بکرا ذبح ہو گیا

بکرا ذبح ہو گیا

(1) مسلمان عورت اور مرد ”دونوں“ ذبح کر سکتے ہیں اگرچہ گناہ گار (فاسق) ہی کیوں نہ ہوں، صحیح اہل کتاب (عیسائی) بھی تکبیر پڑھ کرجانور ”ذبح“ کر سکتے ہیں لیکن کافر،مرتدیا مجوسی نہیں۔
(2) ذبح کرنے والا بسم اللہ اللہ اکبر کہے۔ البتہ اگر کوئی تکبیرکہنا ”بُھول“ جائے تو جانور کی قربانی ہو جائے گی۔
(3) جانور کی چار یا تین ”رگیں“ ضرورکٹنی چاہئیں اور اگر دو”رگیں“کٹیں تو جانور حرام ہے۔
(4) اس کے علاوہ رگیں کٹنے پر ”جانور“ سے خون نکلنا چاہئے کیونکہ مُردہ جانور سے خون نہیں نکلتا اور جس جانور سے ”خون“ نہیں نکلا وہ جانور مُردہ ہے اور مُردار”حرام“ ہے۔ اگر مشین سے ذبح کرتے وقت بھی یہ تین شرطیں پوری ہو جاتی ہیں توجانور حلال ہے۔
تجربہ: احادیث میں جانور کی گھنڈی کا ذکر نہیں ہے بلکہ تین رگیں کٹ جائیں تو جانور ذبح ہو جاتا ہے۔
کچھ قصائی جانور کو ذبح کر کے جلدی سے”منکہ“ توڑ دیتے ہیں اوریہ عمل ”مکروہ تحریمی“ ہے، قربانی ہوجائے گی مگر منکہ توڑنے سے ثواب کم ہو گا۔
اگر جانور کا منہ قبلہ رُخ نہ رہا تب بھی ذبح ہو گیا لیکن بہتر ہے کہ جانور کا منہ قبلہ رُخ ہو۔
کوئی جانور دیوار کے نیچے آ کر دب جائے یا مٹی میں دفن ہو کر مرنے لگے تو بسم اللہ پڑھ کر جہاں مرضی تیز دھار آلہ ماریں تاکہ اس کا خون نکل جائے تو جانور ذبح ہو گیا۔
جانور کی اوجھڑی اور کپورے
1۔ سنن الکبری للبیہقی 19702: رسول اللہ ﷺنے ذبیحہ جانور کے سات اعضاء (1) مرارہ یعنی پتہ (2) پیشاب والا مثانہ (3) نر و مادہ کی شرمگاہ (4) عضو تناسل یعنی نر کا مادہ سے صحبت کرنے والا آلہ (5) خصیے یعنی کپورے (6) غدود وہ گوشت جو جلد اور گوشت کے درمیان گلٹی بیماری کی وجہ سے بنتی ہے اور (7) ذبح کے وقت بہتا ہوا خون کو مکروہ فرمایا۔ (مزید المعجم الاسط للطبرانی 9480 میں عبداللہ بن عمر اور مصنف عبدالرزاق 8771 میں مجاہد بن جبر تابعی راوی)۔
2۔ بہتا ہوا خون تو نص قطعی قرآن سورہ الانعام 145 کی وجہ سے حرام ہے اور باقی چھ اجزاء سورہ الاعراف 157 کی ظاہری نص ”وہ (رسول) ستھری چیزیں ان کے لئے حلال فرماتے اور گندی چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں“ کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہیں۔
3۔ دیوبندی اور بریلوی علماء دونوں بہتے ہوئے خون کو حرام اور باقی چھ اجزاء کو مکروہ تحریمی کہتے ہیں۔
البتہ بریلوی عالم جناب احمد رضا خاں صاحب کا اجتہاد ہے کہ جب حضور ﷺ نے جانور کے مثانے کو مکروہ کہا جہاں جانور کا پیشاب (نجاست خفیفہ) ہوتاہے تو اوجھڑی میں تو جانور کا پاخانہ (نجاست غلیظہ)ہے، اسلئے مثانے کی طرح اوجھڑی آنتیں بھی مکروہ تحریمی ہیں۔
منکر ضعیف احادیث: اہلحدیث حضرات کے نزدیک اہلسنت کی احادیث ضعیف ہیں، اسلئے صرف بہتا ہوا خون حرام ہے اور باقی چھ اجزاء (1) مرارہ یعنی پتہ (2) پیشاب والا مثانہ (3) نر و مادہ کی شرمگاہ (4) عضو تناسل یعنی نر کا مادہ سے صحبت کرنے والا آلہ (5) خصیے یعنی کپورے (6) غدود بالکل حرام نہیں۔
مزید اہلحدیث حضرات کا فتوی ہے کہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا بول و براز نجس یعنی ناپاک نہیں ہے۔
مذاق: اہلسنت حضرات کو یہ مذاق نہیں بنانا چاہئے کہ حلال جانوروں کا بول و براز اور چھ گندی چیزیں پاک ہیں تومزے سے کھاؤ کیونکہ اہلحدیث نے حدیث سے اجتہاد کیا ہے۔اسی طرح اہلسنت کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کا پیشاب و پاخانہ بھی پاک ہے تو وہ کھانے پینے کیلئے نہیں کہتے بلکہ حضور ﷺ کی نسبت کی وجہ سے کہتے ہیں اور اتفاقیہ طور پر کسی صحابی یا صحابیہ نے پی لیا تو اہلحدیث جماعت کا مثال دے کر کہنا بھی غلط ہے کہ کہ کیا صحابہ کرام حضور ﷺ کا پیشاب پیتے تھے کیونکہ ایسا ہر گز نہیں تھا۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general