رمضان المبارک میں مرنے والوں پر عذاب قبر

رمضان المبارک میں مرنے والوں پر عذاب قبر

 

اللہ کریم جسے چاہے معاف کرے اور جس کی چاہے پکڑ سکتا ہے، مختارِ کُل وہی ہے جو سب کچھ کر سکتا ہے۔
سوچ: البتہ بندگی کرنے کا حُکم اللہ کریم کا ہے اور گناہوں سے بچنے کا حُکم بھی اللہ کریم کا ہے، اللہ کریم کی جو نہ مانے وہ کون ہے؟ کیا اُسے عذاب دے یا نہیں؟
حقیقت: اللہ کریم جس کو چاہے معاف کر سکتا ہے مگر علما حضرات قانون و اصول بیان کرتے ہیں لیکن اختیار کُلّی اللہ کریم کو حاصل ہے۔
علماء کرام: اہلسنت علماء کرام کے نزدیک ضعیف احادیث پر بھی ایک سوچ دی جاتی ہے جبکہ اہلحدیث حضرات کے نزدیک نہیں ہے۔
رمضان المبارک میں مرنے والے کےمتعلق
1۔ راوی انس بن مالک، اَنَّ عذابَ القبرِ یُرفَعُ عنِ المَوتیٰ فی شہرِ رمَضانَ یعنی ماہِ رمضان میں مُردوں سے عذابِ قبر اٹھا لیا جاتا ہے۔(شرح الصدور للسُیوطِی 254، مکتبہ دارالتراث، بَیرُوت)
2۔ اسی کتاب میں یہ بھی ہے: ان بعض الموتیٰ شہر رمضان لا ینالھم فتنۃ القبر ولا یاتیہم الفتانات۔ و ذالک علیٰ ثلثۃ اوجہ: مضاف ای عمل، ومضاف الیٰ حال بلا ۔۔۔ بالموت و مضاف الیٰ زمان یعنی ماہِ رمضان میں بعض مُردوں کو عذابِ قبر نہیں ہوتا اور ان کے پاس سوالات کرنے کے لیے منکَر نکیر نہیں آتے۔ (شرح الصدور 17)
3۔ شرح فقہِ اکبر میں ہے: جمعہ اور ماہِ رمضان میں نبئ کریم ﷺ کے طفیل میں مُردوں کو عذاب نہیں ہوتا، کیوں کہ جب تک آپ اِس دنیا میں حیات رہے، اللّٰہ تعالیٰ آپ کے طفیل میں کسی کو عذاب نہیں دیتا تھا، اسی طرح جمعہ اور رمضان کے پورے مہینے میں آپ ﷺ کے احترام میں عذاب نہیں ہوتا۔ (شرح فقہ اکبر 172)
محدثین کے درمیان اختلاف
کیا ہمیشہ کے لیے اس سے قبر کا عذاب اٹھا لیا جاتا ہے یا صرف رمضان تک، یا صرف جمعہ کو؟
1۔ کچھ حضرات اسی دوسرے قول کو لیتے ہیں کہ صرف رمضان اور صرف جمعہ کو قبر کا عذاب اٹھایا جاتا ہے کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جب ماہِ رمضان شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں،اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، نیز شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔
2۔ اور کچھ محدثین پہلے قول کو لیتے ہیں کہ ہمیشہ کے لیے عذابِ قبر اٹھا لیا جاتا ہے۔
اللّٰہ کی بے پناہ رحمتوں سے یہی امید رکھنی چاہیے کہ ہمیشہ کے لیے اس سے عذابِ قبر اٹھا لیا جاتا ہے۔ اسی حدیث کی وجہ سے رمضان یا جمعہ میں وفات پانے والے کو مبارک کہا جاتا ہے جیسے:
ترمذی 1074: عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو مرتا ہے، اللہ اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے“۔
غلط مشہوری: رمضان میں مرنے والا سیدھا جنت میں چلا جاتا ہے اور اس سے کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا۔ یہ بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
صحیح بات: میری امت میں سے 70 ہزار لوگ بلا حساب و کتاب جائیں گے۔ وہ لوگ جو گرم لوہے سے داغ لگا کر علاج نہیں کرواتے، کفریہ جھاڑ پھونک نہیں کرواتے، کسی چیز کو منحوس نہیں سمجھتے اور صرف اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔(صحیح بخاری 3604)
ضعیف روایات
1- جسکو رَمَضان کے اختِتام کے وَقت موت آئی وہ جنّت میں داخِل ہوگا اور جسکی موت عَرَفہ کے دن (یعنی ٩ ذُوالحجّۃُ الحرام ) کے خَتْم ہوتے وَقت آئی وہ بھی جنّت میں داخِل ہوگااور جسکی موت صَدَقہ دینے کی حالت میں آئی وہ بھی داخِلِ جنّت ہوگا۔ ” (حِلْیۃُ ا لْاولیَاء، ج 5، ص 26، حدیث 6187)
2۔ جس کا روزہ کی حالت میں اِنْتِقال ہوا، اللّٰہ کریم اُسکو قِیامت تک کے روزوں کا ثواب عطا فرماتا ہے۔” (الفردوس بماثورالخطاب، ج3، ص504، حدیث5557)
3۔ یہ رمضا ن تمہارے پاس آگیا ہے ،اس میں جنّت کے دروازے کھول دیئے جا تے ہیں اور جہنَّم کے دروازے بندکردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے ،محروم ہے وہ شخص جس نے رَمضان کو پایا اور اس کی مغفِرت نہ ہوئی کہ جب اس کی رَمضان میں مغفِرت نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی ؟ ”(مجمع الزوائد، ج 3، ص 345،حدیث 4788)a
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general