حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا مومنین کی ماں ہیں اور ان کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے سُسر ہیں۔
صحیح بخاری 3895: حضور ﷺ کو ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا خواب میں دکھا کر فرشتے نے کہا یہ آپ کی بیوی ہیں۔
صحیح بخاری 3772حضرت عمار فرماتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا حضور ﷺ کی دنیا اور آخرت میں بیوی ہیں۔
صحیح بخاری 3770 ”عائشہ کی فضیلت عورتوں پر اسطرح ہے جسطرح تمام کھانوں سے ثرید افضل ہے“۔
صحیح بخاری 3896 ”مدینہ پاک کی طرف ہجرت سے تین سال پہلے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کا وصال ہو گیااور دو سال بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے حضور ﷺ نے 6 سال کی عمر میں نکاح کیا، پھر 9 سال کی عمر میں وہ آپ ﷺ کے گھر تشریف لائیں“۔(اس میں بحث نہیں کہ عمر کیا تھی بلکہ اصل یہ ہے کہ آپ بالغ تھیں جب رخصتی ہوئی اور یہی قانون ہے کہ بالغ ہونے پر نکاح کر دیں)۔
مسلم 6290”حضور ﷺنے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا اے میری بیٹی! کیا تم اس سے محبت نہیں کرتی جس سے میں محبت کرتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا پس تم اس (حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا) سے محبت کرو۔
صحیح بخاری 3662 ”آپ ﷺ نے فرمایا میں سب سے زیادہ محبت عائشہ سے کرتا ہوں“۔
صحیح بخاری 6201 حضور ﷺ نے فرمایا اے عائشہ یہ جبریل تجھے سلام کہتے ہیں تو عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا: اور ان پر بھی اللہ کی رحمت اور سلام ہو۔
صحیح بخاری 3775 حضور ﷺ نے ایک دفعہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا: مجھے عائشہ کے بارے میں تکلیف نہ دو، اللہ کی قسم، مجھ پر تم میں سے صرف عائشہ کے بستر پر ہی وحی نازل ہوتی ہے“۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا پر منافقین کی طرف سے بہتان لگا تو اللہ کریم نے قرآن میں سورہ نور کی آیات اُتار کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو پاک صاف قرار دیا اور صحیح بخاری 4141 میں مکمل وضاحت موجود ہے۔
صحیح بخاری 336 ”تیمم کی آیات بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے ہار گُم ہو جانے کی وجہ سے نازل ہوئیں۔
صحیح بخاری 3774: حضور ﷺ کے آخری آیام حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے گھر میں ان کے ساتھ تھے“ اور وفات حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی گود میں ہوئی صحیح بخاری 4449۔
ترمذی 3883 حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم کو جب بھی کسی حدیث میں اشکال ہوتا تو ہم نے عائشہ رضی اللہ عنھاسے پوچھا اور ان کے پاس اس کے بارے میں علم پایا۔
صحیح بخاری 3771 حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی وفات کے قریب بیماری پرسی کی اور آپ کی تعریف کی“ اور مسند احمد میں ہے ”حضرت عائشہ نے فرمایا: اے عباس مجھے چھوڑ دو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،میں چاہتی ہوں کہ میں بھولی ہوئی گمنام ہوتی“۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا 17 رمضان المبارک 58ھ میں وصال کیا اور آپ کا جنازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھایا (البدایہ و النہایہ، لابن کثیر، جلد 4، جز 7، ص 97)
چند اشکال
مستدرک حاکم: حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ”رسول اللہ ﷺ کے پاس فرشتہ میری تصویر لے کر آیا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے شادی کی اور (اس وقت) میری عمر سات سال تھی اور نو سال کی عمر میں رخصتی ہوئی“۔
قانون: حضور ﷺنے 25 سال کی عمر میں 40 سالہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا اور 50 سال کی عمر میں 9 سالہ بالغ سے نکاح کر کے چھوٹی بڑی عمر کے مرد و عورت کے لئے قانون بنا دیا کہ نکاح کی حد میں چھوٹے بڑے کا مسئلہ نہیں ہے۔
اعتراض: اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے نکاح پر کسی کو اعتراض ہے تو متفقہ قانون بتائے کہ کتنی عمر کے لڑکے اور لڑکی کا آپس میں نکاح جائز ہے، جس سے وہ گناہ کرنے سے بچ جائیں اور دوسرا بڑی عمر کی عورت یا مرد اپنے سے کتنے سال چھوٹے بڑے مرد و عورت سے نکاح کر سکتے ہیں اگر راضی ہوں؟
واقعہ افک: حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا پر منافق عبداللہ بن ابی نے جھوٹی تہمت لگائی، جس کی لپیٹ میں کچھ مسلمان بھی آ گئے، حضور ﷺ نے صحابہ کرام، داماد حضرات، لونڈی حتی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے بھی تفشیش کی۔
ہر کوئی اپنے ایمان سے بتائے کہ کیا ایک عرصہ سے ساتھ رہنے والی بیوی کا کردار میاں کو خود معلوم نہیں ہوتا؟ اسلئے حضور ﷺ کو علم تھا کہ تہمت جھوٹی ہے لیکن یہ ساری کاروائی مسلمانوں کو سکھانے کے لئے تھی اور اللہ کریم نے سورہ نور کی آیات اُتار کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی عظمت کو چار چاند لگا دئے۔
نتیجہ: حضرت حسان بن ثابت، حضرت حمنہ بنت جحش، حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنھم کو بہتان لگانے کی سزا بھی ملی لیکن ہمارے نزدیک سزا ملنے کے بعد بھی یہ سب جنتی ہیں کیونکہ ان سب کے بشری تقاضوں کی وجہ سے تو دین ہم تک پہنچا ہے۔
سورہ تحریم: اس سورت میں یہ علم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی بیویوں کی دلجوئی کے لئے ایک حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کر لیا تو اللہ کریم نے حضور ﷺ اور آپ ﷺ کی ازواج کو ان کی شان کے مطابق سمجھایا۔ حضور ﷺ اور صحابہ کرام و اہلبیت کے مسائل دراصل اُس دور کے معاشرتی رسم و رواج توڑنے کے لئے بھی تھے اور ہر دور کے مسلمان کو سکھانے کے لئے بھی تھے۔ اسلئے اللہ کریم نے قرآن کریم میں اپنوں کو سمجھا کر توبہ کرنے کے لئے ضرور کہا مگر حقیقت میں سب مسلمانوں کو حدود و قیود بتانا مقصود تھا۔
نتیجہ: قرآن کریم اور احادیث کو حضور ﷺ، حضور ﷺ کی بیویوں یا صحابہ کرام پر اعتراضات کرنے کے لئے نہیں پڑھنا بلکہ اسلئے پڑھنا ہے کہ اگر کوئی اپنے اوپر حلال شے کو حرام کر لے تو اُس کو سمجھایا جا سکے کہ اس کا حل قرآن و سنت میں موجود ہے کیونکہ اگر یہ مسائل ان ہستیوں کے ساتھ پیدا نہ ہوتے تو ہمارے لئے مسائل کا حل کیسے نکلتا؟
ایلاء: اسی طرح حضور ﷺ کی بیویوں نے جب دنیاوی خوبصورتی کا مطالبہ کیا تو حضور ﷺ نے ان سے ایک ماہ کے لئے دوری (ایلاء) اختیار کر لی، ایک ماہ کے بعد تمام بیویوں کے سامنے ایک شرط رکھی کہ اگر دنیاوی خوبصورتی چاہئے تو جتنا مال چاہئے میں تمہیں دے دیتا ہوں لیکن اُس کے بعد پھر طلاق ہے لیکن حضور ﷺ کی ہر بیوی نے یہ کہا کہ یا رسول اللہ! صرف آپ ﷺ چاہئیں اور سب سے پہلا یہ جواب حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے دیا۔
نتیجہ: حضور ﷺ نے ایک مہینہ ہر بیوی سے دور رہ کر ثابت کیا کہ اُن کو عورت کی نہیں بلکہ اللہ کریم کی رضا منظور ہے اور اللہ کریم کی راہ میں کوئی بھی قربانی دی جا سکتی ہے۔ اسلئے جب بعد میں اپنی بیویوں سے سوال کیا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ مال نہیں چاہئے بلکہ یا رسول اللہ دنیا میں اور آخرت میں آپ کا ساتھ چاہئے۔تمام شادی شدہ اپنی بیوی کی خواہش کو پورا کرنے کی بجائے کبھی دور بھی رہ کر حل نکالیں تاکہ جہنم میں جانے سے بیوی بچوں سمیت خود کو بچا سکے۔
فضل و کمال: حضور ﷺ کے وصال کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے 48 سال زندگی حضور ﷺ کے بغیر گذاری۔ البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے حضور ﷺ سے جو سیکھا اُس کو ”مومنین کی ماں“ ہونے کی حیثیت سے حدود و قیود میں رہ کر بہترین طریقے سے عورتوں اور مردوں کو سمجھایا۔ اسلئے میاں بیوی کے معاملات و اخلاقیات کا علمی فیض آپ رضی اللہ عنھا کی وجہ سے امت کو تقسیم ہوا۔
جمل: حضرت عائشہ اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کے درمیان غلط فہمیوں کی وجہ سے مسلمانوں میں لڑائی ہوئی جس میں مسلمان دونوں طرف سے شہید ہوئے۔ہر مسلمان کو ایسی لڑائیوں کا افسوس ہے لیکن سمجھ یہ آئی کہ اب بھی ہم آپس میں لڑ رہے ہیں لیکن حوصلہ کر کے اکٹھا ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔
وفات: 17رمضان 58ھ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھاکی وفات بستر مرگ پر ہوئی۔ آپ کا جنازہ نماز عشاء کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھایا۔
قتل: اہلتشیع الزام لگاتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کوئی گڑھا کھودا تھا جس میں تلو اریں چاقو تھے جس سے آپ زخمی ہو کر وفات پا گئیں حالانکہ یہ جھوٹا واقعہ ہے۔
صحیح بخاری 4753: حضرت عائشہ وفات سے تھوڑی دیر پہلے، جبکہ وہ نزع کی حالت میں تھیں، ابن عباس نے ان کے پاس آنے کی اجازت چاہی، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ میری تعریف نہ کرنے لگیں۔ کسی نے عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی ہیں اور خود بھی عزت دار ہیں (اس لئے آپ کو اجازت دے دینی چاہئے) اس پر انہوں نے کہا کہ پھر انہیں اندر بلا لو۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا کہ آپ کس حال میں ہیں؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں خدا کے نزدیک اچھی ہوں تو سب اچھا ہی اچھا ہے۔ اس پر ابن عباس نے کہا کہ انشاءاللہ آپ اچھی ہی رہیں گی۔ آپ ﷺ کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا آنحضرت ﷺ نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور آپ کی برات (قرآن مجید میں) آسمان سے نازل ہوئی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی خدمت میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما حاضر ہوئے۔ ان سے فرمایا کہ ابھی ابن عباس آئے تھے اور میری تعریف کی، میں تو چاہتی ہوں کہ کاش میں ایک بھولی بسری گمنام ہوتی۔
یہ اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات فطری طورپر مرض الموت میں ان کے گھر پر ہوئی تھی۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general