اصل حقیقت

اصل حقیقت

کتاب: انصار کے مناقب، باب: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ میں امام بخاری نے پہلے یہ حدیث لکھی:
صحیح بخاری 3863: حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد ہم لوگ ہمیشہ عزت سے رہے۔
لطیفہ: دو نمبر دین والے اور شیطانی عالم اس کو بیان نہیں کریں گے بلکہ اس کے بعد والی حدیث پر زور دیں گے یعنی
صحیح بخاری 3864 : حضرت عبداللہ بن عمر نے بیان کیا کہ حضرت عمر ڈرے ہوئے گھر میں بیٹھے تھے (بينما هو في الدار خائفا) کہ ابوعمرو عاص بن وائل سہمی اندر آیا ۔۔۔ وہ قبیلہ بنو سہم سے تھا جو زمانہ جاہلیت میں ہمارے حلیف تھے۔ عاص نے حضرت عمر سے کہا کیا مسئلہ ہے؟ حضرت عمر نے کہا تمہاری قوم میرے اسلام لانے پر مجھے قتل کرنا چاہتی ہے (کیونکہ اسلام لا چُکے تھے)۔ عاص نے کہا ”تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا“ ‪۔۔‬
اصل وجہ: حضرت عمر حضور کے پاس آئے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں نے کافروں کی کوئی مجلس نہیں چھوڑی جس میں اسلام کا اعلان نہ کیا ہو، میں مسجد میں آیا تو اس میں قریش کا حلقہ کی صورت میں گروپ موجود تھا، میں وہاں اسلام کا اظہار کرنے لگا، توحید و رسالت کی گواہی دینے لگا، وہ اس کو مارنے لگے اور اور وہ ان کو مارنے لگے، جب یہ بہت زیادہ ہو گیا تو ایک آدمی نے آ کر بچایا، راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر سے پوچھا کہ وہ کون تھا جس نے آپ کو مشرکین سے بچایا؟ فرمانے لگے وہ عاص بن وائل سہمی تھے۔( المعجم الاوسط 1293)
نتیجہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وجہ سے اسلام کو عزت مل رہی تھی اور وہ بے دھڑک ہر محفل میں اپنے ایمان کا اعلان کر رہے تھے، اسی دوران میں ایک گروپ سے اکیلے لڑ پڑے اور پھر بیچ بچاو کروانے والا عاص بن وائل السہمی تھا اور ایام جاہلیت میں حضرت عمر کے قبیلے کا ساتھ دینے کا ان کا معاہدہ تھا۔ اسلئے اس نے کہا کہ اسکو کچھ نہیں کہنا یعنی حضرت عمر کو اپنی امان میں لے لیا جیسے نبی کریم ﷺ نے امان کے متعلق فرمایا:
ابن ماجہ 150 : ۔۔ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کفار کی ایذا رسانیوں سے آپ کے چچا ابوطالب کے ذریعہ آپ کو بچایا، اور حضرت ابوبکر کو ان کی قوم کے سبب محفوظ رکھا، رہے باقی لوگ تو ان کو مشرکین نے پکڑا اور لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں ڈال دیا، چنانچہ ان میں سے ہر ایک سے مشرکین نے جو کہلوایا بظاہر کہہ دیا، سوائے بلال کے، اللہ کی راہ میں انہوں نے اپنی جان کو حقیر سمجھا، اور ان کی قوم نے بھی ان کو حقیر جانا، چنانچہ انہوں نے حضرت بلال کو پکڑ کر بچوں کے حوالہ کر دیا، وہ ان کو مکہ کی گھاٹیوں میں گھسیٹتے پھرتے اور وہ اَحَد، اَحَد کہتے (یعنی اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے)۔
خائفا: حضرت عمر ڈرے ہوئے نہیں تھے بلکہ لڑ کر آئے ہوئے تھے اور اب مزید لڑنے کی تیاری میں تھے اور پوری پلاننگ کر رہے تھے، ڈرے ہوئے تو مشرکین مکہ تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضرت عمر کیا کیا کر سکتے ہیں۔ عاص بن وائل نے خود تعلق نبھانے کی خاطر حضرت عمر کو امان دی ورنہ حضرت عمر کی ڈیمانڈ “امان” نہیں تھی۔
قانونی کاروائی: یہ امان دینا ایک مکہ والوں کی قانونی کاروائی ہوتی تھی اور جو مکہ چھوڑ کر جاتا تو واپسی پر اسے کسی کی امان لینی ہوتی تھی جیسے حضور ﷺ مکہ چھوڑ کر طائف کی بستی گئے اور واپسی پر کیا ہوا: واقعہ: رسول اللہ ﷺ وہاں سے روانہ ہوئے اور مکے کے قریب پہنچ کر کوہِ حَرا کے دامن میں ٹھہر گئے، پھر خزاعہ کے ایک آدمی کے ذریعے اخنس بن شریق کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ آپ ﷺ کو پناہ دے دے۔ مگر اخنس نے یہ کہہ کر معذرت کردی کہ میں حلیف ہوں اور حلیف پناہ دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے سہل بن عمرو کے پاس یہی پیغام بھیجا، مگر اس نے بھی یہ کہہ کر معذرت کردی کہ بنی عامر کی دی ہوئی پناہ بنوکعب پر لاگو نہیں ہوتی۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے مطعم بن عدی کے پاس پیغام بھیجا۔ مطعم نے کہا :ہاں اور پھر ہتھیار پہن کر اپنے بیٹوں اور قوم کے لوگوں کو بلایا اور کہا تم لوگ ہتھیار باندھ کر خانہ کعبہ کے گوشوں پر جمع ہوجا ؤ۔ کیونکہ میں نے محمد (ﷺ)کو پناہ دے دی ہے۔
اس کے بعدمطعم نے رسول اللہ ﷺکے پاس پیغام بھیجا کہ مکے کے اندر آجاؤ۔ آپﷺ پیغام پانے کے بعد حضرت زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ کو ہمراہ لے کر مکہ تشریف لائے ، اور مسجد حرام میں داخل ہوگئے۔ اس کے بعد مطعم بن عدی نے اپنی سواری پر کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ قریش کے لوگو ! میں نے محمد (ﷺ)کو پناہ دے دی ہے۔ اب اسے کوئی نہ چھیڑے۔ ادھر رسول اللہ ﷺ سیدھے حجرِ اسود کے پاس پہنچے اسے چوما، پھر دورکعت نماز پڑھی، اور اپنے گھر کو پلٹ آئے، اس دوران مطعم بن عدی اور ان کے لڑکوں نے ہتھیار بند ہوکر آپ ﷺ کے ارد گرد حلقہ باندھے رکھاتا آنکہ آپ ﷺ اپنے مکان کے اندر تشریف لے گئے۔کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر ابو جہل نے مطعم سے پوچھا تھا کہ تم نے پناہ دی ہے یاپیروکار یعنی مسلمان بن گئے ہو؟ اور مطعم نے جواب دیا تھا کہ پناہ دی ہے اور اس جواب کو سن کر ابوجہل نے کہا تھا کہ جسے تم نے پناہ دی اسے ہ نے بھی پناہ دی۔(الرحیق المختوم – صفحہ 817)
احسان کا بدلہ: جب بدر کے قیدیوں کے بارے میں فیصلہ کرنا تھا کہ ان کو مار دینا چاہئے یا فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہئے تو اس وقت نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
صحیح بخاری 3139: اگر مطعم بن عدی (جو کفر کی حالت میں مر گئے تھے) زندہ ہوتے اور ان نجس، ناپاک لوگوں کی سفارش کرتے تو میں ان کی سفارش سے انہیں (فدیہ لیے بغیر) چھوڑ دیتا۔
حقیقت یہی ہے
مشرکین کی پریشانی: جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو مشرکین نے کہا آج کے دن ہماری قوم دو حصوں میں بٹ گئی ہے (اور آدھی رہ گئی ہے)۔ (الحاکم في المستدرک علي الصحيحين : 4494، الطبراني في المعجم الکبير : 11659)
ایسا کیوں نہ ہوتا
ترمذی 3681: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے اللہ! ان دونوں یعنی ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعہ اسلام کو طاقت و قوت عطا فرما“، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو ان دونوں میں سے عمر اللہ کے محبوب نکلے“۔
حضرت عمر کے ایمان لانے کی اہمیت:
ابن ماجہ 103: جب عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا: اے محمد! عمر کے قبول اسلام سے آسمان والے بہت ہی خوش ہوئے۔
صفائیاں: جن کا دین ہی اسلام نہیں، ایسی اہلتشیع جماعت اور ان کے ساتھ مرزا، مفتی، طاہری، طریقت والے لوگوں کو نہیں بلکہ اہلسنت کی عوام کے دل پڑھکر صاف ہونے چاہئے تاکہ وہ شیطانوں کے شر سے محفوظ رہیں اور صحابہ کرام کے متعلق کوئی شک نہ کریں۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general