قربانی کس پر ہے؟

قربانی کس پر ہے؟

 

صحيح ابن ماجه2549: من كانَ لَه سَعةٌ ولم يضحِّ فلا يقربنَّ مصلَّانا ترجمہ: جس کو قربانی دینے کی گنجائش ہو اور وہ قربانی نہ دے تو وہ ہمارے عید گاہ میں نہ آئے۔
صحیح مسلم 2564: اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں کو نہیں دیکھتا نہ تمہاری صورتوں کو لیکن وہ تمہارے دلوں کی طرف دیکھتا ہے۔“ اور آپ نے اپنی انگلیوں سے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا۔
وضاحت: ہر مسلمان عورت و مرد، جن کے پاس اپنے روزانہ اور ماہانہ کی بنیاد گھر کا خرچہ، بچوں کی فیسیں، یوٹیلٹی بلز وغیرہ نکال کر قربانی کر سکتا ہے یا بڑے جانور میں قربانی کا حصہ ڈال سکتا ہے تو اُس کی قربانی اللہ کریم قبول فرمائے گا کیونکہ ہر مسلمان کی نظر میں یہ احادیث ہوتی ہیں:
ترمذی 1507: رسول اللہ ﷺ مدینہ میں دس سال مقیم رہے اور آپ (ہر سال) قربانی کرتے رہے۔
ترمذی 1493: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہانا ہے، قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنی سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیں گے قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے، اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو“۔
ابوداود 1765: اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر ہے۔
مزید وضاحت: صاحب استطاعت وہ ہے جس کے پاس سو درہم یعنی مناسب رقم ہو یا پھر اس قدر مال کا مالک ہو کہ رہنے کا مکان، پہننے کے کپڑوں اور ضروری کار آمد اشیاء کے علاوہ دو سو درہم کی مالیت کا سامان ہو یا اتنا سامانِ تجارت ہو جس سے کا م چلایا جاسکے تو بھی قربانی لازم ہے یا اتنی آمدنی ہو کہ معمولی گزر بسر کے بعد بقدر نصاب بچ جائے۔ یہ بھی ایک رائے ہے کہ اس کے کاروبار سے اتنی آمدنی ہو کہ ایک مہینے کا خرچ، خوراک نکل آئے اگرچہ سامانِ خانہ وقف کا ہو تو بھی قربانی واجب ہے۔ (جزیری، کتاب الفقه، مباحث الأضحیة، 1: 716) آزاد مسلمان جب اپنی رہائش، لباس، گھوڑے، ہتھیار اور غلام وغیرہ سے زائد نصاب کا مالک ہو تو قربانی واجب ہے۔ (مرغینانی، الهدایة، کتاب الزکاة، باب صدقة الفطر، 1: 115)
ایک بکرا اور سارے گھر کی قربانی؟
ابن ماجہ 3123: حضور ﷺ کا فرمان ہے جو صاحب حیثیت ہونے کے باجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے، اسلئے اہلسنت کے نزدیک ہر عورت اور مرد پر نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ کی طرح قربانی بھی واجب ہے۔
البتہ ”اہلحدیث“ کا موقف ہے کہ اگر ایک بکرا ہو تو خاندان کے سارے گھر والوں کے لئے کافی ہو گا۔اہلسنت کے دلائل یہ ہیں:
1۔ ابن ماجہ 3136:”حضور ﷺ سے ایک صحابی نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ میرے ذمہ ایک اونٹ کی قربانی ہے، میں اس کی استطاعت رکھتا ہوں، جب کے مجھے خریدنے کے لئے اونٹ نہیں مل رہا تو حضور ﷺ نے انہیں حکم فرمایا کہ وہ سات بکریاں خریدیں اور انہیں ذبح کریں“۔
یہ دلیل ہے کہ ایک بکرا اگر ایک گھر کی طرف سے کافی ہے تو پھر سات بکریاں قربان کرنے کا حُکم کیوں دیا گیا۔
2۔ صحیح بخاری 5559: سیدنا ابو موسی اشعری نے اپنی صاحبزادیوں کوفرمایا کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھوں سے ذبح کریں۔“
اگر باپ کی طرف سے قربانی پورے خاندان کے لئے کافی ہے تو حضرت ابو موسی اشعری اپنی بیٹیوں کو کیوں فرماتے کہ اپنی قربانی خود ذبح کرو۔
3۔ سنن البیہقی 19636: حضور ﷺ نے فرمایا: اے فاطمہ اُٹھو اور اپنی قربانی کے موقع پر موجود رہو اور ترمذی 1495 میں ہے کہ حضرت علی اپنی جانب سے ایک دنبے کی قربانی کیا کرتے تھے۔“ اگر ایک ہی قربانی میاں بیوی کی طرف سے ہوتی تو پھر دو کیوں کی جاتی رہیں۔
4۔ ترمذی 1502:”صلح حدیبیہ کے موقعہ پر بھی حضور ﷺ نے ایک اونٹ بھی 7 لوگوں کی طرف سے اور ایک گائے بھی 7 لوگوں کی طرف سے ذبح کی“ لیکن ایک بکرا فیملی کی طرف سے نہیں کیا۔
اہلحدیث کا موقف ہے کہ ابوداود 2810 میں ہے کہ حضور ﷺ ایک بکرا اپنی طرف سے کرتے اور ایک بکرا اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے کرتے جنہوں نے قربانی نہیں کی۔ ابن ماجہ 3122: حضور ﷺ ایک مینڈھا اپنی امت کے ان لوگوں کے لئے ذبح فرماتے جنہوں نے اللہ کے لئے توحید کی گواہی دی اور دوسرا خود اپنی جانب سے اور اپنی آل پاک کی جانب سے ذبح فرماتے۔
ترمذی 1505: ایک شخص کے سوال کے جواب میں کہ حضور ﷺ کے دور میں قربانیاں کیسی ہوتی تھیں تو حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مرد اپنی اور اپنے گھر والوں کی جانب سے بکری قربانی کرتا۔۔ یہاں تک کہ لوگ فخر کرنے لگے پھر بات ایسی ہو گئی جو تم دیکھ رہے ہو۔
اہلسنت کی تشریح: ابن ماجہ 2810 اور ترمذی 1505 کی شرح میں لکھا ہے کہ تمام امت کی جانب سے ایک جانور ذبح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی امت کو ثواب میں شریک فرمایا ورنہ کسی ایک حدیث میں یہ نہیں لکھا کہ ایک بکرے میں 7 حصے ہوتے ہیں جیسے ابوداود 2807 میں ہے کہ گائے اور اونٹ میں 7 حصے ہوتے ہیں۔ امام نووی نے بھی فرمایا علماء کا اتفاق ہے کہ ایک بکرے کی قربانی میں شرکت درست نہیں ہے۔
فائدہ: تمام امت سے سوال ہے کہ ہر مرد و عورت کا اپنی اپنی قربانی کی عبادت ادا کرنے کا فائدہ ہے یا نقصان ہے۔ اگر اہلحدیث کے دلائل مان لئے جاتے ہیں تو گھر کے کئی صاحب استطاعت افراد قربانی سے محروم رہ جاتے ہیں
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general