق) نزول ِاجلال فرماتے ہیں اور اس رات ہر کسی کی مغفرت کر دی جاتی ہے، سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے، یا ایسے شخص کے جس کے دل میں بغض ہو۔ (تخريج كتاب السنة (لابن أبي عاصم): 509، سلسلة الأحاديث الصحيحة: ‌‌1144، أخبار مكة – الفاكهي: 1838، الرد على الجهمية للدارمي: 136، مسند البزار: 80، طبقات المحدثين بأصبهان: 2/ 149، النزول للدارقطني: 76، الإبانة الكبرى – ابن بطة:173، شرح أصول اعتقاد:750)
راوی حضرت معاذ بن جبل، نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل پندرہویں شعبان کی رات میں آسمان ِ دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق) جھانکتے/متوجہ ہوتے فرماتے ہیں اور اس رات ہر کسی کی مغفرت کر دی جاتی ہے، سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے، یا ایسے شخص کے جس کے دل میں بغض ہو۔(صحيح ابن حبان: 791، صحيح الترغيب: 1026+2767)
راوی حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: شعبان کی پندرہویں رات اللہ عزوجل اپنی مخلوق کی طرف رحمت کی نظر فرماتے ہیں، سوائے دو شخصوں کے باقی سب کی مغفرت فرما دیتے ہیں، ایک کینہ ور، دوسرے کسی کو ناحق قتل کرنے والا ( مسند أحمد:6642]
راوی حضرت ابو ثعلبہؓ ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں پس تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں اور کافروں کو ڈھیل دیتے ہیں اور بغض رکھنے والوں کو ان کے بغض کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس کو ترک کر دیں۔( صحيح الترغيب: 2771، صحيح الجامع: 1898)
مفسرين کے نزدیک: بعض مفسرین سورہ الدخان کی آیت 3-4 میں ذکر کردہ "لیلۃ مبارکہ” سے شب برات مراد لیتے ہیں، لیکن جمہور علماء کے نزدیک یہ "لیلۃ القدر” (رمضان کی رات) سے متعلق ہے۔ حضرت عکرمہؓ حضرت ابن عباسؓ سے اور مفسرین کی ایک جماعت کے نزدیک ان آیات سے مراد شب برأت ہے جیسے
وقال ‌عكرمة. وجماعة: هي ليلة النصف من شعبان (تفسير الألوسي = روح المعانی: 13/ 110)
وقال الآخرون: هي ليلة ‌النصف ‌من ‌شعبان (تفسير ابن أبي حاتم: 18531، تفسير الطبري: 22/ 10، تفسير البغوي:7/ 228)
وَقَالَ ‌عِكْرِمَةُ وَطَائِفَةٌ آخَرُونَ: إِنَّهَا لَيْلَةُ الْبَرَاءَةِ، وَهِيَ لَيْلَةُ ‌النِّصْفِ ‌مِنْ ‌شَعْبَانَ (تفسير الرازي: 27/ 652)
عَنْ ‌عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي قَوْلِهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: ” {فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ} [سورۃ الدخان: 4] ، قَالَ: فِي لَيْلَةِ ‌النِّصْفِ ‌مِنْ ‌شَعْبَانَ يُدَبِّرُ اللَّهُ أَمْرَ السَّنَةِ ، وَيَنْسَخُ الْأَحْيَاءَ مِنَ الْأَمْوَاتِ، وَيَكْتُبُ حَاجَّ بَيْتِ اللَّهِ ، فَلَا يَزِيدُ فِيهِمْ أَحَدٌ ، وَلَا يَنْقُصُ مِنْهُمْ أَحَدٌ۔ (ترتيب الأمالي الخميسية للشجري: 1878، تفسير الماوردي: 6/ 313)�
اسماء: ماہ شعبان میں پندرہ کی رات کو خاص فضیلت بزرگی و شرافت حاصل ہے، اور مختلف روایات میں اس رات کے کئی نام ذکر کئے جاتے ہیں:
(۱) لیلۃ المبارکۃ۔۔۔ برکتوں والی رات
(۲) لیلۃ الرحمۃ۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کے نزول کی رات
(۳) لیلۃ الصَّک۔۔۔ دستاویز والی رات
(۴) لیلۃ البراءۃ۔۔۔گناہوں/دوزخ سے بری ہونے کی رات (الكشاف للزمخشري:4/269، تفسیر الرازي:27/653، تفسیر قرطبی:16/1286، السراج المنير في الإعانة:3/579، روح المعانی: 13/110، روح البيان:8/402، فتح القدير للشوكاني:4/653]
اعمال کا فیصلہ: اس رات میں سال بھر کے رزق، عمر، اور دیگر امور کا فیصلہ ہوتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم ﷺ سے روایت فرماتی ہیں کہ” آپ ﷺ نے فرمایا کہ ۔۔۔ کیا تمہیں معلوم ہے اس رات یعنی شعبان کی پندرہویں رات میں کیا ہوتا ہے؟ انھوں نے دریافت فرمایا کہ: یا رسول اللہ! کیا ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس شب میں یہ ہوتا ہے کہ اس سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہیں، وہ سب لکھ دئیے جاتے ہیں ،اور جتنے اس سال مرنے والے ہیں وہ سب بھی اس رات لکھ دیے جاتے ہیں ،اور اس رات میں سب بندوں کے (سارے سال کے)اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی مقررہ روزی (مقررہ وقت)پر اترتی ہے“۔ (فضائل الاوقات للبیہقی : 27)
حضرت عثمان بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (زمین پر بسنے والوں کی) عمریں ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک طے کی جاتی ہیں ،یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کا نام مردوں کی فہرست میں داخل ہو چکا ہوتا ہے“ ( شعب الإيمان-البيهقي:3839)
حضرت عطاء بن یسارؒ فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو موت کا فرشتہ ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک مرنے والوں کا نام (اپنی فہرست سے) مٹا دیتا ہے اور کوئی شخص ظلم، تجارت اور کوئی عورتوں سے نکاح کر رہا ہوتا ہے اس حال میں کہ اس کا نام زندوں سے مردوں کی طرف منتقل ہو چکا ہوتا ہے۔ (مصنف عبد الرزاق: 7925)
حضرت راشد بن سعدسے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ تعالیٰ ان تمام روحوں کو قبض کرنے کی تفصیل ملک الموت کو بتا دیتے ہیں جو اس سال میں قبض کی جائیں گی۔ (وأخرج الدينوري في المجالسة؛ تفسير روح المعاني: 12/113؛ الدر المنثور، للسيوطي: 7/401؛ الحبائك في أخبار الملائك، للسيوطي: 1/45؛ شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور، للسيوطي: 60؛ الجامع الصغير وزيادته: 8450 ؛ فيض القدير شرح الجامع الصغير: 8450؛ التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِيرِ: 5946؛ الفتح الكبير: 8258؛ كنز العمال: 35176]
قبرستان کی زیارت:‪ ‬حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت میں نے نبی ﷺ کو اپنے بستر پر نہ پایا، میں نکلی تو نبی ﷺ بقیع(کے قبرستان) میں آسمان کی طرف سر اٹھائے دعا فرما رہے تھے، مجھے دیکھ کر فرمایا: کیا تمہیں اس بات کا اندیشہ ہو گیا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں سمجھی تھی کہ شاید آپ اپنی کسی زوجہ کے پاس گئے ہوں گے، نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ (کی رحمت) شعبان کی پندرہویں رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا (یعنی متوجہ ہوتا) ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کو معاف فرماتا ہے۔ (ابن ماجہ 1389)
شبِ برأت کی دعائیں:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ شعبان کی پندرھویں رات رسول اللہ ﷺ میرے پاس موجود تھے، جب آدھی رات ہوئی میں نے آپ کی عورتوں کے حجروں میں آپ کو تلاش کیا، میں نے آپ کو نہ پایا تو اپنے حجرے کی طرف آگئی تو میں آپ کے اوپر اس طرح آپڑی جیسے گرا ہوا پڑا ہو۔ میں نے دیکھا کہ آپ سجدے میں تھے، اور آپ اپنے سجدوں میں یہ فرما رہے تھے:
سَجَدَ لِلَّهِ سِوَادِي وَخَيَالِي وَآمَنَ بِكَ فُؤَادِي، هَذِهِ يَدِي وَمَا جَنَيْتُهُ بِهَا عَلَى نَفْسِي يَا عَظِيمَ رَجَاءٍ لِكُلِّ عَظِيمٍ، اغْفِرِ الذَّنْبَ الْعَظِيمَ، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ
ترجمہ: سجدہ کیا تیرے لئے میرے خیال نے، اور میرے وجود نے، اور امن پایا(ایمان لایا) آپ کی مدد سے میرے دل نے، پس یہ میرا ہاتھ ہے اور جو میں نے اس کے ذریعہ گناہ(ظلم) کیا اپنی جان پر، اے عظمت والی ذات! جس سے امید کی جاتی ہے ہر عظیم کام کے لئے، میرے عظیم گناہ کو بخش دے، میرے چہرے نے سجدہ کیا اس ذات کے لئے جس نے اس کو پیدا کردیا اور بنا چھوئے اس کے کان اور اس کی آنکھ کو کھولا۔
پھر آپ نے اپنا سرمبارک اٹھایا پھر دوبارہ سجدہ کیا اور یہ دعا فرمائی : أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِعَفْوِكَ مِنْ عِقَابِكَ، وَبِكَ مِنْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ ترجمہ: میں پناہ مانگتا ہوں آپ کی رضا کے ساتھ آپ کے غصہ سے اور میں پناہ مانگتا ہوں آپ کے درگزر کے ساتھ آپ کی سزا سے اور میں پناہ مانگتا ہوں آپ کی بلند مرتبہ ذات کے طفیل سے (میں آپ کی تعریف نہیں کرسکتا) جیسے آپ نے اپنی تعریف فرمائی۔
میں اس طرح کہتا ہوں جیسے میرے بھائی داؤد (علیہ السلام) نے کہا میں اپنے چہرے کو مٹی میں لت پت کرتا ہوں اپنے آقا کے لئے اور وہ اسی بات کا حقدار ہے کہ اسی کو سجدہ کیا جائے پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا :
اللَّهُمَّ ارزقني قلباً تقياً من الشَّرّ نقياً لَا جَافيا وَلَا شقياً ترجمہ:اے اللہ! مجھے ڈرنے والا اور شر سے پاک دل عطا فرما جو سخت نہ ہو اور بد بخت نہ ہو۔ (شعب الایمان للبیہقی 3557)
اعمال کی پیشی: حضرت اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی کریم ﷺ اتنے تسلسل کے ساتھ روزے رکھتے کہ لوگ کہتے اب نبی کریم ﷺ ناغہ نہیں کریں گے اور بعض اوقات اتنے تسلسل کے ساتھ ناغہ فرماتے کہ یوں محسوس ہوتا کہ اب روزہ رکھیں گے ہی نہیں، البتہ ہفتہ میں دو دن ایسے تھے کہ اگر نبی کریم ﷺ ان میں روزے سے ہوتے تو بہت اچھا، ورنہ ان کا روزہ رکھ لیتے تھے اور کسی مہینے میں نفلی روزے اتنی کثرت سے نہیں رکھتے تھے جتنی کثرت سے ماہ شعبان میں رکھتے تھے یہ دیکھ کر ایک دن میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ﷺ آپ بعض اوقات اتنے روزے رکھتے ہیں کہ افطار کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے اور بعض اوقات اتنے ناغے کرتے ہیں کہ روزے رکھتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے ، البتہ دو دن ایسے ہیں کہ اگر آپ کے روزوں میں آجائیں تو بہتر ورنہ آپ ان کا روزہ ضرور رکھتے ہیں نبی کریم ﷺ نے پوچھا کون سے دو دن ؟ میں نے عرض کی پیر اور جمعرات ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا ان دو دنوں میں رب العالمین کے سامنے تمام اعمال پیش کئے جاتے ہیں ، میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو میں روزے سے ہوں ۔ پھر میں نے عرض کیا کہ جتنی کثرت سے میں آپ کو ماہ شعبان کے نفلی روزے رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں ، کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا رجب اور رمضان کے درمیان اس مہینے کی اہمیت سے لوگ غافل ہوتے ہیں حالانکہ اس مہینے میں رب العالمین کے سامنے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو میں روزے سے ہوں۔ (مسند احمد بن حنبل 21207)
شبِ برأت کی مغفرت سے محروم لوگ:
حضرت ابو ثعلبہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں پس تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں اور کافروں کو ڈھیل دیتے ہیں اور بغض رکھنے والوں کو ان کے بغض کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس کو ترک کر دیں۔ (شعب الإيمان للبيهقي: 3832)
حضرت ابو موسی اشعریؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ ”آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی شعبان کی پندرہویں رات رحمت کی نظر فرما کر تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتے ہیں، سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کے“۔ (ابن ماجہ 1390)
احادیث شریفہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عام مغفرت کی اس مبارک رات میں چودہ (۱۴) قسم کے آدمیوں کی مغفرت نہیں ہوتی؛ لہٰذا ان لوگوں کو اپنے احوال کی اصلاح کرنی چاہیے:
(۱) مشرک، کسی بھی قسم کے شرک میں مبتلا ہو
(۲) بغیر کسی شرعی وجہ کے کسی سے کینہ اور دشمنی رکھنے والا
(۳) اہل حق کی جماعت سے الگ رہنے والا
(۴) زانی وزانیہ
(۵) رشتے داری توڑنے والا
(۶) ٹخنوں سے نیچے اپنا کپڑا لٹکانے والا
(۷) ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا
(۸) شراب یا کسی دوسری چیز کے ذریعے نشہ کرنے والا
(۹) اپنا یا کسی دوسرے کا قاتل
(۱۰) جبراً ٹیکس وصول کرنے والا
(۱۱) جادوگر
(۱۲) ہاتھوں کے نشانات وغیرہ دیکھ کر غیب کی خبریں بتانے والا
(۱۳) ستاروں کو دیکھ کر یا فال کے ذریعے خبر دینے والا
(۱۴) طبلہ اور باجا بجانے والا۔
(شعب الایمان 3/382، 383، الترغیب والترہیب 2/73)
حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل پندرہویں شعبان کی رات میں آسمان ِ دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق) جھانکتے/متوجہ ہوتے فرماتے ہیں اور اس رات ہر کسی کی مغفرت کر دی جاتی ہے،سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے، یا کینہ پرور یعنی ایسا شخص کے جس کے دل میں بغض ہو۔ ‪)‬صحيح ابن حبان:5665، المعجم الكبير للطبراني:215، شعب الإيمان-البيهقي:3833‪,‬)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نصف شعبان کی رات اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک یا جھگڑالو کے۔ ([مسند البزار:9268)
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ شعبان کی پندرہویں رات اللہ عزوجل اپنی مخلوق کی طرف رحمت کی نظر فرماتے ہیں ، سوائے دو شخصوں کے باقی سب کی مغفرت فرما دیتے ہیں، ایک کینہ ور، دوسرے کسی کو ناحق قتل کرنے والا“۔ (مسند احمد 6642)
آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو(اللہ تعالی کی طرف سے )ایک پکارنے والا پکارتا ہے ، ہے کوئی مغفرت کا طالب ؟! کہ میں اس کی مغفرت کر دوں، ہے کوئی مانگنے والا؟! کہ میں اس کو عطا کروں، اس وقت جو (سچے دل کے ساتھ)مانگتا ہے اس کو (اس کی شا ن کے مطابق )ملتا ہے،سوائے بدکار عورت اور مشرک کے(کہ یہ اپنی بد اعمالیوں کے سبب اللہ کی عطا سے محروم رہتے ہیں)۔( شعب الإيمان -البيهقي:3836)
پانچ راتوں کو عبادت سے زندہ کرنے پر جنت: حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو پانچ راتوں کو زندہ کرے گا، جنت اس کیلئے واجب ہوجائے گی: لیلة الترویحہ(یعنی آٹھ ذی الحجہ کی رات) ، اور لیلة العرفہ (یعنی نو ذی الحجہ کی رات)، اور لیلة النحر (یعنی دس ذی الحجہ عیدِ قربانی کی رات)، اور عید الفطر کی رات اور آدھے شعبان کی رات (شبِ برات)۔ (الترغیب والترھیب،للمنذری:1656، الترغیب والترھیب،للاصبھانی:374)
پانچ راتوں میں دعا رد نہیں ہوتی: حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: پانچ راتوں میں دعا رد نہیں ہوتی (ضرور قبول ہوتی ہے): جمعہ کی رات، دو عید کی راتیں، رجب کی پہلی رات، اور نصف(15) شعبان کی رات۔ (الفردوس بمأثور الخطاب-الديلمي2975)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: پانچ راتوں میں دعا رد نہیں ہوتی (ضرور قبول ہوتی ہے) جمعہ کی رات، ماہِ رجب کی پہلی رات، نصف(15) شعبان کی رات، عیدین کی راتیں۔ (المصنف – عبد الرزاق:7927)
تقدیری فیصلوں کی رات: حضرت راشد بن سعد سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ تعالیٰ ان تمام روحوں کو قبض کرنے کی تفصیل ملک الموت کو بتا دیتے ہیں جو اس سال میں قبض کی جائیں گی۔ ( كنز العمال: 35176)
حضرت عطاء بن یسارؒ فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو موت کا فرشتہ ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک مرنے والوں کا نام (اپنی فہرست سے) مٹا دیتا ہے اور کوئی شخص ظلم، تجارت اور کوئی عورتوں سے نکاح کر رہا ہوتا ہے اس حال میں کہ اس کا نام زندوں سے مردوں کی طرف منتقل ہو چکا ہوتا ہے۔ (مصنف عبد الرزاق:7925)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رات میں بڑے بڑے امور انجام پاتے ہیں یعنی اس سال جتنے پیدا ہونے والے ہیں ان کے نام لکھ دئیے جاتے ہیں، اور جنہوں نے مرنا ہے ان کے نام بھی لکھ دئیے جاتے ہیں اور اس رات بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں یعنی بارگاہ خداوندی میں پیش کئے جاتے ہیں اور مخلوق کو اس سال جو رزق ملنا ہوتا ہے وہ بھی اسی شب میں لکھ دیا جاتا ہے۔۔۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general