
کیا واقعی قرآن جلایا گیا؟
قرآن جلانے کا مطلب یہ لیا جائے کہ قرآن ہی جلا دیا گیا اور کسی اور جگہ لکھا ہوا قرآن کتابی شکل میں موجود نہ تھا تو اُس پر سوال پیدا ہو گا کہ کیا کتابی شکل میں آجکل موجودہ قرآن وہی نہیں ہے، جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ کریم نے لیا ہے، اصل حقائق قرآن کو جلانے کے یہ ہیں:
الله تعالی سورة يوسف آیت 2 اور سورة الشعراء آيت 195 میں فرماتا ہے: قرآنا عربيا یعنی قرآن واضح عربی زبان میں نازل ہوا۔
صحیح بخاری 4991 : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مجھ کو عرب کے ایک ہی محاورے پر قرآن پڑھایا اور مجھے اس میں سختی محسوس ہوئی تو اجازت مانگی جس پر مجھے سات محاوروں میں پڑھنے کی اجازت مل گئی۔
مثال: پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ سے صوبہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں نکلتے جائیں، زبان بدلتی جائے گی، اسی طرح عرب کے مختلف قبائل کی زبان میں فرق تھا۔ اسلئے آپ ﷺ نے عربوں کے لئے مختلف قراءت کا سوال کیا اور پھر آپ کو سات محاوروں کی اجازت ملی، البتہ اختلاف نبی کریم ﷺ کے دور میں بھی قراءت پر ہوا مگر صحابہ کرام کو سمجھا دیا گیا جیسے:
صحیح بخاری 4992 : حضرت عمر نے ہشام بن حکیم کو نماز میں سورۃ الفرقان کی قرآت کو غور سے سنا تو وہ سورت میں ایسے حروف سے پڑھ رہے تھے کہ حضرت عمر کو اس طرح نبی کریم ﷺنے نہیں پڑھایا تھا، جب حضرت عمر نے ہشام سے پوچھا کہ سورت فرقان کی تلاوت کا یہ طریقہ تمہیں کس نے سکھایا؟
ہشام نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے، حضرت عمر نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، مجھے اس طرح پڑھائی ہے، دونوں حضور ﷺ کے پاس آئے، حضرت عمر نے عرض کی کہ یہ اسطرح قرآن پڑھ رہا تھا تو آپ ﷺ نے دونوں کو سورت فرقان پڑھنے کو فرمایا اور دونوں کے طریقے کو ٹھیک قرار دیتے ہوئے فرمایا: یہ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے پس تمہیں جس طرح آسان ہو پڑھو۔
پرابلم: سیدنا عثمان کے دور میں صحابہ کرام پھیل گئے، سات قراءت یا حروف پر تکرار شروع ہو گئی۔ ایک کہتا تو غلط ہے اور دوسرا کہتا تو غلط ہے۔ اس پر یہ مشورہ ہوا کہ اس فتنے کو دور کرنے کے لئے قرآن پاک کو قریش کے لہجہ میں جمع کر دیا جائے:
صحیح بخاری 4987 : حضرت حذیفہ، امیرالمؤمنین حضرت عثمان کے پاس آئے اور حضرت حذیفہ قرآن مجید کی قرآت کے اختلاف کی وجہ سے بہت پریشان تھے، انہوں نے حضرت عثمان سے عرض کی کہ اس سے پہلے کہ نبی کریم ﷺکی امت یہود و نصاری کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف کرنے لگے، آپ کچھ کیجئے۔ حضرت عثمان نے حضرت ابوبکر صدیق کے دور کا (صحیح بخاری 4986: قرآن کو اکٹھا کر کے نام “مصحف“ رکھا گیا جو سیدنا ابوبکر کے پاس، اُس کے بعد سیدنا عمر فاروق اور پھر اُن کی بیٹی سیدہ حفصہ کے پاس رہا) اکٹھا کیا ہوا قرآن سیدہ حفصہ سے منگوایا، حضرت عثمان نے حضرات زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعد بن العاص، عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ ان صحیفوں کو مصحفوں میں نقل کر لیں۔
حضرت عثمان نے اس جماعت کے تین قریشی صحابیوں سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کا قرآن مجید کے کسی لفظ کے سلسلے میں حضرت زید سے اختلاف ہو تو اسے قریش ہی کی زبان کے مطابق لکھ لیں کیونکہ قرآن مجید بھی قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا تھا۔
چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور جب تمام صحیفے مختلف نسخوں میں نقل کر لیے گئے تو حضرت عثمان نے ان صحیفوں کو واپس لوٹا دیا اور اپنی سلطنت کے ہر علاقہ میں نقل شدہ مصحف کا ایک ایک نسخہ بھیجوا دیا اور حکم دیا کے اس کے سوا کوئی چیز اگر قرآن کی طرف منسوب کی جاتی ہے خواہ وہ کسی صحیفہ یا مصحف میں ہو تو اسے جلا دیا جائے۔
فرمان سیدنا علی قرات پر اکٹھا کرنے کے متعلق: اگر حضرت عثمان کی جگہ پر میں حکمران ہوتا تو میں بھی وہی کچھ کرتا جو حضرت عثمان نے کیا ہے۔”(تفسیر قرطبی: 1؍54)
ابن ابی داؤد کی روایت، حضرت علی نے فرمایا: حضرت عثمان کے متعلق سوائے بھلائی کی بات کے، کچھ نہ کہو۔ اللہ کی قسم !اُنہوں نے جو کچھ کیا، ہمارے مشورے سے کیا۔ اُنہوں نے ہم سے پوچھا تھا: ان قراءت کے متعلق تم کیا کہتے ہو؟ کیونکہ مجھے اطلاعات مل رہی ہیں کہ کچھ لوگ ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں کہ میری قراءت تمہاری قراءت سے زیادہ بہتر ہے، حالانکہ یہ بات کفر تک پہنچا سکتی ہے۔ ہم نے کہا: آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا: میری رائے یہ ہے کہ ہم سب لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیں تاکہ پھر کوئی افتراق اور اختلاف نہ ہو ۔ہم نے کہا: آپکی رائے بہت شاندار ہے۔ (فتح الباری (9,18
پراپیگنڈا کا خاتمہ
1۔ قرآن کے تمام نُسخے جلانے کا حُکم فتنہ پھیلانے والے منافقین کی روک تھام کے لئے تھا ورنہ آج قرآن کو جلانے کا کہنے والوں نے نُسخوں پر لڑائی کراتے رہنا تھا۔
2۔ قرآن کو لپیٹ کر زمین میں دبانے کا حُکم بھی دے دیتے تو یہی شیاطین نے مٹی سے نکال کر رولا ڈالنا تھا۔
3۔ تمام صحابہ کرام و اہلبیت میں سے کسی کو قرآن جلانے کا درد نہ ہوا تو یہ درد منگھڑت دین والوں کو کیوں ہوا؟
4۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ کاغذ کو دھو کر سیاہی علیحدہ کر کے مٹی میں دبا دی گئی اور خالی کاغذ جلایا گیا۔
5۔ قرآنِ مجید سات قراءتوں پر پڑھنا جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اپنے علاقے کی مشہور قراءت میں پڑھا جائے تاکہ عوام الناس غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔
6۔ منگھڑت دین والوں کو صفائیاں تو تب دیں جب یہ ثابت کریں کہ ان کا دین اسلام ہے ورنہ ان کا دین تو امام باقر و جعفر سے منسوب اقوال جو منگھڑت کوفی راویوں مفصل زرارہ محمد بن مسلم، ابو بریدہ، ابو بصیر، شاہین، حمران، جیکر مومن طاق، امان بن تغلب اور معاویہ بن عمار سے منگھڑت دین والوں نے اکٹھے کئے،
اسلئے یہ دین پنجتن والا ہے ہی نہیں کیونکہ کربلہ تک تو کوئی ایک بھی تقیہ تبرا بدا کے ساتھ 14 اور 12 عقیدے والے اہلتشیع حضرات نہیں تھے۔ یہ اہلبیت کے لبادے میں چھپے ہوئے۔۔ ہیں۔