نبی کریم ﷺ کے والدین کے متعلق ایک رپورٹ

نبی کریم ﷺ کے والدین کے متعلق ایک رپورٹ

 

نبی کریم ﷺ کے والدین کے متعلق اہلسنت کا قرآن و ضعیف احادیث سے یہ عقیدہ ہے کہ وہ جنتی ہیں اور اس پر یہ کتب موجود ہیں:
(1)..”شمول الإسلام لأصول الرسول الكرام” للمجدد الأعظم الإمام أحمد رضا خان, ت1340هـ
(2)..”مطلب في نجاة أبويه صلى الله عليه وسلم” للعلامة السيد محمد عبد الله الجرداني الشافعي, ت1331هـ
(3)..”الانتصار لوالدي النبي المختار” للإمام مرتضي الزبيدي, ت1205هـ
(4)..”حديقة الصفا في والدي المصطفى” للعلامة أبو محفوظ الكريم المعصومي الهندي, ت1430هـ
(5)..”منهاج السنة في كون أبوي النبي في الجنة” للعلامة ابن طولون الدمشقي الحنفي, ت953هـ
(6)..”رسالة في أبوي النبي” لأحمد بن سليمان بن كمال باشا, ت940هـ
(7)..”انباء الاصطفاء في حق آباء المصطفى” لمحمد بن قاسم بن يعقوب الأماسي, ت940هـ
(۸)..”تحقيق آمال الداجين في أن والدي المصطفى بفضل الله في الدارين من الناجين” للإمام ابن الجزار المصري, كان حياً سنة984هـ
(9)..”الجوهرة المضية في حق أبوي خير البرية” لصالح بن محمد تمرتاشي الغزي, ت1055هـ
(10)..”تأديب المتمردين في حق الأبوين” لعبد الأحد بن مصطفى السيواسي, ت1061هـ
(11)..”تحقيق النصرة للقول بإيمان أهل الفَترة”
(12)..”منحة البارئ في إصلاح زلة القارئ” كلاهما لحسن بن علي بن يحيى العجيمي المكي, ت1113هـ
(13)..”السرور والفرج في حياة إيمان والدي الرسول” لمحمد بن أبي بكر المرعشي ساجقلي, ت1150هـ
(14)..”تحفة الصفا فيما يتعلق بأبوي المصطفى” لأحمد بن عمر الديربي الغنيمي الأزهري الشافعي, ت1151هـ
(15)..”بسط اليدين لإكرام الأبوين” لمحمد غوث بن ناصر الدين المدراسي ت 1238هـ
(16)..”القول المسدد في نجاة والدي محمد” لمحمد بن عبد الرحمن الأهدل الحسيني ت 1258هـ.
امام سیوطی کے چھے رسائل:
(17)..مسالك الحنفاء في والدي المصطفى
(18)..الدرج المنيفة في الآباء الشريفة
(19)..المقامة السندسية في النسبة المصطفوية
(20)..التعظيم والمنة في أن أبوي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في الجنة
(21)..نشر العلمين المنيفين في إحياء الأبوين الشريفين
(22)..السبل الجلية في الآباء العلية.
مختصرا دلائل اہلسنت
رسول اللہ ﷺ کے والدین کریمین بلکہ حضرت آدم علیہ السلام تک آپ ﷺ کے تمام آباء و اُمّہات مومن ہیں، علماء نے اس کے اثبات کے لیے تین طریقے اختیار فرمائے:
اول: تمام حضرات، ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھے۔
دوم: یہ حضرات زمانہ ٔ فترت (یعنی اس دور کے لوگوں) میں سے تھے، جن کے لیے کسی نبی کی بعثت نہیں ہوئی تھی اوروہ کسی حکم شرع کے مُکلّف نہیں تھے،وہ صرف دینِ فطرت یعنی توحید باری تعالیٰ کے مُکلّف تھے اور اہلِ فترت پر عذاب نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمہ:’’ ہم اس وقت تک عذاب دینے والے نہیں ہیں ،حتّٰی کہ ہم رسول بھیج دیں، (بنی اسرائیل:15)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :ترجمہ:’’ اے اہلِ کتاب ! بے شک تمہارے پاس ہمارا رسول آگیا، جو انقطاعِ رُسل کی مدت کے بعد تمہارے لیے (احکامِ شرعیہ) بیان کرتا ہے، تاکہ تم یہ نہ کہو کہ تمھارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور ڈر سنانے والا نہیں آیا، پس تمھارے پاس بشارت دینے والا اورڈرانے والا (اللہ کا پیغام پہنچانے والا اور اس کے عذاب سے ڈرانے والا)آچکاہے اوراللہ ہرچیز پر قادر ہے، (سورۂ مائدہ:19)‘‘۔
شرعی اصطلاح میں دو نبیوں کے درمیان وہ زمانہ جس میں کوئی رسول نہیں آیا، اسے زمانۂ فترت کہتے ہیں ۔ترجمہ:’’ حضرت قتادہ ؓ ’’عَلٰی فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ‘‘کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں: حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور سیدنا محمد ﷺ کے درمیان زمانۂ فترت پانچ سو ساٹھ سال ہے ، (تفسیر طبری:11618)
سوم:رسول اللہ ﷺ کے والدین کریمین کو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی دعا سے دوبارہ زندگی عطا فرمائی اوروہ آپ پر ایمان لائے۔
علامہ ابوالقاسم عبدالرحمن بن عبداللہ السُہیلی مُتوفّٰی 581ھ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیا ن کرتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب سے اپنے والدین کو زندہ کرنے کا سوال کیا ،پس اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے انہیں زندہ کیا اور وہ دونوں آپ ﷺ پر ایمان لائے ،پھر اللہ تعالیٰ نے اُن پر موت طاری کردی۔اور اللہ ہر شے پر قادرہے اور اس کی رحمت وقدرت کسی چیز سے عاجز نہیں ہے اور نبی ﷺ اس کے اہل ہیں کہ وہ رب ذوالجلال آپ ﷺ کو جس وصف سے چاہے ،اپنے فضل سے خاص کرے اور اپنے کرم سے آپ کو جس نعمت سے چاہے ، نوازدے ،صَلَوَاتُ اللہِ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلّمَ (اَلرَّوْضُ الأَنف فِی شَرحِ السِّیْرَۃِ النَّبَوِیّۃ ،جلد2،ص:187)‘‘
رسول اللہ ﷺ کو بذریعۂ وحی آپ کے والدین کریمین کے جنتی ہونے کی خبر دے دی گئی تھی، سورۂ شعراء ،آیت:219کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: آپ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ:’’یعنی (اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اے رسولِ مکرمﷺ!) میں نے آپ کی روح کو ایک نبی سے دوسرے نبی کی پشت میں منتقل فرمایا، یہاں تک کہ آپ کو نبی بناکر پیدا کیا،(المعجم الکبیرللطبرانی:12021) ‘‘۔کثرت اَجِلّہ اہلسنت کا یہی مذہب ہے۔
علامہ قرطبی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ (تفسیر قرطبی، جلد 13، ص: 144)‘‘۔ان روایات سے اس امر پر استدلال مقصود ہے کہ آپ کے سلسلہ ٔ نسب میں انبیائے کرام گزرے ہیں اور آپ کے آباء واجداد سفاحت وکفر کی آلودگی سے پاک تھے۔
مشرکین کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ترجمہ: سب مشرکین نجس ہیں،(سورۂ توبہ: 28) ‘‘، رسول اللہ ﷺ کے آباء واجداد میں کوئی مشرک اس لیے بھی نہیں ہو سکتا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ترجمہ: ’’میرا (نورِ نبوت اور جوہر وجود ہر دور میں میرے آباء واجداد کی)پاک پشتوں سے (میری اُمَّہات وجَدَّات کے)پاک رحموں میں منتقل ہوتا رہا اور مشرک تو ہوتے ہی ناپاک ہیں،(اَلْمَوَاہِبُ اللَّدُنیَہ، جلد1، ص: 105، سُبُلُ الھُدیٰ وَالرِّشاد، جلد1، ص: 256)‘‘۔
لہٰذا رسول اللہ ﷺنے جو اپنے ان تمام آباء واجداد اور امّہات وجدّات کو طاہرین وطاہرات قرار دیا ہے، اس سے دونوں طرح کی طہارت مراد ہے، ایک سَفاحت سے پاکیزگی کہ سب کا تعلق باقاعدہ نکاح سے قائم ہوا، غیر اخلاقی اور غیرشرعی طریقے سے نہیں اور دوسرا شرک اور عقائدِ باطلہ سے پاکیزگی، غرض سورۂ توبہ: 28 میں جو مشرکین کو نجس قرار دیا گیا ہے، اس سے نجاست حسّی مراد نہیں ہے، بلکہ نجاستِ معنوی واعتقادی مرادہے، یعنی کفر وشرک، اسی طرح المواہب اللدنیہ وسبل الھُدی والرشاد کی باحوالہ حدیث میں جو رسول اللہ ﷺ کے آباء واجداد اوراُمّہات وجدّات کو بالترتیب طاہرین وطاہرات قرار دیا گیا ہے، اس سے بھی طہارت معنوی مراد ہے، یعنی کفر وشرک اورنفاق سے پاک ہونا۔
سب دیوبندی و بریلوی و اہلحدیث جماعتوں کے آرٹیکل، فتاوی، پڑھنے کے بعد:
احادیث نبوی کے مطابق
صحیح مسلم، كِتَاب الْإِيمَانِ، باب: جو شخص کفر پر مرے وہ جہنم میں جائے گا اور اس کی شفاعت نہ ہو گی اور بزرگوں کی بزرگی اس کے کچھ کام نہ آئے گی۔ حدیث نمبر 500: حضرت انس بیان کرتے ہیں، کہ ایک آدمی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! میرا باپ کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا: ” آگ میں“ جب وہ پشت پھیر کر چلا، تو آپ ﷺ نے اسے بلا کر فرمایا: ”میرا باپ اور تیرا باپ دونوں آگ میں ہیں۔
سنن ابو داود، حدیث نمبر: 4718: انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد کہاں ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارے والد جہنم میں ہیں“ جب وہ پیٹھ پھیر کر چلا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”میرے والد اور تیرے والد دونوں جہنم میں ہیں۔
سنن نسائی، كتاب الجنائز، باب: کافر و مشرک کی قبر کی زیارت کا بیان، حدیث نمبر 2036: ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی، تو آپ خود رو پڑے اور جو آپ کے اردگرد تھے انہیں بھی رلا دیا، اور فرمایا: ”میں نے اپنے رب سے اجازت چاہی کہ میں ان کے لیے مغفرت طلب کروں تو مجھے اجازت نہیں ملی، (تو پھر) میں نے ان کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت دے دی گئی، تم لوگ قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ تمہیں موت کی یاد دلاتی ہے۔
صحیح مسلم، باب: نبی کریم ﷺ کا اپنے رب سے اجازت طلب کرنا اپنی والدہ کی قبر دیکھنے کی، حدیث نمبر2258: میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کے استغفار کی اجازت مانگی تو اس نے مجھے اجازت نہیں دی اور میں نے اس سے ان کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت دے دی۔ حدیث نمبر 2259 : رسول اللہ ﷺ نے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی، آپ روئے اور اپنے اردگرد والوں کو بھی رلایا، پھر فرمایا: "میں نے اپنے رب سے اجازت مانگی کہ میں ان کے لئے بخشش کی طلب کروں تو مجھے اجازت نہیں دی گئی اور میں نے اجازت مانگی کہ میں ان کی قبر کی زیارت کروں تو اس نے مجھے اجازت دے دی، پس تم بھی قبروں کی زیارت کیاکرو کیونکہ وہ تمھیں موت کی یاددلاتی ہیں۔”(سنن ابوداود: 3234)
سنن ابن ماجہ، باب: کفار و مشرکین کی قبروں کی زیارت کا بیان، حدیث نمبر 1572: نبی اکرم ﷺ نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی تو آپ روئے، اور آپ کے گرد جو لوگ تھے انہیں بھی رلایا، اور فرمایا: ”میں نے اپنے رب سے اجازت مانگی کہ اپنی ماں کے لیے استغفار کروں، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کی اجازت نہیں دی، اور میں نے اپنے رب سے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی تو اس نے مجھے اجازت دے دی، لہٰذا تم قبروں کی زیارت کیا کرو اس لیے کہ وہ موت کو یاد دلاتی ہے۔
مسند احمد 3787: سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ملیکہ کے دونوں بیٹے ایک مرتبہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہماری والدہ اپنے شوہر کی بڑی عزت کرتی تھیں، بچوں پر بڑی مہربان تھیں، ان کی مہمان نوازی کا بھی انہوں نے تذکرہ کیا، البتہ زمانہ جاہلیت میں انہوں نے ایک بچی کو زندہ درگور کر دیا تھا؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تمہاری ماں جہنم میں ہے“، یہ سن کر وہ دونوں واپس جانے لگے اور ان دونوں کے چہروں سے ناگواری کے آثار واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے، پھر نبی ﷺکے حکم پر ان دونوں کو واپس بلایا گیا، چنانچہ جب وہ واپس آئے تو ان کے چہرے پر خوشی کے اثرات دیکھے جا سکتے تھے، کیونکہ انہیں یہ امید ہو چلی تھی کہ شاید ان کی والدہ کے متعلق کوئی نیا حکم نازل ہو گیا ہو، نبی ﷺنے ان سے فرمایا کہ میری ماں بھی تمہاری ماں کے ساتھ ہو گی۔
محدثین کا عقیدہ؟؟؟: ان صحیح و ضعیف احادیث، ان پر لکھے باب کو پڑھنے کے بعد عام آدمی یہی سمجھے گا کہ محدثین کا یہی عقیدہ تھا کہ نبی کریم ﷺ کے والدین جہنمی ہیں حالانکہ محدثین نےصرف احادیث اکٹھی کیں ہے، ان کا یہ عقیدہ نہیں تھا جیسے محدثین نے کتاب نماز کے مختلف باب میں نماز کی احادیث اکٹھی کیں مگر صحاح ستہ کے تمام محدثین نے خود ایک بھی طریقہ نماز ایجاد نہیں کیا۔
امام ابو حنیفہ کا عقیدہ؟؟؟: اگر کوئی کہتا ہے کہ امام ابوحنیفہ کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ نعوذ باللہ حضور ﷺ کے والدین مشرک اور جہنمی تھے تو بالکل حق نہیں ہے۔
محتاط: حضرت امام ابوحنیفہ اتنے محتاط امام ہیں کہ ان سے یزید کے متعلق پوچھا گیا تو خاموشی اختیار کی اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے والدین کے متعلق کچھ لکھ جائیں۔
مشہور ہے کہ ملا علی قاری نے شرح فقہ اکبر میں حضور ﷺ کے والدینِ کریمین کے متعلق فرمایا کہ ان کی موت ایمان کی حالت میں نہیں ہوئی۔
فقہ اکبر کی عبارت پڑھیں: (ووالدا رسول الله صلى الله عليه وسلم ماتا على الكفر) یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا کفر پر خاتمہ ہوا۔
اہلسنت کا موقف: (معاذ اللہ) اہلسنت کا کہنا یہ ہے کہ اس عبارت میں سمجھنے کی غلطی ہے یا تحریف کی گئی ہے یا کاتب کی غلطی ہے۔
صحیح عبارت: (ووالدا رسول الله صلى الله عليه وسلم ما ماتا على الكفر) یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کریمین کا خاتمہ کفر پر نہیں ہوا۔ اس پر چند ائمہ کا بیان:
امام زاہد کوثری فرماتے ہیں: الحمد للہ خود میں نے اور میرے دوستوں نے دار الکتب المصریہ میں موجود فقہ اکبر کے دو قدیم نسخوں میں ما ماتا کے الفاظ اور مکتبہ شیخ الاسلام کے دو قدیم نسخوں میں ماتا علی الفطرۃ کے الفاظ دیکھے ہیں اور ملا علی قاری نے جو شرح کی ہے وہ غلط نسخہ کی بنیاد پر ہے، یہ ان سے بے ادبی ہوگئی ہے اللہ کریم انھیں معاف فرمائے۔
عربی عبارت: (امام زاہد کوثری کی عبارت یہ ہے: وإني بحمد الله رأيت لفظ (ما ماتا) في نسختين بدار الكتب المصرية قديمتين كما رأى بعض أصدقائي لفظَي ½ما ماتا¼ و½ماتا على الفِطرة¼ في نسختين قديمتين بمكتبة شيخ الإسلام, وعليّ القاري بنى شرحَه على النسخة الخاطئة وأساء الأدب سامحه الله. (مقدمة "العالم والمتعلم” للكوثري ص:7))۔
علامہ طحطاوی فرماتے ہیں: وہ جو فقہ اکبر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا خاتمہ ایمان پر نہیں ہوا یہ امامِ اعظم کے خلاف سازش ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ فقہ اکبر کے مستند نسخوں میں ایسا کچھ بھی نہیں۔
عربی عبارت: (علامہ طحطاوی کی عبارت یہ ہے: وما في "الفقه الأكبر” من أن والدَيه صلى الله عليه وسلم ماتا على الكفر فمدسوس على الإمام, ويدل عليه أن النسخ المعتمدة منه ليس فيها شيء من ذلك. (حاشية الطحطاوي على الدر,كتاب النكاح, باب نكاح الكافر, ٢/٨٠)۔
شیخ محمد بن ابراہیم بیجوری متوفی 1276 فرماتے ہیں: یہ امامِ اعظم کے خلاف سازش ہے ان کا دامن اس بات سے بری ہے اور ملا علی قاری (اللہ انکی مغفرت کرے) سے غلطی ہوئی کہ ایسا شنیع کلمہ کہا۔
عربی عبارت: (علامہ بیجوری کی عبارت یہ ہے: ما نقل عن أبي حنيفة في "الفقه الأكبر” من أن والدَي المصطفى ماتا على الكفر فمدسوس عليه، وحاشاه أن يقول ذلك. وغلط ملا علي القاري غفر الله له في كلمة شنيعة قالها. (تحفة المريد شرح جوهرة التوحيد ص:69ـ)۔
عبارت کا سقم: ملا علی قاری نے جو متن اختیار کیا ہے اسکی پوری عبارت یہ ہے: (ووالدا رسول الله صلى الله عليه وسلم ماتا على الكفر وأبو طالب عمّه مات كافراً) یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا خاتمہ کفر پر ہوا اور ابو طالب حضور کا چچا بھی کفر پر مرا۔ حالانکہ صحیح عبارت یہ ہے: (ووالدا رسول الله صلى الله عليه وسلم ما ماتا على الكفر) (وأبو طالب عمّه مات كافراً)
عبارت میں تحریف کیوں؟
امام زاہد کوثری فرماتے ہیں: بعض نسخوں میں (ماتا على الفطرة) ہےاور½الفطرة¼ کا رسم الخط ½الكفر¼ سے ملتا جلتا ہے لہذا یہ خطِ کوفی میں باآسانی ½الكفر¼ میں تحریف وتبدیل ہو سکتا ہے۔ (امام زاہد کوثری کی عبارت یہ ہے: ففي بعض تلك النسخ: (ماتا على الفطرة) و½الفطرة¼ سهلة التحريف إلى ½الكفر¼ في الخط الكوفي. (مقدمة "العالم والمتعلم” للكوثري ص:7))۔
حافظ علامہ محمد مرتضٰی زبیدی (شارح احیاء العلوم وقاموس) اپنے رسالے "الإنتصار لِوالدَي النبي المختار” میں فرماتے ہیں:میں نے ہمارے شیخ احمد بن مصطفٰی عمری حلبی مفتیِ لشکر ، عالمِ معمر کے ہاں جو کچھ لکھا ہوا دیکھا اسکا معنی ومفہوم کچھ اس طرح ہے کہ: ناسخ وکاتب نے جب لفظ ما ماتا میں ما کا تکرار دیکھا تو یہ گمان کیا کہ ایک ما زائد ہو گیا ہے لہذا اسے حذف کردیا پھر یہ غلط عبارت والا نسخہ پھیل گیا۔ اور اسکے غلط ہونے پر دلیل سیاق ِ خبر ہے کیونکہ اگر ابو طالب وابوین کریمین ایک ہی حالت (یعنی کفر) پر ہوتے تو مصنف ایک ہی جملہ کہہ کر تینوں کو ایک ہی حکم میں جمع فرماتےنہ یہ کہ دو جملوں میں تذکرہ کرتے باوجود یہ کہ ان تینوں کے حکم میں کوئی تخالف نہ ہوتا( حافظ علامہ محمد مرتضٰی زبیدی کی عبارت یہ ہے: وكنتُ رأيتها بخطه عند شيخنا أحمد بن مصطفى العمري الحلبي مفتي العسكر العالم المعمر ما معناه: إن الناسخ لمّا رأى تكرُّر ½ما¼ في ½ما ماتا¼ ظن أن إحداهما زائدة فحذفها فذاعت نسختُه الخاطئة، ومن الدليل على ذلك سياق الخبر لأن أبا طالب والأبوين لو كانوا جميعاً على حالة واحدة لجمع الثلاثة في الحكم بجملة واحدة لا بجملتين مع عدم التخالف بينهم في الحكم. (مقدمة "العالم والمتعلم” للكوثري ص:7)۔
ملا علی قاری کا اپنے موقف سے رجوع: ملا علی قاری علیہ رحمۃ الباری نے اپنے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا اور ابوین کریمین کے ثبوتِ ایمان کے قائل ہو گئے تھے چنانچہ خود شرح شفا میں فرماتے ہیں: (وأما إسلام أبويه ففيه أقوال، والأصح إسلامهما على ما اتفق عليه الأجلّة من الأمة كما بينه السيوطي في رسائله الثلاث المؤلفة). ("شرح الشفا” للقاري, 1/605) یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے ایمان کے بارے میں چند اقوال ہیں اور سب سے صحیح قول انکے اسلام کا ہے جس پر امت کے جلیل القدر علماء کا اتفاق ہے جیسا کہ امام سیوطی نے اپنے تین رسالوں میں بیان فرمایا۔
اسی شرح شفا میں ایک اور جگہ ملا علی قاری فرماتے ہیں: (وأما ما ذكروا من إحيائه عليه الصلاة والسلام أبويَه فالأصح أنه وقع على ما عليه الجُمهور الثقات، كما قال السيوطي في رسائله الثلاث المؤلفات). ("شرح الشفا” للقاري, 1/651) یعنی یہ جو ذکر کیا گیا ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے والدین کو (انکے انتقال کے بعد) زندہ فرمایا (اور پھر وہ آپ علیہ السلام پر ایمان لائے) یہ درست ہے اور اسی بات پر جمہور ثقات متفق ہیں جیسا کہ سیوطی نے اپنے تصنیف کردہ تین رسائل میں فرمایا۔
نوٹ: ملا علی قاری شرح شفا کی تالیف سے 1011ھ میں فارغ ہوئے یعنی اپنی وفات سے صرف تین سال پہلے، لہذا یہ انکی آخری تالیفات میں سے ہے۔
رائے:
دیوبندی و بریلوی و اہلحدیث حضرات تمام کے تمام اس بات پر متفق ہیں کہ اس مسئلے میں خاموشی اختیار کرنی چاہئے اور ان احادیث کو بیان نہیں کرنا چاہئے۔
البتہ اہلحدیث حضرات صحیح احادیث کو مانتے ہیں اسلئے لکھتے بھی ہیں کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ما كانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذينَ ءامَنوا أَن يَستَغفِر‌وا لِلمُشرِ‌كينَ وَلَو كانوا أُولى قُر‌بىٰ ترجمہ: نبی اور مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکوں کےحق میں دعا بخشش مانگیں۔ چاہے وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں لیکن بہتر ہے کہ اس معاملے میں زیادہ بحث مباحثہ نہ ہی کیا جائے-
قرآن میں الله کا ارشاد ہے: تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ترجمہ: وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی ان کے لیے ان کے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں اور تم سے ان کے اعمال کی نسبت نہیں پوچھا جائے گا-
ذاتی رائے
جب کسی پر الزام لگایا جاتا ہے تو مکمل دلائل دئے جاتے ہیں، اگر مکمل دلائل نہ دئے جائیں تو یہ بد دیانتی ہوتی ہے اور الزام لگانے والے کو دُرے پڑنے چاہئیں۔
امام ابوحنیفہ کے متعلق گستاخی کرنے والے کا انجام ان شا اللہ اچھا نہیں ہو گا کیونکہ جس کو اللہ کریم ڈھیل دیتا ہے، یہ اُس کی جہنم میں جانے کی علامت ہے اور اللہ کریم کی مخلوق اور نبی کریم ﷺ کی امت کو گمراہ کرنے والا خود امت سے خارج ہو جاتا ہے۔
یہ چالیں رافضی و خارجی لوگوں کی ہیں ان میں سے کچھ چچا ابوطالب کے ایمان کو ثابت کرنے کے چکر میں یہ تحریفات کرتے ہیں، کچھ یزید کو رضی اللہ عنہ بنانے کے چکر میں کرتے ہیں حالانکہ اہلسنت کا موقف بالکل واضح ہے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general