بے نمازی

بے نمازی

 

ایک عالم صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو انہوں نے بڑے سخت لہجے میں فرمایا کہ اگر روٹیوں کا ڈھیر پڑا ہو، اُس کے اوپر کوئی کُتا منہ مار دے تو اوپر والی روٹیاں پھینک دو اور نیچے والی کھا لو لیکن اگر کوئی بے نمازی روٹیوں کے اوپر ہاتھ رکھ دے تو ساری روٹیاں کتوں کے آگے پھینک دو۔
ایک آدمی نے کہا کہ اتنی سختی تو اسلام میں نہیں ہے تو عالم صاحب نے بے نمازی کے خلاف قرآن کی سورہ المدثر کی آیت 38 تا 49، التوبہ 5 اور 11، الروم 31، القیامہ 31 تا 35 اورصحیح مسلم 246، 247 ابوداود 4678 ترمذی 2618، 2621، 2622 ابن ماجه 1080 سُنا کر دل نماز کے لئے نرم کرنے کی کوشش کی۔ بے شک نماز کفرو ایمان کے درمیان فرق ہے۔
دوسرے آدمی نے کہا کہ ہم نماز کا انکار نہیں کرتے مگر نماز پڑھتے نہیں ہیں، اُس عالم نے کہا کہ انکار کرنے والا تو مسلمان نہیں رہتا، البتہ نہ پڑھنے والا بھی اُس کے برابر ہے کیونکہ قرآن و سنت کے مطابق چاروں ائمہ کرام کا مندرجہ ذیل کتابوں میں فتوی موجود ہے:
امام احمد ابن حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسا شخص کافر ہے۔ اس کی سزا یہ ہے کہ اگر توبہ کرکے نماز کی پابندی نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے۔ امام مالک اورامام شافعی رحمتہ اللہ علیھما کہتے ہیں کہ نمازوں کو چھوڑنے والا کافر تو نہیں، البتہ اس کو قتل کیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، البتہ حاکم وقت اس کو جیل میں ڈال دے گا یہاں تک کہ توبہ کرکے نماز شروع کردے یا پھر وہیں مرجائے۔ امام ابوحنیفہ: (حاشیہ ابن عابدین 352/1۔353، احکام القرآن للجصات 81/3۔83)، امام مالک: (مواہیب الجلیل 420/1۔421، الخرشی علی خلیل 227/1۔228)، امام شافعی: (المجموع للنووی 17/3۔19، روضۃ الطالبین 146/2)، امام احمد بن حنبل: (المغنی لابن قدامہ 444/2، المبدع لابن مفلح 305/1 ۔ 307)۔
تیسرے آدمی نے کہا کہ آپ بتا دو کہ یہ سزائیں کسی ایک دور میں کسی بھی حکومت نے دی ہوں، اگر نہیں دیں تو کیوں؟ عالم صاحب نے کہا کہ جس کو قرآن و سنت مطمئن نہیں کر سکتا اُس کو میرا جواب بھی مطمئن نہیں کر سکتا۔ چوتھے آدمی نے کہا کہ اگر اس دور میں یہ سزائیں دی جائیں تو پاکستان کی چوبیس کروڑ عوام سے میں سے شاید پانچ کروڑ عوام بچ پائے گی، اُن میں وہ بھی شامل ہوں گے جو کبھی کبھی نماز ادا کرتے ہیں۔
ایک آدمی نے زارو قطار رونا شروع کر دیا اور کہنے لگا مجھے سمجھ آ گئی ہے، قرآن بھی حق اور حضور ﷺ کا فرمان بھی حق ہے مگر مجھے پھر بھی نماز چھوڑنے سے ڈر نہیں لگتا۔ مجھے بتاؤ میں کس مقام پر ہوں۔ عالم نے کہا کہ علماء تو صرف بیان کر سکتے ہیں ورنہ رستہ دکھانا تو اللہ کریم کاکام ہے، اُس کی توفیق کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔
ایک مجذوب نے نعرہ لگایا اور کہا کہ کوئی ہے اللہ کا بندہ جو کسی دُعا سے، کسی تعویذ سے، کسی عمل سے مجھے نمازی بنا دے، میں اللہ کریم کی حاضری میں رہنا چاہتا ہوں، کوئی مجھے سے میری غفلت چُھڑا کر معرفت کے مقام پر پہنچا کر اپنا غلام بنا لے مگر ہامی کون بھرے۔
ایک سمجھدار نے کہا کہ بے نمازی سے نمازی ہونے کا فاصلہ طے کرنے میں بڑی آوازیں آتی ہیں کیونکہ شیطان کہتا ہے کہ اللہ کریم کو تمہاری نمازوں سے کیا لینا دینا، دیکھو لوگ نماز صرف اپنے کاروبار کے لئے ادا کرتے ہیں اور کچھ بیماری سے بچنے کے لئے کرتے ہیں، البتہ عالم نے سمجھایا کہ عبادت بھی ریاکاری سے شروع ہو کر خلوص تک پہنچتی ہے اسلئے ان آوازوں پر غور نہ کرو۔ اللہ واسطے تو وہ ادا کرتا ہے جس کا دل نور معرفت سے منور ہو گیا ہو اور حق کو پہچان گیا ہو اور یہ منزل ایک دن میں نہیں ملتی۔
ایک نے کہابے نمازی تھا تو صدا یہ تھی یا اللہ مجھے نماز کا روگ لگا دے، جب روگ لگ گیا تو صدا دی کہ نماز پڑھنے کا طریقہ بھی سکھا دے، پھر صدا بدل کر نماز میں خشوع حضوع مانگنے لگی اور اب کہتی ہے کہ یا اللہ میری نماز کو نبی کی نماز سے کچھ فیضان عطا فرما کر دل کی آنکھ کھول دے۔
کمال: کسی بے نمازی کا نمازی ہونا کمال ہے اور کسی نمازی کا بے نمازی ہونا زوال ہے ، اسلئے کمال نماز پڑھنے میں ہے اور ہر بے نمازی کو با کمال ہونے کی دعوت ہے۔
البتہ ہر ایک کے ساتھ نماز ہو یا دین پر چلنے کا فیصلہ، ایسا ہی ہوتا ہے، جب کوئی نماز نہیں پڑھتا تو سب کہتے ہیں پڑھا کرو، جب داڑھی رکھتا اور نماز پڑھنا شروع کرتا ہے تو کہتے ہیں کہ کس فرقے سے ہو، کس پیر کے مرید ہو، کس مسجد میں نماز ادا کرتے ہو اور پھر بے نمازی بھی اُس کے لئے وبال جان بن جاتے ہیں۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general