
محمد و آل محمد کے نام پر جھوٹا
1۔ الله کریم کو ماننا یعنی قرآن کو ماننا، نبی کریم ﷺ کو ماننا یعنی احادیث نبوی کی کتب کو مان کر اصول و قانون کے مطابق اُس پر عمل کرنا۔
2۔ حدیث کا راوی ہوتا ہے جیسے صحیح بخاری حدیث کی کتاب کا نام ہے، حدیث نمبر 108، راوی حضرت انس ہیں جس میں حضور ﷺ کا فرمان ہے: جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ اس کا مطلب ہوا کہ جو حضورﷺ کی سچی احادیث بیان کرے وہ اپنا ٹھکانہ جنت میں بنا لے۔
3۔ سب سے بڑا فراڈ محمد و آل محمد کے نام پر اہلتشیع حضرات نے کیا ہے جنہوں نے پنجتن سے دین نہیں لیا بلکہ منگھڑت کوفی راوی یعنی مفصل زرارہ محمد بن مسلم، ابو بریدہ، ابو بصیر، شاہین، حمران، جیکر مومن طاق، امان بن تغلب اور معاویہ بن عمار جن کا ملنا بھی امام جعفر صادق سے ثابت نہیں۔
ان سے کتب اربعہ (1) الکافی۔ ابو جعفر کلینی 330ھ یعنی حضرت جعفر صادق سے تقریباً 180برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ۔ محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230 سال بعد (3) تہذیب الاحکام (4) استبصار محمد بن حسن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھ کر نبی کریم کے دین سے فراڈ کیا۔
4۔ اسلئے دعوی ہے کہ قرآن کی آیات کی شان نزول، تفسیر، اہلبیت کے فضائل بھی اہلتشیع حضرات نہیں دے سکتے کیونکہ منکر نبی ہیں۔
5۔ حضرات سلمان فارسی، ابوذر غفاری، بلال وغیرہ سے اہلتشیع حضرات نے بہت جھوٹ لکھا ہے جیسے 406 ہجری میں المرتضی علی بن حسین بن موسی الموسوی یا اُس کے بھائی شریف رضی کی لکھی نہج البلاغہ کو سیدنا علی سے منسوب کریں گے۔
۔ سیدنا بلال کی آواز بہت خوبصورت اور دور تک جاتی تھی لیکن یہ جو مشہور ہے کہ ان کی زبان میں لکنت تھی اسلئے س کو ش پڑھتے تھے یہ جھوٹ ہے یا یہ کہنا کہ حضرت بلال کو اذان دینے سے روک دیا گیا تو دن ہی نہ چڑھا، یہ سب جھوٹے واقعات ہیں۔
۔۔ سیدنا عمر فاروق کے پاس ایک قتل کا مقدمہ پیش ہوا، بندے کو اس کے بدلے قتل کی سزا ہوئی، اُس نے کہا تین دن میں واپس آ جاؤں گا، پوچھا تیری گواہی کون دے گا، اُس نے سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا۔۔ ایسا کوئی واقعہ نہیں آیا اور نہ کسی کتاب میں لکھا ہے۔
۔۔۔ حضور ﷺ کے دندان مبارک زخمی ہونے پر حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے سارے دانت نکلوا دئے۔
۔۔۔ پوری نہج البلاغہ ہی غلط ہے کیونکہ مولا علی نے امامت کی نہیں اور خلافت کو اہلتشیع حضرات مانتے نہیں، اسلئے مولا علی سے منگھڑت کتاب منسوب کر کے کہتے ہیں کہ ایسے خطبات مولا علی کے ہی ہو سکتے ہیں۔
۔۔ سیدنا عمر فاروق کے بیٹے سیدنا عبداللہ کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا غلام کہہ دیا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے بیٹا کاغذ پر لکھوا لاؤ، ایسا کوئی واقعہ کتابوں میں نہیں ہے۔
6۔ مندرجہ ذیل واقعات احادیث یا سیرت کی کتابوں میں بالکل نہیں لکھے ہیں بلکہ نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام اور دیگر کے ساتھ جھوٹ منسوب ہیں۔ اگر کوئی ہم سے حوالہ مانگے تو بے وقوف ہے کیونکہ ہم تو کہہ رہے ہیں کہ یہ واقعات کسی بھی کتاب میں نہیں ہیں، اگر کوئی کہتا ہے کہ میرے پاس ریفرنس ہے تو وہ ہمیں دے کر ہم پر احسان کرے۔ غور و فکر کریں کہ کیا آپ بھی یہ جھوٹے الفاظ اور واقعات سُنا رہے ہیں، ایک نظر ڈال لیں۔
محنت مزدوری کرنے والا اللہ کا دوست ہے، اس طرح کے الفاظ حدیث میں نہیں ہیں بلکہ حدیث کے الفاظ یہ ملتے ہیں۔ مسند احمد بن حنبل حدیث 17265 : راوی حضرت رافع، کسی شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ سب سے افضل اور عمدہ کمائی کون سی ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انسان کے ہاتھ کی کمائی اور ہر مقبول تجارت۔
حضور ﷺ نے دودھ پیا ہے مگر یہ کہیں نہیں لکھا کہ فرمایا: دودھ ایک نور ہے، اسلئے یہ کہنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ دودھ ایک نور ہے، یہ نبی کریم پر جھوٹ باندھنا ہے۔
ایک قبر میں سے 70 مردے نکلیں گے ایسی کوئی حدیث نہیں۔ اگر یہ سچی بات ہے تو پھر سارے اپنی اپنی قبروں کو بلڈوز کروائیں اور دوسروں کے مُردوں کو دفن کرنے دیں۔
نماز مومنین کی معراج ہے یہ کسی حدیث کے الفاظ نہیں ہیں۔
دنیا آخرت کی کھیتی ہے، ایسی کوئی حدیث نہیں حالانکہ ہماری درسی کتب میں یہ ہم خود پڑھتے رہے۔
7۔ بعض اوقات ہم یہ کہتے ہیں جیسے رَبِّ ھَبْ لِیْ اُمَّتِیْ کے الفاظ بھی رسول اللہ ﷺ نے پیدائش کے وقت نہیں بولے یا قبر میں رکھا گیا ہو تو حضور ﷺ اُس وقت بھی رَبِّ ھَبْ لِیْ اُمَّتِیْ فرما رہے ہوں۔البتہ صحیح مسلم حدیث 480، كِتَاب الْإِيمَانِ، باب أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِيهَا: میں امت میری، میری امت کے الفاظ ہیں۔ صحیح مسلم حدیث 499، كِتَاب الْإِيمَانِ باب دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأُمَّتِهِ وَبُكَائِهِ شَفَقَةً عَلَيْهِمْ: میں بھی میری امت میری امت کے الفاظ ہیں۔
8۔ اکثر جھوٹا حوالہ دے کر لکھا جاتا ہے جیسے جب ایک جوان انسان الله پاک سے اپنے گناہوں کی بخشش کے لیے گڑگڑاتا اور توبہ کرتا ہے تو مشرق سے مغرب تک کے قبرستانوں میں 40 دن تک عذاب ہٹا لیا جاتا ہے۔ (ابن ماجہ) یا
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس گھر کے دروازے رشتہ داروں کے لیے بند ہوں اور جس گھر میں دیر تک جاگنے اور صبح دیر سے اٹھنے کا رواج ہو جائے تو وہاں رزق کی تنگی اور بے برکتی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ صحیح مسلم (دونوں ہی احادیث کی کتب میں احادیث موجود نہیں)
9۔ ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ بیٹھی تھیں، نبی کریم ﷺ تشریف لائے کہا: "مانگو جو مانگتی ہو” آپ جلدی سے اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق کے پاس گئیں ان کو یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا کہ تم کہو کہ معراج کی رات راز والی باتوں میں سے دو باتیں بتا دیجیے۔ یہ واقعہ حدیث اور سیرت کى کسى بھى مستند اور معتبر کتاب میں تلاش کے باوجود نہیں مل سکا ہے، لہذا اس واقعہ کو آنحضرت ﷺ کى طرف منسوب کر کے بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
10۔ حضور ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے علی رات کو روزانہ پانچ کام کر کے سویا کرو (۱) چار ہزار دینار صدقہ (۲) ایک قرآن شریف پڑھکر (۳) جنت کی قیمت ادا کر کے (۴) دو لڑنے والوں میں صلح کرو کر (۵) ایک حج کر کے یعنی چار مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھو، تین مرتبہ سورہ اخلاص، دس مرتبہ درود، دس مرتبہ استغفار وغیرہ، ایسی کوئی حدیث نہیں ہے۔
11۔ ماں کی گود سے قبر کی گود تک علم حاصل کرو، ایسی کوئی حدیث نہیں۔
12۔ بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہے۔
13۔ بی بی فاطمہ، بی بی زینب کے معجزے سب جھوٹ ہیں۔
14۔ صحیح بخاری 5770: ”صفر کا مہینہ منحوس نہیں ہے“ لیکن پھر بھی کوئی ماہ صفر کو منحوس یا الا بلا کا مہینہ کہے تو جھوٹا ہے۔
15۔ ماہ صفر میں آخری بدھ منانے والے یہ کہہ کر کہ نبی کریم نے سیر کی تو شفا ہو گئی، یہ بھی جھوٹ ہے۔
16۔ ایک عورت چار مردوں کو جہنم میں لے کر جائے گی، ایسی کوئی حدیث نہیں۔
17۔ میں چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں جانا جاؤں تو خلقت کو پیدا کیا۔ جھوٹ
18۔ ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے اور ہو گا وہی جو میری چاہت ہے۔
19۔ سیدنا بلال کا نکاح جنت کی سردار حور سے ہو گا، بالکل جھوٹ۔
20۔ ہر انسان کے تین باپ ہوتے ہیں استاد، والد، سسر، ایسی کوئی حدیث نہیں۔
21۔ عورت حضور ﷺ پر کوڑا پھینکتی تھی، ایک دن نہ پھینکا۔۔ ایسا کوئی واقعہ کسی کتاب میں نہیں ہے۔
22۔ عورت مکہ چھوڑ کر جانے لگی کیونکہ یہاں نعوذ باللہ محمد ﷺ جھوٹا نبی جادوگر آ گیا ہے، ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے۔
23۔ مصلے کا کونا موڑ دینا چاہئے ورنہ شیطان نماز پڑھتا ہے یہ بات جھوٹ ہے ورنہ مساجد کی ساری صفوں پر شیطان نماز ادا کرتا ہو گا۔
24۔ اہلسنت کے نزدیک حضور ﷺ کو اللہ کریم کا دیدار ہوا مگر کسی کتاب میں یہ الفاظ نہیں لکھے کہ "اللہ کریم نے فرمایا ہو کہ نعلین سمیت عرش پر آ جا”۔
25۔ اگر جھک جانے یعنی عاجزی اختیار کرنے سے تمہاری عزت گھٹ جائے تو قیامت کے دن مجھ سے لے لینا۔
26۔ رمضان کے آخری جمعہ میں دو نفل پڑھنے سے ساری عمر کی نمازیں قضا ادا ہو جاتی ہیں۔
27۔ حضور ﷺ نے تندور میں روٹی لگائی تو وہ پکی ہی نہیں، بالکل جھوٹ واقعہ
28۔ یہ بھی جھوٹ ہے کہ حضور ﷺ نے کسی صحابی کو رزق میں اضافے کے لئے چار نکاح کرنے کا مشورہ دیا۔
29۔ اللہ کریم 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے ایسی بھی کوئی حدیث نہیں ہے۔ البتہ اللہ کریم سب ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے یہ بات سچ ہے۔
30۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھے بچوں کی پانچ عادتیں اچھی لگتی ہیں رو رو کر مانگتے ہیں اور اپنی بات منوا لیتے ہیں، مٹی میں کھیلتے ہیں اور غرور و تکبر خاک میں ملا دیتے ہیں، جو مل جائے کھا لیتے ہیں، زیادہ جمع یا ذخیرہ کرنے کی ہوس نہیں رکھتے، لڑتے ہیں جھگڑتے ہیں اور پھر صلح کر لیتے ہیں، مٹی کے گھر بناتے ہیں، کھیل کر گرا دیتے ہیں، ایسی کوئی حدیث نہیں ہے۔
31۔ نعت کے یہ الفاظ جھوٹ ہیں کہ سمت نبی ابوجہل گیا اس نے نبی سے کہا کہ یہ تو بتا میری مٹھی میں ہے کیا، ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے۔
32۔ فجر چھوڑنے پر چہرے کا نور ختم، ظہر چھوڑنے پر رزق، عصر چھوڑنے پر وجاہت ایسی کوئی حدیث نہیں ہے۔
33۔ نماز چھوڑنے والا قیامت کے دن اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کے چہرے پر لکھا ہو گا اے اللہ کے حق کو ضائع کرنے والے، اے اللہ کے غصے کے مستحق ۔۔ ایسی کوئی حدیث نہیں۔
34۔ ایسی کوئی حدیث نہیں ہے (1) مسجد سے بال اٹھانا ایسا ہے جیسے مرے ہوئے گدھے کو اٹھانا۔ (2) جو شخص مسجد سے بال اٹھاتا ہے اللہ پاک اس کا نکاح ایک حور سے کروادیتا ہے۔
35۔ لوگوں میں مشہور ہے ’’الصدقۃ ترد البلاء‘‘ یا ’’الصدقة رد البلاء‘‘ جبکہ بعینہ یہ الفاظ احادیث میں موجود نہیں ہیں۔ لہذا ان الفاظ کی نسبت جناب رسول اللہ ﷺ کی طرف کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
البتہ دَاوُوْا مَرْضَآکُمْ بِالصَّدَقَۃِ ترجمہ: صدقہ کے ذریعہ اپنے مریضوں کا علاج کرو والے الفاظ المعجم الکبیرللطبرانی، شعب الایمان للبیہقی اورمراسیل ابی داؤد’میں موجود ہے، اگرچہ اس حدیث کے بعض راویوں پر محدثین نے کلام کیاہے مگر یہ حدیث موضوع نہیں ہے، ان الفاظ کو بیان کر سکتے ہیں۔
36۔ نبیوں پر جھوٹ باندھا گیا کہ حضرت ایوب کے جسم میں کیڑے پڑ گئے اور ان کو شہر سے باہر کوڑی پر پھینک دیا گیا۔
۔ حضرت زکریا علیہ السلام کو آرے سے چیر دیا گیا۔ یہ بھی جھوٹ ہے۔
اصول و قانون: اہلسنت کی ہر حدیث کو من و عن نہیں مان لیا جاتا بلکہ قانون و اصول کے مطابق ہر حدیث کی شرح کی جاتی ہے کیونکہ متن صحیح بخاری و مسلم کا بھی ہو تو اس میں بھی ضعف ہو سکتا ہے جیسے:
صحیح مسلم 6409: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مسلمان حضرت ابوسفیان کی طرف دھیان نہیں کرتے تھے نہ اس کے ساتھ بیٹھتے تھے (کیونکہ حضرت ابوسفیان کئی مرتبہ نبی ﷺ سے لڑا تھا اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا) ایک بار انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: اے اللہ کے نبی! تین باتیں مجھے عطا فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اچھا۔“ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے پاس وہ عورت ہے کہ تمام عربوں میں حسین اور خوبصورت ہے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا میری بیٹی، میں اس کا نکاح آپ سے کر دیتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اچھا۔“ دوسری یہ کہ میرے بیٹے معاویہ کو آپ اپنا کاتب بنائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اچھا۔“ تیسرے مجھ کو حکم دیجئیے مشرکین سے لڑوں (جیسے اسلام سے پہلے) مسلمانوں سے لڑتا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اچھا۔“۔ ابوزمیل نے کہا: اگر وہ ان باتوں کا سوال آپ ﷺ سے نہ کرتا تو آپ ﷺ نہ دیتے اس لئے کہ حضرت ابوسفیان جس جس بات کا سوال آپ ﷺ سے کرتے آپ ﷺ ہاں فرماتے اور قبول کرتے۔
تشریح: اس حدیث پر محدثین کے بہت سے اشکال موجود ہیں جیسے
1۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ مسلمان سیدنا ابوسفیان کی طرف نہ دیکھتے ہوں حالانکہ فتح مکہ میں سیدنا ابوسفیان پہلے مسلمان ہوئے تھے اور باقی مکہ کہ مشرکین بعد میں مسلمان ہوئے۔ سیدنا ابوسفیان کا گھر دارالامن نبی کریم ﷺ نے قرار دیا تھا، اُس سے کس نے نفرت کرنی تھی۔ ایک دن پہلے تک تو سیدنا ابو سفیان مکے والوں کے سردار تھے، پھر اچانک منہ نہ لگانا غلط متن ہے۔ انصار و مہاجرین تو ہر مسلمان سے اخلاق سے پیش آتے تھے تو اس میں صحابہ کرام کی بھی توہین ہے۔ اسلام لانے سے پہلے جو معزز تھا، اسلام لانے کے بعد اس کے اعزاز میں مزید اضافہ ہوگیا اسی لئے سیدنا عمر حضرت عباس و ابوسفیان کا اسلام لانے کے بعد از حد احترام کرتے تھے۔
2۔ نبی ﷺ کا سیدہ ام حبیبہ سے 6ھ میں حبشہ میں نکاح منعقد ہوا جبکہ سیدنا ابو سفیان کے ایمان لانے کا واقعہ 8 ھ کا ہے۔ دوسرا صلح حدیبیہ کے بعد جب حضرت ابوسفیان مدینہ منورہ اپنی بیٹی کے گھر بستر پر بیٹھنے لگے تو بیٹی نے بستر نیچے سے کھینچ لیا کیونکہ اس وقت حضرت ابوسفیان مسلمان نہیں تھے۔ ہوسکتا ہے کہ سیدنا ابو سفیان نے نبی کریم ﷺ سے تجدید نکاح کی عرض کی ہو مگر حدیث میں یہ بھی واضح نہیں ہے۔ سیدنا ابو سفیان نے سیدہ ام حبیبہ سے نہیں بلکہ ان کی بہن سیدہ عزہ سے نکاح کی بات کی تھی حالانکہ روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے ساری باتیں قبول کر لیں لیکن دو بہنوں سے نکاح حرام ہے، اسلئے ایسا نہیں ہوا۔
علامہ ابن کثیر البدایۃ و النہایۃ جلد ۴ صفحہ ۱۳۰ میں اس روایت کی بابت فرماتے ہیں کہ یہ ایک ایسی حدیث ہے جس کے باعث امام مسلم پر سخت اعتراضات کئے گئے ہیں۔
3۔ نبی کریم ﷺ کسی کو مانگنے پر عہدہ نہیں دیتے، اسلئے حضرت ابوسفیان کو کسی لڑائی میں عہدہ دینے کے بجائے انکو نجران کا عامل بنا کر بھیج دیا تھا۔ البتہ حضرت ابوسفیان غزوہ حنین میں شریک ہوئے اور ان کی ایک آنکھ تیر لگنے سے ضائع ہو گی اور جب یرموک کی لڑائی میں تیر لگا تو دوسری آنکھ بھی ضائع ہو گئی۔
4۔ اس روایت کے آخر میں راوی ابو زمیل کے الفاظ کہ اگر سیدنا ابو سفیان نبی ﷺ سے ان چیزوں کا مطالبہ نہ کرتے تو نبی ﷺ ان کو کبھی یہ چیزیں عطا نہ کرتے، یہ بات بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اس روایت میں جہاں تاریخی لحاظ سے کئی قباحتیں ہیں، وہاں اس کو درست ماننے سے سیدنا ابو سفیان، سیدنا معاویہ اور سیدہ ام حبیبہ اور صحابہ کرام پر بھی تبرا آتا ہے۔
حقیقت: یہ روایت شاذ ہے( یعنی ثقہ راوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی مخالفت کررہا ہے) اور نبی کریم ﷺ نے سیدہ ام حبیبہ سے فتح مکہ سے کافی پہلے نکاح کرلیا تھا جس وقت کہ سیدہ ام حبیبہؓ حبشہ میں تھیں۔ اسی طرح سیدنا ابو سفیان کو بغیر کسی سفارش کے ان کی قابلیت کے پیش نظر کوئی عہدہ طلب کرنے سے پہلے ہی ان کو نجران کا عامل بنا کر روانہ کردیا تھا اور یہی کچھ سیدنا معاویہ کے بارے میں بھی ہے کہ ان کو بھی بلا کسی سفارش کے اپنا کاتب مقرر فرمایا تھا۔
مزیداحادیث کی تحقیق
حدیث 1: میں علم کا شہر ہوں، ابوبکر اس کی بنیاد، عمر اس کی دیوار، عثمان اس کی چھت اور علی اس کا دروازہ ہے؟ (بخاری جلد 2، صفحہ 214)
جواب: صحیح بخاری میں ایسی کوئی حدیث نہیں ہے بلکہ یہ حدیث "تاریخ ابن عساکر” میں بلا اسناد روایت ذکر کی گئی ہے اور دیلمی رحمہ اللّٰہ صاحب "الفردوس” نے بغیر سند کے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نقل کی ہے: "أنا مدینۃ العلم وأبو بکر أساسھا، وعمر حیطانھا، وعثمان سقفھا، وعلی بابھا”۔ اسلئے یہ روایات شدید ضعیف ہیں۔
حدیث 2: ’’أنا مدینة العلم وعلي بابها‘‘ ، ’’أنا دار الحکمة وعلي بابها‘‘ ترجمہ:میں علم/ حکمت کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔
جواب: یہ حدیث جامع ترمذی، مستدرک حاکم اور دوسری کتابوں میں موجود ہے، البتہ امام ترمذی نے اس کو منکر کہاہے۔ اس حدیث کے بارے میں محدثین کی آراء مختلف ہیں، لیکن کچھ حضرات محدثین نے خصوصاً علامہ سیوطی اور علامہ سخاوی رحمتہ اللہ نے اس کو ثابت شدہ قرار دیا ہے۔ اس لیے اس حدیث کو بے اصل نہیں کہا جاسکتا، بلکہ فضائل میں بیان کرنے کی اجازت ہے۔
نتیجہ: حدیث 1 اور حدیث 2 دونوں ہی ضعیف ہیں مگر فضائل میں بیان کی جا سکتی ہیں۔
سوال: ضعیف حدیث کونسی ہوتی ہے؟
جواب: عام عوام کے لئے یہ مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اس کو سمجھ نہیں آنی۔
حدیث حسن: وہ حدیث ہے، جس کی سند میں درمیان سے کوئی راوی نہ چھوٹا ہو، بلکہ وہ حدیث واسطہ در واسطہ حضور ﷺ تک متصل ہو اور اس کے تمام راوی ثقہ معتبر ومعتمد اور عادل ہوں، مگر اُن میں سے ایک یا متعدد راویوں کی حفظ و یادداشت میں کچھ کمی ہو اور اس حدیث کا کوئی راوی حدیث بیان کرنے میں اپنے سے زیادہ قوی و معتمد راوی کی مخالفت بھی نہ کرتا ہو اور نہ ہی اس حدیث میں کوئی ایسا مخفی عیب ہو، جس سے اس حدیث کی صحت پر اثر پڑ رہا ہو۔
حدیث ضعیف: لغوی اعتبار سے "ضعیف” بمعنی کمزور ہے۔ اصطلاحی مفہوم میں”ضعیف” وہ حدیث ہے، جس میں حدیثِ حسن کی شرائط مکمل طور پر نہ پائی جاتی ہوں۔
جمہور علماء کے نزدیک ضعیف حدیث پر تین شرائط کے بعد عمل ہوسکتا ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اس کا ضعف اس درجہ کا نہ ہو کہ موضوع (من گھڑت) کی حد تک پہنچ جائے اور دوسری شرط یہ ہے کہ وہ کسی دوسری صحیح حدیث یا اصول دین سے متصادم نہ ہو اور تیسری شرط یہ ہے کہ وہ جو عمل اس حدیث سے ہم مستنبط کر رہے ہیں، یعنی کہ جس پر وہ ضعیف حدیث دلالت کر رہی ہے، اس عمل کو سنت نہ کہا جائے۔