ناقص قربانی کے جانور

ناقص قربانی کے جانور

حضور ﷺنے چار انگلیوں سے اشارہ کیا اور فرمایا: ”چار طرح کے جانور قربانی کے لائق نہیں ہیں، ایک کانا جس کا کانا پن بالکل ظاہر ہو، دوسرے بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو، تیسرے لنگڑا جس کا لنگڑا پن بالکل واضح ہو، اور چوتھے دبلا بوڑھا کمزور جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو“، میں نے کہا: مجھے قربانی کے لیے وہ جانور بھی برا لگتا ہے جس کے دانت میں نقص ہو، آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو تمہیں ناپسند ہو اس کو چھوڑ دو لیکن کسی اور پر اس کو حرام نہ کرو“۔ (سنن ابوداود 2802)
نبی کریم ﷺ نے سینگ ٹوٹے (جڑ سے ٹوٹے) اور کان کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔ (ابو داود 2805)
حاملہ جانور: حضور ﷺ نے حاملہ جانور کی قربانی کو نقص میں شمار نہیں فرمایا بلکہ نقص ابوداود حدیث 2802 کے مطابق چار ہیں۔
حضرت ابو سعید خدری نے رسول اللہ ﷺ سے اس بچے کے بارے میں پوچھا جو ماں کے پیٹ سے ذبح کرنے کے بعد نکلتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر چاہو تو اسے کھالو۔ اور ایک روایت میں ہے کہ چاہو تو اسے کھا ؤ کیونکہ ماں کے ذبح کرنے سے وہ بھی ذبح ہو جاتا ہے۔ (ابو داود 2827، ترمذی 1746)
1 ۔ اگر قربانی کے وقت میں علم ہو جائے کہ جانور حاملہ ہے اور اس کے پیٹ میں بچہ ہے تو اس جانور کو رکھ لیں تاکہ وہ بچہ پیدا کر لے یا اُس کو فروخت کر دیں اور اتنی ہی قیمت یا اس سے زیادہ قیمت کا کوئی دوسرا جانور خرید لیں تو یہ بہتر ہے۔
2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ حاملہ جانور کی قربانی کر لیں۔ اگر ذبح کے بعد اُس کے پیٹ سے زندہ بچہ نکل آیا تو اس کو بھی امام ابو حنیفہ کے نزدیک ذبح کر کے کھانا جائز ہے۔ اگرمردہ بچہ نکلا تو وہ مردار ہے اس کو پھینک دیں۔ اگر بچہ زندہ نکلا اور قربانی کے دنوں میں بچہ ذبح نہیں کیا تو قربانی کے دن گذار کر اس کو زندہ صدقہ کر دیں۔ ایسا بچہ دوسرے سال کی قربانی کے لئے قابل قبول نہیں ہو گا۔
3۔ اہلحدیث حضرات کا ابو داود 2827 سے یہی موقف ہے کہ ماں کو ذبح کرنے کے بعد اگر مردہ حالت میں بچہ باہر آئے تو اسے کھایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اپنی ماں کے ذبح ہونے سے خود بھی ذبح ہو چکا ہے حالانکہ حدیث اپنی جگہ ٹھیک ہے تو کیا مردار کھانا پھر جائز ہوا اور امام ابوحنیفہ کا قول قرآن کی وجہ سے بہتر ہے کہ تم پر مردار حرام کیاگیا ہے۔
خصی جانور: خصی جانور کی قربانی تمام محدثین وفقہا کے ہاں بالاجماع جائز ہے کیونکہ:
حضور ﷺ نے قربانی کے دن دو خصی دنبے ذبح کئے۔(سنن ابوداود 2795)
حضور ﷺ جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو موٹے سینگ دار چتکبرے خصی کئے ہوئے مینڈھوں کو خریدتے، ایک مینڈھا اپنی طرف سے اور ایک مینڈھا اپنی امت کی طرف سے قربانی کرتے۔(ابن ماجہ 3122)
بُو بکرا: جس بکرے کے گوشت میں پیشاب پینے کی وجہ سے بدبو پیدا ہوگئی ہو تو جب تک اس کے گوشت میں بدبو باقی رہے، اس کا گوشت مکروہ ہے، تاہم چوں کہ وہ دوسری صاف غذا بھی کھاتا ہے، اس لیے اگر اس کی قربانی کرلی گئی تو قربانی جائز ہوگی۔ پیشاب پینے والے بکرے کو اتنے دن تک، اس طرح باندھ کر رکھا جائے کہ وہ پیشاب نہ پی سکے اور اس کے گوشت کی بدبو ختم ہوجائے تو پھر اس کا گوشت کھانے میں کراہت نہیں ہوگی، اسی طرح اگر بدبو کو کسی حلال دوا وغیرہ کے ذریعے سے بھی دور کیا جاۓ تو بھی درست ہے۔
جانور پر سواری کرنا: رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو قربانی کا جانور لے جاتے دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر سوار ہو جا۔ اس شخص نے کہا کہ یہ تو قربانی کا جانور ہے، آپﷺنے فرمایا کہ اس پر سوار ہو جانا۔ اس نے کہا کہ یہ تو قربانی کا جانور ہے تو آپ ﷺ نے پھر فرمایا افسوس! سوار بھی ہو جاؤ۔(صحيح بخاری 1689) اسی طرح قربانی کے جانور کو سجانا، مہندی لگانا جائز ہے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general