
طُلَقَاء صحابہ کرام
نبی اکرم ﷺ نے مکہ مکرمہ میں تبلیغ کی، مشرکین مکہ ایمان نہیں لائے، اُس کے بعد مدینہ منورہ ہجرت کی، لڑائیاں لڑیں اور مشرکین مکہ مسلمان ہوتے گئے حتی کہ فتح مکہ کے روز چند ایک کے سوا سب کو معاف کیا اور مشرکین مکہ بھی صحابہ کرام بن گئے۔
لیکن تقیہ تبرا بدا کے ساتھ 14 اور 12 عقیدے والے اہلتشیع حضرات نہ تو مشرکین مکہ میں سے تھے کہ ان کو معافی ملتی اور نہ ہی نبی کریم کے اصحاب میں شامل ہوئے۔ تقیہ تبرا بدا کے ساتھ 14 اور 12 عقیدے والے اہلتشیع حضرات مولا علی کے ساتھ بھی نہیں رہے بلکہ شیعان علی ان کو کہا جاتا ہے جو حضرت علی کو حضرت عثمان پر فضیلت دیتے تھے مگر ان میں ایک بھی صحابی تقیہ تبرا بدا کے ساتھ 14 اور 12 عقیدے والا نہیں تھا۔
طُلَقَاء: اُن صحابہ کرام کے ساتھ بولا جاتا ہے جن کو نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے روز معافی دے دی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔
نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام نے کبھی بھی طُلَقَاء صحابہ کرام کو بُرا بھلا نہیں کہاجیسےآجکل ان کے خلاف بول کو عوام کو گمراہ کر رہے ہیں حالانکہ وہ صحابی ہیں جن کے بارے میں قرآن نے فرما دیا: سورہ حدید 10: تم میں فتح سے پہلے خرچ کرنے والے اور جہ اد کرنے والے برابر نہیں ہیں، وہ بعد میں خرچ کرنے والوں اور لڑنے والوں سے مرتبے میں بڑے ہیں اور ان سب سے اللہ نے سب سے اچھی چیز (جنت) کا وعدہ فرمالیا ہے اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔
درجاتِ صحابہ کرام: قرآن و سنت کے مطابق درجات میں افضل خلفائے اربعہ، عشرۂ مبشرہ، اصحابِ بدر، اصحابِ اُحد، اصحابِ بیعتِ رضوان، اہلِ بیت وغیرھم ہیں مگر طُلَقَاء صحابہ کرام بھی صحابہ میں شامل ہیں۔
حضرت معاویہ کے متعلق اہلسنت کا کہنا ہے کہ یہ طُلَقَاء صحابہ کرام میں شامل نہیں تھے بلکہ انہوں نے فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا، کبھی بھی نبی کریم ﷺ کے مقابلے میں نہیں آئے، اور فتح مکہ کے روز کھلم کھلا اسلام قبول کر لیا۔ اس کی دلیل اہلسنت عوام کے لئے یہ ہے:
صحیح بخاری 1730: امام بخاری كِتَاب الْحَجِّ، باب: احرام کھولتے وقت بال منڈوانا یا ترشوانا میں یہ حدیث لائے “حضرت معاویہ نے حضور ﷺ کے بال مبارک خود قینچی سے کاٹے۔”
ترمذی 816: نبی اکرم ﷺ نے چار عمرے کئے: حدیبیہ کا عمرہ، دوسرا عمرہ اگلے سال یعنی ذی قعدہ میں قضاء کا عمرہ، تیسرا عمرہ جعرانہ کا، چوتھا عمرہ جو اپنے حج کے ساتھ کیا۔ (صحیح بخاری 1778، صحیح مسلم 3033)
تشریح: نبی اکرمﷺ نے ایک عمرہ 6ھ میں کرنے کے لیے گئے جس سال صلح حدیبیہ ہوا تو مشرکین نے اجازت نہ دی ۔ مکہ میں ہی جانور ذبح کر لئے۔ دوسرا عمرہ آپ نے صلح حدیبیہ کے سال عمرہ القضاء میں جو 7 ھجری میں ادا فرمایا.تیسرا عمرہ آپ نے جعرانہ غزوہ حنین کے موقع پر کیا اور چوتھا عمرہ نبی کریم نے حج کے ساتھ کیا۔
اسلئے حضرت معاویہ کا غزوہ حنین کے موقع پر تو حضرت امیر معاویہؓ کا شامل ہونا بالکل ثابت نہیں تو باقی 7 ھ کا عمرہ یعنی صلح حدیبیہ کے سال عمرہ القضاء میں جو عمر ہ نبی اکرمﷺ نے ادا کیا اسی عمرے میں کے سال میں حضرت امیر معاویہ نبی اکرمﷺ کے مروہ کے مقام پر بال کاٹے تھے اور تب وہ مسلمان تھے البتہ انہوں نے اپنے قبولیت اسلام کا اعلان فتح مکہ کے دن کیا تھا۔
امام ذھبی تاریخ الاسلام میں فرماتے ہیں: حضرت معاویہ بن ابی سفیان یہ اپنے والد حضرت ابو سفیان سے پہلے اسلام قبول کر چک تھے عمرہ قضاء کے موقع پر لیکن یہ حضور اکرمﷺ کی طرف شامل ہونے سے اپنے والد سے ڈرتے تھے (تاریخ الاسلام ، برقم:95)
اور کہا گیا ہے کہ انہوں نے اسلام اپنے والد سے پہلے عمرہ قضاء کے موقع پر کر لیاتھا اور اپنے والد سے ڈرنے کے سبب نبی اکرمﷺ کی طرف نہ آئے لیکن انکا ظہور اسلام(کہ تمام لوگ انکے اسلام پر مطلع ہونا) سوائے یوم فتح کے دن نہیں ہوا. (سیر اعلام النبلاء، برقم:25)
امام ابن عبدالبر نے انکے بارے مکمل کلام یوں کیا ہے : حضرت امیر معاویہؓ ، انکے والد ، انکے بھائی فتح کے دن کے مسلمین میں سے ہیں اور حضرت امیر معاویہؓ سے روایت ہے کہ وہ یوم قضیہ (عمرہ) کے دن اسلام قبول کر گئے تھے اور جب یہ نبی اکرمﷺ سے (عمرہ قضاء کے موقع) پر ملے تو مسلمان تھے )الاستيعاب في معرفة الأصحاب، برقم: 2435) نتیجہ: کسی بھی صحابی کو طُلَقَاء کہہ کر ذلیل کرنے کا حُکم نہ تو نبی کریم کا ہے اور نہ مولا علی کا ہے۔ تقیہ تبرا بدا کے ساتھ 14 اور 12 عقیدے والے اہلتشیع حضرات کا دین اسلام نہیں ہے اور ان سے متاثر نام نہاد اہلسنت بھی ان کے دین پر چلے جائیں تو بہتر ہے تاکہ سب ایک ہو کر جہنم میں جائیں ورنہ اللہ کریم سے ہدایت مانگ لیں۔