
نصاب
نبی کریم ﷺ کے وقت میں (1) چاندی کے درہم اور سونے کے دینارہوتے تھے (2) لوگ تجارت یا کاروبار کرتے تھے (3) جانور (بکرا، بکری، گائے، بیل، اونٹ اونٹنی) جنگل میں مفت کھاتے پیتے تھے اوران کی نسل بڑھتی رہتی تھی۔ لہذا’’ زکوۃ‘‘ کے صرف تین (3) نصاب ہیں، اس لئے اور کسی ’’مال‘‘ پر زکوۃ نہیں لگتی سوائے ان تین نصاب کے جو اوپر بیان کئے گئے ہیں۔
1۔ سونے چاندی کا نصاب
اِس دور میں چاندی کے درہم اور سونے کے دینار نہیں ہوتے اور عوام پریشان (confused) ہے کہ شاید 52.50 تولہ چاندی اور7.50 تولہ سونے کا نصاب ’’عورت‘‘ کے زیور پر بنایا گیا تھا حالانکہ یہ نصاب نبی کریم ﷺ کے وقت میں 7.50 تولہ سونے کے دینار اور 52.50 تولہ چاندی کے درہم کی وجہ سے بنایا گیا تھا۔
2۔ آج کے دور میں پیسہ، روپیہ، نوٹ چلتا ہے، اسلئے جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر پیسے آ جائیں تو وہ چاندی کے’’ نصاب‘‘کا مالک بن جاتا ہے اور اس پر زکوۃ لگے گی۔ چاندی کا موجودہ ریٹ 3346 روپے تولہ ہے اسلئے جس دن کسی بھی مسلمان کے پاس (3346 x 52.50)= 1,75,665 روپے تنخواہ، مزدوری، کمیٹی ، انعام وغیرہ کی صورت میں جمع ہو جائیں ، وہ مسلمان اُس دن’’نصاب‘‘ کا مالک بن گیا مگر’’زکوۃ‘‘ ابھی فرض نہیں ہوئی۔
3۔ ایک سال تک کماکر اپنی ضرورتیں پوری کرے لیکن سال ختم ہونے پر اگر 1,75,665 روپے (چاندی کا نصاب) اوراس سے زیادہ جتناہو جیسے 2 تولہ سونا، پیسہ، بانڈز وغیرہ کا ٹوٹل کرکے 100 میں سے2.50، ایک لاکھ میں سے 2500 اور دس لاکھ میں سے 25000 روپے زکوۃ دے۔
ایک سال (year) کا گذرنا ضروری ہے
* شمسی سال جنوری سے دسمبر تک ہوتا ہے اور قمری سال محرم سے ذی الحج تک ہوتا ہے۔
* زکوۃ قمری سال سے شروع ہوتی ہے۔ اس لئے جب کسی بھی مسلمان کے پاس 1,75,665 روپے (چاندی کا نصاب) آ جائیں تو وہ دن اور مہینہ یاد کر لے جیسے 5 جمادی الاول ہے تو اگلے سال 4 جمادی الاول کو اپنی تمام رقم کا حساب کرے۔ ہر دن، مہینے میں جو کچھ آتا رہے اس کا حساب نہیں کرنا بلکہ پورا ایک سال گذرنے کے بعد حساب کرنا ضروری ہے کیونکہ ’’سال‘‘ گذر جانا شرط ہے۔
* زیادہ تر لوگ رمضان میں اسلئے ’’زکوۃ‘‘ دیتے ہیں کہ ثواب زیادہ ہوتا ہے حالانکہ جس مہینے ان پیسوں (نصاب) پر سال گذر جائے تو ’’زکوۃ‘‘ فرض ہو جاتی ہے۔
مشورہ: سونے اور چاندی کے زیوارات پر ’’ زکوۃ‘‘ دینے سے پہلے مارکیٹ میں ’’زیور‘‘ کی قیمت لگوائیں اور پھر زکوٰۃ دیں کیونکہ ’’قیمت خرید‘‘ زیادہ ہوتی ہے اور ’’قیمت فروخت‘‘ کم ہوتی ہے۔
دینِ اسلام میں عورت کے پاس مال اور زکوۃ
عورت کو مالدار بنانے کیلئے دینِ اسلام نے(1) باپ کی جائیداد میں بیٹی کا حصہ رکھا (2) بیوی کو اس کی حیثیت کے مطابق ’’حق مہر‘‘ دینے کا حُکم دیا (3)خاوند کے مرنے پربیوہ کو جائیداد سے حصہ دیا (4) عورت کو طلاق یا بیوہ ہونے پر بار بارنکاح کرنے اور ہر بار’’ حق مہر‘‘ لینے کا حق دیا (5) عورت کو روزانہ خرچہ دینے کا خاوند کو ذمہ دار بنایا تاکہ عورت کھائے بھی اور بچا ئے بھی (6) حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنھا کی طرح دائی بن کر دوسروں کی اولاد کو دودھ پلا کر کما سکتی ہے (7) والدین نے بیٹی کو پڑھایا ہوا ہو تو بیٹی بالغ ہونے پرپردے کے ساتھ ’’نوکری‘‘ کر سکتی ہے (
عورت سلائی، میک اپ، گھروں میں کام کر کے کما سکتی ہے۔ حدیث پاک جس میں عورت کے سونے کے کنگن کی وجہ سے فقہ حنفی ’’زکوۃ‘‘ دینے کا حکم دیتی ہے، لازمی بات ہے وہ عورت امیر ہوگی جیسے حضرت زینب رضی اللہ عنھا مالدار اور ان کے خاوند عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ غریب تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا تجارت کرتیں اور نبی کریم ﷺ کی دین میں مددگار تھیں۔

سوال: اس معاشرے میں عورت کو حق مہر، وراثت میں حصہ، روزانہ کا خرچہ نہیں ملتا اور وہ عورت کاروبار یا نوکری بھی نہیں کرتی۔ شادی ہو جائے تو مرد کی کمائی سے گھر کا خرچہ اور ضرورتیں بھی پوری نہ ہوتی ہوں، کرائے کے مکان میں رہتے ہوں، 3 یا 4 بیٹیاں بھی ہوں وغیرہ وغیرہ تو ایسی عورت کو نکاح پر 10 تولہ زیور مل جائے تو اس پر زکوۃ اور اگر 4 تولہ زیور پڑا ہوا ہو تو قربانی لگ جائے گی۔
پہلی بات: عورت کو حقوق ملنے چاہئیں تاکہ یہ الزام دور ہو کہ ’’اسلام‘‘ نے عورت کو کیا کیا حقوق دئیے ہیں۔اس لئے ہر مرد کو دینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ’’عورت‘‘ کو اس کے حقوق دینے چاہئیں۔
دوسری بات: شریعت کے مطابق ہر مسلمان عورت یا مرد (میاں، بیوی، بچے، والدین، دادا ، دادی وغیرہ) کا ’’مال‘‘ علیحدہ علیحدہ ہے اورہر کوئی اپنے مال کو اچھے کاموں میں لگانے میں آزاد ہے۔
تیسری بات: عورت زیور اپنے پاس نہ رکھے بلکہ بیچ کرپہلے اپنی ضرورتیں پوری کرلے۔ اس دور میں سارے مال کا مالک( شوہر) ہوتا ہے اور ضرورت پڑنے پر بیوی کا زیور بھی بیچ دیتا ہے۔ اُس کی ذمہ داری ہے کہ سب چیزوں کا حساب کتاب رکھے اور اگر زکوۃ اور قربانی لگتی ہو توادا کرے۔
چوتھی بات: اگر عورت کے پاس صرف زیور ہو، اس کا خاوند بھی مالی مجبوری کا شکار ہو، پیسہ وغیرہ اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے بھی نہ ہو تو علماء کرام سے مشورہ کر لیں کہ ہم غریب لوگ ہیں اسلئے ہمیں شافعی، مالکی، حنبلی فقہ کے مطابق ’’فتوی‘‘ دے دیں کہ عورت کے پہننے کے زیور پر زکوۃ نہیں ہے۔ ایسی عورت کوبھی پہننے کے لئے زیور 7.50 تولے سے کم رکھنا چاہئے۔
پانچویں بات: غیر شرعی رسم و رواج اور تہواروں کے خلاف ’’عوام‘‘ نہیں لڑتی، جس سے لاکھوں روپیہ ضائع ہوتا ہے لیکن زکوۃ یا قربانی دیتے وقت غریب ہو جاتی ہے اور بچنے کے حیلے تلاش کرتی ہے۔
زکوۃ ان پر بھی لگتی ہے
(1) بالغ بیٹیوں کی شادی کے لئے بنائے ہوئے زیورات پر ( 2) حج کیلئے رکھی ہوئی رقم پر اگر سال گذر جائے (3) ملازم کا پیسہ GP Fund میں ہو اور وہ نکلوا سکتا ہو تو زکوۃ اور قربانی لگے گی۔
پاکستان کا معاشی نظام اور گورنمنٹ کی ذمہ داری
1۔ ہر بچہ جو پیدا ہو اس کی خوراک اور مفت تعلیم کی ذمہ دار ہے۔ بچے کے بالغ ہونے پر والدین کی ذمہ داری ختم اور گورنمنٹ ہر بچے کو بیروزگاری الاؤنس دے گی۔ اگرگورنمنٹ حق ادا نہیں کرتی اور امیر باپ اپنی بالغ غریب اولاد کی پیسے سے مدد نہیں کرتاتوغریب اولاد کو زکوۃدی جا سکتی ہے۔
2 ۔ بوڑھوں کی کفالت کے ساتھ ساتھ تمام مسائل کی ذمہ داری بھی گورنمنٹ پر آتی ہے۔