
لیلتہ القدر اور اعتکاف
سورۃ القدر میں لیلتہ القدر کی پہچان کروائی گئی ہے۔ ماہِ رمضان کی یہ رات 84 سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ قرآن اور رمضان کا گہرا تعلق ہے۔ اللہ کریم کے حُکم سے ہر سال اس رات میں طلوع فجر تک حضرت جبرائیل علیہ اسلام اور دیگر فرشتے عبادت کرنے والوں کیلئے بخشش کی دُعا کرتے ہیں۔
ابن ماجہ حدیث 1644: جو لیلتہ القدر کی خیر سے محروم رہا وہ ہر طرح کی خیر سے محروم رہا، اور اس کی بھلائی سے محروم وہی رہے گا جو (واقعی) محروم ہو۔
کتاب فضل لیلتہ القدر بخاری حدیث 2014: جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔
بخاری 2023: حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں آیا تھا کہ تمہیں شب قدر بتاؤں لیکن فلاں فلاں نے آپس میں جھگڑا کیا، پس اس کا علم اُٹھا لیا گیا، اب تم اس کی تلاش (آخری عشرہ کی) نو یا سات یا پانچ (راتوں) میں تلاش کرو۔
یہ رات 21، 23، 25، 27، 29 میں بدل بدل کر آتی ہے کیونکہ بخاری حدیث 2015: نبی کریم ﷺ کے چند اصحاب کو شب قدر خواب میں (رمضان کی) سات آخری تاریخوں میں دکھائی گئی تو فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سب کے خواب سات آخری تاریخوں پر متفق ہو گئے ہیں، اس لئے جسے اس کی تلاش ہو وہ اسی ہفتہ کی آخری (طاق) راتوں میں تلاش کرے اور بخاری 2024: حضور ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔
لیلتہ القدر مختلف راتوں میں
ابوداود 1382 حدیث ہے کہ 20 تاریخ کی صبح کو حضور ﷺ اعتکاف سے نکلے، فرمایا مجھے لیلتہ القدر دکھائی گئی لیکن بھلا دی گئی۔۔البتہ میں نے یہ بھی خواب میں دیکھا کہ گویا میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔۔اسلئے اعتکاف میں ابھی رہو، صحابی کہتے ہیں کہ بارش ہوئی، حضور ﷺ نے سجدہ کیا تو وہی خواب 21 کی رات کو پورا ہو گیا یعنی 21ویں رات لیلتہ القدر کی تھی۔
23ویں رات: ابوداود 1379 اور 1380کے مطابق عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ نے فرمایا کہ 23ویں رات لیلتہ القدر کی ہو گی۔
27ویں رات: ابوداود 1378میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر کہا کہ رات رمضان کی 27ویں رات ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ سورج بغیر کرنوں کے طشت کی صورت میں نکلتا ہے۔ اسی طرح ابوداود 1386 میں بھی حضور ﷺ نے فرمایا کہ شب قدر 27ویں رات ہے۔
شب قدر کی دعا: ترمذی 3513 میں ہے کہ لیلتہ القدر کی رات الھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی پڑھو یا اردو میں پڑھو کہ اے اللہ!بے شک تو معاف فرمانے والا، کرم کرنے والا ہے، تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے تو میرے گناہوں کو بھی معاف فرما دے۔
کم سے کم عبادت: رمضان میں روزہ رکھ کرعشاء با جماعت اور فجر با جماعت، تراویح اور تہجد ادا کرلیں تو لیلتہ القدر میں سے حصہ مل جائے گا۔
اعتکاف
1۔ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیھم السلام کو حکم تھا کہ طواف، اعتکاف، رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے اللہ کریم کا گھر صاف رکھیں (البقرہ 125) اور البقرہ 187: اعتکاف کی حالت میں عورتوں سے مباشرت جائز نہیں“۔ اسی آیت کی وجہ سے مفسرین کہتے ہیں کہ عورتیں مساجد میں اعتکاف نہیں کریں گی۔ اسکی یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ بخاری 2033 – 34: حضور ﷺ نے اعتکاف کا ارادہ کیا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے بھی اعتکاف کی اجازت مانگی اور جب حضور ﷺ اعتکاف کے لئے اپنی جگہ آئے تو بہت سی ازواج (بیویوں) کے خیمے لگے تھے تو آپ ﷺ نے اعتکاف ہی نہیں کیا۔
اعتکاف: اعتکاف کے فضائل کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ حضور ﷺ نے وصال تک ہر رمضان میں اعتکاف کیا (بخاری 2026)
اعتکاف کرنے والا گناہوں سے رکا رہتا ہے اور اس کو ان نیکیوں کا ثواب جن کو وہ نہیں کر سکتا ان تمام نیکیوں کے کرنے والے کی طرح ملے گا (ابن ماجہ 1781)
اعتکاف کے متعلق احادیث کے لئے باب الاعتکاف، صحیح بخاری کی 2025 – 2046تک مطالعہ کر سکتے ہیں۔
ضروری مسائل:اعتکاف ”سنت موکدہ علی الکفایہ“، نیت اعتکاف اللہ کی رضا کو پانے کی، 20واں روزہ مسجد میں کھولنا اور عید کا چاند نظر آنے پر مسجد چھوڑ دینا، محلے کی مسجد میں ایک بندے کا اعتکاف سب کو گناہ گار ہونے سے بچاتا ہے۔
اعتکاف کی شرائط (1) اعتکاف کی نیت سے (2) عقلمند (3) مسلمان کا (4) روزہ رکھ کر(5) مسجد میں اور عورت کا اپنے (6) گھر میں بیٹھنا۔
اسلئے بغیر کسی وجہ کے مسجد سے باہر نکلنا یا ٹھرنا، حالتِ اعتکاف میں مباشرت کرنا، عورت اعتکاف میں ہو تو حیض و نفاس کا جاری ہوجانا وغیرہ سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ مرد کو مسجد میں غسل کی حالت ہو تو اپنے پاس اینٹ کا ٹکڑا رکھ لے تاکہ اُسی وقت تیمم کر لے اور پھر غسل خانے میں جا کر غسل کر لے۔ وضو کا شک ہو کہ ہے یا نہیں تو شک دور کرے اور جب تک یقین نہ ہو وضو خانے میں نہ جائے۔ گرمیوں میں جسم سے پسینے کی بدبو یا کھجلی ہونے پر نہا سکتا ہے۔
اعتکاف جان بوجھ کر چھوڑ دیا تو جس دن توڑا اس سے آگے بقیہ دنوں کی قضا کرے گا اور اعتکاف کی قضا میں ”روزہ“ بھی رکھے گا۔
البتہ ایک دن کے اعتکاف کی قضا یہ ہے کہ طلوع فجر سے پہلے اعتکاف گاہ میں روزہ رکھ کر داخل ہو اور اسی روز شام کو غروب آفتاب کے وقت اپنے اعتکاف گاہ سے باہر آ جائے۔ اگر اعتکاف رات کو ٹوٹا ہے تو شام کو غروب آفتا ب سے پہلے مسجدمیں داخل ہو، رات بھر وہاں رہے، روزہ رکھے اور اگلے دن غروب آفتاب کے بعد اعتکاف گاہ سے باہر نکلے۔
جائز: ہر وہ عمل جو (1) شریعت (2) مسجد کے آداب (3) اخلاقیات (4) انسانیت (5) روحانیت (6) اعتکاف کی شرائط کے خلاف ہو ایک معتکف کو نہیں کرنا اور باقی سب جائز ہے۔