
صدقۂ فطر کیوں دیا جاتا ہے؟
ابوداود 1609 :رسول اللہ ﷺنے صدقہ فطر صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے، لہٰذا جو اسے (عید کی) نماز سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہو گا اور جو اے نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا۔ (ابن ماجہ 1827)
1۔ روزے کے دوران گناہ کرنے نہیں چاہئیں لیکن کچھ باتیں غیر ارادی طور پر بھی ہو جاتی ہیں، اسلئے صدقہ فطر ان گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور غریب کی مدد کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔
2۔ صدقہ فطر عید کی نماز سے پہلے ادا کرنا چاہئے اور بہتر ہے کہ دوسروں کی ضرورتوں کو محسوس کر کے خود فیصلہ کر لیں کہ ابتدائی رمضان، رمضان کے درمیان یا عیدالفطر سے پہلے کب دینا ہے۔
صدقۂ فطر کس پر واجب ہے؟
صحیح بخاری 1504: رسول اکرم ﷺ نے صدقہ فطر لوگوں پر ایک صاع کجھور یا ایک صاع جو، ہر آزاد، غلام، مرد و عورت پر فرض قرار دیا۔
1۔ فطرانہ غلام، آزاد، مرد، عورت، بچے اور بوڑھے سب پر فرض ہے جو اپنے قرضے اور اصل ضروریات اور اہل و عیال کی ضروریات کے علاوہ نصاب کا مالک ہو لہذا اس شخص پر جو قرض اور حوائج اصلیہ سے زائد نصاب کا مالک نہ ہو اس پر صدقۂ فطر واجب نہیں۔
مثال: گھر کا خرچہ، بچوں کی فیسیں، یوٹیلیٹی بلز، قرضہ، مکان کا کرایہ وغیرہ ادا کر کے جس کے پاس 52.50 تولہ چاندی کے پیسے موجود ہوں جو تقريبا 175000 بنتے ہیں تو وہ فطرانہ ادا کرے گا کیونکہ اس کو “نصاب” کہتے ہیں۔
غورو فکر: اب آپ غوروفکر کر لیں کہ آپ کے پاس نصاب کے پیسے بنتے ہیں تو ادا کر دیں اور اگر نصاب سے کم ہیں اور آپ اپنی مرضی سے دینا چاہیں تب بھی آپ کی مرضی ہے۔
2۔ بالغ عورت اور مرد سب اپنا اپنا صدقہ فطر اپنی مرض سے اپنے غریب رشتے داروں، دوستوں، بہن بھائیوں کو دے سکتے ہیں۔
3۔ نابالغ بچوں کا فطرانہ باپ ادا کرے گا۔
4۔ بیوی کے پاس پیسے ہوں تو وہ اپنا فطرانہ خود ادا کرے گی۔
5۔ البتہ اگر گھر کا کوئی بھی فرد سب کا فطرانہ سب کو بتا کر خود ادا کر دے تو ادا ہو جائے گا۔
کیا صدقہ فطر بھی زکوت کی طرح ہے؟
صدقۂ فطر ہر آزاد مسلمان پر واجب ہے جب کہ وہ یکم شوال کو نصاب کا مالک ہو خواہ اسی دن یعنی یکم شوال کو مالک ہوا ہو، اس پر سال گذرنا شرط نہیں۔
صدقۂ فطر کس کو دیا جائے؟
صدقۂ فطر کے مستحق وہی لوگ ہیں جو زکوة کے مستحق ہیں۔
صدقۂ فطر کی مقدار کیا ہے؟
صحیح بخاری 1506: صدقہ فطر پانچ چیزوں یعنی گندم، جو، کھجور، کشمش اور پنیر سے ادا کیا جائے۔
رسول اللہ ﷺ خود کجھوریں ھی صدقہ فطر میں دیا کرتے تھے۔ ( مستدك حاكم 1490 ، صحيح ابن خزيمه 2392)�
صحیح بخاری 1508: حضور نبی اکرم کے زمانے میں ہم ایک صاع (چار کلو گرام) اناج (بطور صدقہ فطر) ادا کرتے تھے یا ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کشمش ادا کرتے تھے۔ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو گندم کا آٹا آگیا ۔ جو کہ اُس وقت نسبتاً سب سے مہنگا تھا ۔ تو نصف صاع (دو کلو) گندم کو ان چیزوں کے چار کلو کے برابر قرار دے دیا گیا۔
احادیث میں چار چیزوں کا ذکر ہے ہر شخص کو چاہئے کہ اپنی حیثیت کے مطابق اعلی سے اعلی چیز کو اختیار کرے۔
کشمش یا منقی: چار کلو 2500 روپے
کھجور: چار کلو 1650 روپے (اچھی کھجور کی قیمت پر بھی دے سکتے ہیں)
جو: چار کلو 450 روپے
گندم: دو کلو) فی کس، (قیمت: 240 روپے) جتنے کلو کا آٹا آپ کھاتے ہو اس کا دو کلو دے دیں۔
ہر شخص کو چاہئے کہ صدقۂ فطر اپنی حیثیت کے مطابق دے۔ صرف گندم کو مخصوص کرلینے سے اگرچہ صدقۂ فطر ادا ہوجاتا ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اگراللہ تعالیٰ نے وسعت دی ہے تو کشمش، کھجور یا جو وغیرہ سے ادا کرے۔
بیرون ممالک والوں کا صدقہ فطر کے متعلق مختلف سوال
بہت سے دوست سوال کرتے ہیں کہ جو باہر کے ممالک رہنے والے، کیا ڈالر، ریال، پاونڈ کے لحاذ سے صدقہ فطر ادا کریں گے یا پاکستان روپے کے لحاذ سے ادا کریں گے؟
یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ جب وہ سارے پیسے پاکستان بھیج دیتا ہے اور اُس کے بیوی بچے بھی یہاں رہتے ہیں تو اُس کا صدقہ فطر بیوی بچوں کے ساتھ ادا ہو گا یا وہ اپنا صدقہ فطر علیحدہ ادا کرے گا؟
جب اُس کی قربانی یہاں کی جا سکتی ہے تو کیا صدقہ فطر یہاں ادا نہیں ہو سکتا؟