
شرائط زکوۃ
1۔ نیت کے بغیر زکوۃ قبول نہیں
کسی غریب کی مدد پیسوں سے کی اور بعد میں سوچا کہ ’’زکوۃ‘‘ ابھی ادا کرنی تھی اس لئے جو پیسے غریب کو دئے ہیں وہ رقم ’’زکوۃ‘‘میں ادا ہو گئی لیکن جیسے نماز سے پہلے نماز کی ’’نیت‘‘ کرنا ضروری ہے، اس طرح زکوۃ دینے سے پہلے زکوۃ کی نیت کرنا ضروری ہے، اس لئے زکوۃ ادا نہیں ہوئی۔
شرمندگی: البتہ زکوۃ دیتے وقت زبان سے یہ کہا جا سکتا ہے یہ تیرے بچوں کی عید ی ہے، یہ مال تیرا انعام ہے وغیرہ۔ یہ جھوٹ بھی نہیں ہو گا اور زکوۃ بھی ادا ہو جائے گی کیونکہ بعض ’’خوددار‘‘ شرمندگی سے ’’زکوۃ‘‘ نہیں لیتے۔
البتہ اگر ایسا کچھ کہہ کر کسی کو زکوۃ دی لیکن اس نے قرضہ سمجھا اور بعد میں واپس کر دیا تو اس کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں نے تو ’’زکوۃ‘‘ دی تھی بلکہ کسی اور حقدار کو دے دیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ’’ زکوۃ‘‘ بتا کر دینی چاہئے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
2۔ تملیک یعنی مال دے کرمالک بنانا
زکوۃ کا مال غریب کو دے کر ’’مالک‘‘ بنانا ضروری ہے ورنہ ’’زکوۃ‘‘ ادا نہیں ہو گی جیسے کسی کرایہ دار نے مالی مجبوری کی وجہ سے کرایہ نہیں دیا یا کسی مقروض نے قرضہ ادا نہیں کیا تو ’’زکوۃ‘‘ میں معاف نہیں کیا جا سکتا جب تک اس بندے کو ’’زکوۃ‘‘ کے پیسوں کا ’’مالک‘‘ نہیں بنایا جائے گا۔ اگرکرایہ دار یا مقروض ’’زکوۃ‘‘ لینے کا حقدار ہے تو اس کو زکوۃ کا مال دے کر ’’مالک‘‘ بنائیں اور پھر کہیں کہ یہ مجھے کرائے یا قرضے میں ادا کردو۔
حیلہ: حیلہ کے اصل معنی ’’مہارت تدبیر‘‘ کے ہیں۔ فقہاء کی اصطلاح میں حیلہ حرام اور گناہ سے بچنے کے لئے ایسا راستہ نکالنا جس کی شریعت نے اجازت دی ہو۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنی بیوی کو 100 دُرّے مارنے کی قسم کھائی اور پھر حیلہ سکھایا گیا کہ قسم نہ توڑیں بلکہ جھاڑو کے 100 تنکے لے کر ایک دفعہ ماریں۔ یہودیوں کو ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنا منع تھا لیکن انہوں نے مچھلیاں پکڑنے کے لئے ناجائز حیلے اختیار کئے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جیسے یہودیوں نے کیا تم اس طرح نہ کرنا کہ اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں کو طرح طرح کے حیلے کر کے حلال سمجھنے لگو۔(در منثور)
زکوۃ دے کر مالک بنانے کے جائز حیلے
کسی بھی ہسپتال، مدرسہ وغیرہ کو زکوۃ کا مال نہیں لگتا جب تک حیلہ اختیار نہ کیا جائے جیسے:
1۔ ہسپتال کی بلڈنگ بنانی ہو یا انسانوں کی جان بچانے کے لئے ہسپتال میں کوئی دل، گردے، جگر، XRAY وغیرہ کی مشینری لینی ہو تو ’’زکوۃ‘‘ کے مال سے نہیں لی جا سکتی بلکہ ’’حیلہ‘‘ کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی ’’غریب‘‘ کو جو ’’زکوۃ‘‘ کا حقدار ہو، اس کو لاکھوں کروڑوں کی زکوۃ کا ’’مالک‘‘ بنا کر اس سے عرض کریں کہ ہسپتال کی بلڈنگ بنانے اور مشینری لینے کے لئے زکوۃ کا مال نہیں لگتا، اس لئے آپ کو مالک بنا کر’’ حیلہ‘‘ کر نے لگے ہیں اور آپ ان پیسوں کا ’’مالک‘‘ بن کر ہسپتال یا ہسپتال کی مشینری کے لئے مال (donate) کر دیں تاکہ آپ کو بھی ثواب ملے اور لاکھوں مریضوں کا بھی علاج ہو۔ اس حیلے سے ہسپتال اور اسکی مشینری لی جاسکتی ہے ورنہ نہیں۔
2۔ سید زادوں کو بھی زکوۃ نہیں لگتی، سید صاحب کو بھی زکوۃ دینے کے لئے حیلہ کرنا پڑے گا۔
3 ۔ زکوۃ کے پیسوں سے ’’کفن‘‘ دینا ہو توکفن کے لئے بھی ’’حیلہ‘‘ اختیارکرنا پڑے گا۔
4۔ علمی کتابیں جن کی معاشرے کو اشد ضرورت ہو، ان کو بھی پرنٹ کروانے کیلئے ’’حیلہ‘‘ کیا جا سکتا ہے تاکہ علم کی روشنی سے امید کی کرنیں ابھریں۔
غور: عوام کو سمجھنا چاہئے کہ حیلہ کرنے کیلئے ایسے غریب کو ’’مالک‘‘ بنانا ضروری ہے جو عقل رکھتا ہو اور دھوکہ نہ دے۔ غریب زکوۃ کا مال ملنے سے مالک بن جائے گا، اس لئے اگر وہ زکوۃ کا مال ہسپتال یا ہسپتال کی مشینیری لینے کے لئے نہیں لگاتا بلکہ اپنی ضرورتوں پر لگالے تواس کیلئے جائز ہے۔
کچھ دوستوں نے کہا کہ پاکستانی عوام اور علماء کے لئے ’’حیلہ‘‘ 2 نمبری کا دروازہ ہے، البتہ حیلہ مسلمان کی نیت اور مقصد پر ہے کہ اللہ کریم کو دھوکہ دیتا ہے یا اللہ کریم کو راضی کرتا ہے۔
حیلے کی 2نمبری اور ناجائز کام
ایک مولوی صاحب نے مدرسے کے غریب بچوں کا ’’حیلہ‘‘ کر کے ’’زکوۃ‘‘ کا مال لیا اور اپنے لئے کار لے لی۔اسی طرح ایک پیر صاحب نے مدرسے کی چھت کے ساتھ اپنے گھر کی چھت بھی ڈال لی۔
حکومت ہسپتالوں میں ’’زکوۃ‘‘ کے مال سے دوائی غریبوں کے لئے دیتی ہے مگر ’’دوائی‘‘ زیادہ ترCSP آفیسرز، جج صاحبان، ہسپتال کا عملہ اور امیر آدمی لیتے ہیں جو کہ ناجائزہے۔
ضرورت: اس دور میں ساری ویلفئیر سوسائٹیز، NGOs، ہسپتال، امیر ہو یا غریب سب ’’زکوۃ‘‘ مانگ رہے ہیں۔ امیر ہو یا غریب صرف اس حدیث پر عمل کر لیں کہ وہ بندہ مومن نہیں جس کا ہمسایہ بھوکا سو گیا۔ اس لئے ہر غریب اور امیر اپنی بساط یا طاقت کے مطابق انسایت کی ’’مدد‘‘ کرنا شروع کر دے تو کسی ویلفئیر سوسائٹی، NGO یا ویلفئیر ادارہ بنانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
مدرسوں پر زکوۃ
مدرسے کے غریب اورمسافربچوں کو زکوۃ لگتی ہے اور ان بچوں کا حیلہ کر کے ’’ انتظامیہ‘‘ امام یا خطیب کی تنخواہیں دیتی ہے جس کے جواز کا فتوی اپنی جگہ مسلّمہ ہے۔
مقیم بچے: مدرسے میں پڑھنے والے مقامی بچے جو اسی محلے یا شہر کے ہوں اور ان کے والدین خرچہ اُٹھا سکتے ہوں تو ایسے بچوں کو ’’زکوۃ‘‘ کے مال سے پکنے والی مدرسے کی روٹیاں کھانا منع ہیں۔
زکوۃ لگتی ہے اور زکوۃ نہیں لگتی
ہر عقلمند، جوان (بالغ) مسلمان کے ’’مال‘‘ پر زکوۃ فرض ہے لیکن بے وقوف اور بچے (نابالغ) کے مال پر نہیں۔ اس لئے کسی کے باپ کے مرنے کے بعد نابالغ (یتیم) اور بے وقوف کے مال سے ’’قریبی‘‘ رشتے دار ’’کاروبار‘‘ کریں اوربالغ یا عقلمند ہونے تک اس کا منافع اس کے اکاؤنٹ (account) میں جمع کراتے رہیں۔البتہ اس کام کے معاوضے میں اپنی تنخواہ اس نابالغ کے ’’مال‘‘ میں سے لے سکتے ہیں۔