
ماہ شعبان
رسول اللہ ﷺ کا ہمسفر بننے کے لئے لازم ہے کہ آپ کی احادیث پر عمل کیا جائے مگر سب سے پہلے فرض، واجب، سنت اور پھر نفلی عبادت کی جائے۔ فرض نمازیں چھوڑنے والوں کو اگر آسانی دی جائے کہ تم 27 رجب، 15 شعبان، 27 رمضان کو عبادت کر لو تو بخشے جاو گے تو یہ ایک دھوکہ ہے۔
عبادت: آپ ﷺ شعبان کے مہینے میں تقریباً سارا مہینہ روزہ رکھتے مگر ان احادیث میں روزہ رکھنے کا کوئی ثواب بیان نہیں کیا گیا۔ اسلئے میڈیا پر اس کے متعلق سحری و افطاری نہیں دکھائی جاتی کیونکہ معلوم ہے عوام نے یہ نفلی روزے رکھنے ہی نہیں مگر اعلی و افضل وہ لوگ ہوں گے جو ماہ شعبان میں 5 یا 10 روزے رکھ جائیں۔
افضل: عوام اگر صرف اپنی فرض نمازو روزے پوری کرنے کے ساتھ ساتھ گناہوں کی رفتار کم کر کے نیکیوں کی رفتار بڑھا دے تو سب سے افضل کام ہے۔ اگر اس ماہ شعبان میں کوئی نفلی عبادت نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں مگر احادیث پر عمل کرنا ہے تو افضل ہے کہ روزے رکھیں سوائے شعبان کی 29 یا 30 کے جن کو شک کا روزہ کہتے ہیں۔
ماہِ شعبان عظمت والا مہینہ ہے اور "جب رمضان کا مہینہ آنا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے: اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اورہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا۔” (مشکوۃ المصابیح 1396)
شعبان کے چاند ( تاریخوں) کو خوب اچھی طرح محفوظ رکھو تاکہ رمضان کا حساب ہو سکے۔ (ترمذی 687)
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ جب روزے رکھنا شروع فرماتےتو ہم کہتے کہ آپ ﷺ اب روزہ رکھنا ختم نہ کریں گے اور جب کبھی آپ ﷺ روزہ نہ رکھنے پہ آتے تو ہم یہ کہتے کہ آپ ﷺ اب روزہ کبھی نہ رکھیں گے۔ میں نے حضور ﷺ کورمضان شریف کے علاوہ کسی اور مہینہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا اور میں نے حضور ﷺ کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔(صحیح بخاری 1969، صحیح مسلم 1156)
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو کسی مہینہ میں شعبان کے مہینہ سے زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ کچھ دنوں کے علاوہ پورے شعبان کے روزے رکھتے، بلکہ آپ ﷺ تو پورے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے۔ (ترمذی 736، نسائی 2180)
ماہِ رمضان اﷲ تعالیٰ کا مہینہ ہے، اور ماہِ شعبان میرا مہینہ ہے، شعبان (گناہوں سے) پاک کرنے والا ہے اور رمضان (گناہوں کو) ختم کر دینے والا مہینہ ہے۔‘‘(کنزالعمال: 23685)
رسول ﷲ ﷺ کو تمام مہینوں میں سے شعبان کے روزے رکھنا زیادہ محبوب تھا۔ آپ ﷺ شعبان (کے روزوں) کو رمضان المبارک کے ساتھ ملا دیا کرتے تھے۔‘‘(مسند احمد 25589)