بِیرمَعُونہ کے 70 مظلوم

بِیرمَعُونہ کے 70 مظلوم

دین اسلام کے لئے، دین پھیلانے کے لئے صرف سیدنا حسین کی شہادت نہیں ہوئی بلکہ ہر ایک اسلام کے داعی نے اپنا گھر بار چھوڑا، بیوی بیوہ کی، بچے یتیم کئے اور جنت حاصل کی۔ حضور ﷺ نے 70 قرا حضرات کا جو درد محسوس کیا وہ بھی درج ذیل ہے:
1۔ ماہ صفر 4 ھ، مکہ مکرمہ اور عسفان کے درمیان کنواں “بیر معونہ ” کے قریب چند مہاجرین کے علاوہ سَتَّر(70) ’’قُرَّاء‘‘ (حافظ قرآن) انصاری صحابہ رضی اللہ عنھم شہید ہوئے، جن سے حضورﷺ بڑی محبت کرتے تھے۔ یہ صحابہ کرام رات کا اکثر حصہ ذکر و تلاوت میں گزارتے اور دن کو حضور ﷺ کی بیویوں کے گھروں کی ضروریات یعنی لکڑی،پانی، وغیرہ پہنچایا کرتے تھے۔
2۔ عامر بن مالک، کنیت ابوبَراء، علاقہ ’’نَجد‘‘، حضور ﷺ کے پاس آیا، آپ نے اُسے اسلام کی دعوت دی مگر اُس نے ہاں یا نہ نہیں کیا بلکہ کہا کہ اپنے کچھ اصحاب اہل نجد کے پاس دعوت اسلام کے لئے بھیجیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اندیشہ ہے کہ میرے اَصحاب کو مَضَرَّت نہ پہنچے‘‘؛ مگر اُس شخص نے بہت زیادہ اطمینان دلایا، آپ ﷺ نے ستَّرصحابہ کو ہمراہ کر دیا اور بنو عامر کے رَئیس عامربن طُفیل جو عامر بن مالک کا بھتیجہ تھا ، اُس کو ایک خط مسلمان ہونے کا بھی لکھ دیا۔
3۔ ’’بِیرِمَعونہ‘‘ پہنچ کر حضرات عمرو بن اُمَیہ اور مُنذِر بن عَمرو رضی اللہ عنھما اونٹوں کو چَرانے لے گئے، حضرت حَرام رضی اللہ عنہ دو ساتھیوں کے ساتھ عامر بن طفیل کے پاس حضورﷺ کا خط دینے گئے، حضرت حرام رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تم دونوں یہیں ٹھہرو، مَیں آگے جاتا ہوں، اگر میرے ساتھ کوئی دَغا ہوا تو تم واپس چلے جانا۔
4۔ عامر بن طفیل، مسلمانوں کا دُشمن، اُس نے خط پڑھے بغیر، حضرت حرام رضی اللہ عنہ کونیز ہ مارا جو پار نکل گیا، حضرت حرام رضی اللہ عنہ’’فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ‘‘ (ربِّ کعبہ کی قَسم! مَیں تو کامیاب ہو گیا) کہہ کرشہاد ت پا گئے۔ عامر بن طفیل نے اپنے قبیلے کو آواز دی مگر انہوں نے عامر بن مالک (چچا) کی پناہ اور امان کی وجہ سے عامر بن طفیل (بھتیجہ) کا ساتھ نہ دیا۔ اُس نے بنو سلیم کے تین قبیلوں (عصبہ، رعل اور ذکوان) کو ساتھ ملا کر ستَّرصحابہ کو شہید کر دیا سوائے کعب بن زید رضی اللہ عنہ کے جن کو مُردہ سمجھ کرچھوڑگئے (جو غزوہ خندق تک حیات رہے)۔
5۔ اِن حضرات میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت عامر بن فُہیرہ رضی اللہ عنہ کو جَبَّار بن سُلْمیٰ نے بَُر چھا مار کرشہید کیا تو اُنھوں نے بھی کہا: ’’فُزْتُ وَاللہِ‘‘: خدا کی قَسم! مَیں کامیاب ہوا، جَبَّار بن سُلْمیٰ کہتا ہے مَیں نے دیکھا کہ اُن کی نعش آسمان کو اُڑی چلی گئی، مَیں بہت حیران ،اور مَیں نے بعد میں لوگوں سے پوچھا کہ وہ کامیابی کیا تھی؟ لوگوں نے بتایا کہ: وہ کامیابی جنت کی تھی، اِس پرمَیں مسلمان ہوگیا۔ (تاریخ خَمیس، 453/1، طبقات ابن سعد جلد 2 صفحہ 52 – 53 )
6۔ حضرت مُنذِراور عمرو رضی اللہ عنھما جو اونٹ چَرانے گئے ہوئے تھے، اُنھوں نے آسمان کی طرف دیکھا تو مُردار خور جانور اُڑ رہے تھے، واپس آئے، اپنے ساتھیوں کوشہید اور کافروں کو ان کے لاشوں کے پاس کھڑے دیکھا، دونوں آگے بڑھے اور میدان میں کُود گئے، حضرت منذر شہید اور حضرت عمرو بن اُمیہ گرفتار ہوئے لیکن جب بتایا گیا کہ ان کا تعلق قبیلہ مضر سے ہے تو عامر نے ان کی پیشانی کے بال کٹوا کر اپنی ماں کی طرف سے، جس پر ایک غلام آزاد کرنے کی منت تھی، ان کو آزاد کر دیا۔ حضرت عمرو بن امیہ نے واپسی پر اپنے ساتھیوں کا بدلہ لینے کے لئے بنو کلاب کے دو آدمی مارے حالانکہ ان کے پاس رسول اللہ کی طرف سے امان تھی مگر اس کا علم حضرت عمر کو نہیں تھا چنانچہ علم ہونے پر حضور ﷺ نے ان کی طرف سے دیت ادا کی۔
دُکھ: حضور ﷺ کو اس واقعہ کا اتنا شدید دُکھ تھا کہ آپ نے 30 دن تک نماز فجر میں بنو سلیم کے تین قبیلوں (عصبہ، رعل اور ذکوان) کے نام لے لے کر بد دُعا کی۔
حُکم الہی: سورہ ال عمران 128″ لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ اَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَاِنَّهُمْ ظٰلِمُوْنَ تشریح: آپ ﷺ بد دعا نہ کریں کیونکہ آپ کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں، یہ معاملہ اللہ کریم پر چھوڑ دیں، اللہ تعالی چاہے تو انہیں توبہ کی توفیق دے اور چاہے تو عذاب دے۔ یہ حضور ﷺ کی تربیت ہے جو رب العالمین نے خود فرمائی اور ہر جگہ کامل راہنمائی فرمائی۔
نتیجہ: اگر 72 ساتھی حضرت حُسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شہید ہوں یا 70 صحابہ، یہ سب اللہ کریم کی مرضی ہے، اور اللہ کریم جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے عذاب دے۔ لعنتیں اور بددعائیں دینا حضور ﷺ کی اب سنت نہیں بلکہ حکم الہی پر عمل ہونا چاہئے۔ ان 70 صحابہ کی بیوہ اور بچے بھی ہوں گئے تو کیا ان کا تاریخ نے کچھ بتایا کہ کن کن کے ساتھ نکاح ہوئے۔ مختار ثقفی نے قا تلین حسین رضی اللہ عنھم سے بدلہ لیا، اچھا کیا مگر کئی دفعہ دل میں خیال آتا ہے کہ بدلہ لیا یا قا تلوں کے نشان غائب کروائے تاکہ جھوٹے شیعہ راوی ابو مخنف کذاب کی تاریخ میں لکھی باتیں رہ جائیں اور حق بتانے والا کوئی نہ رہے۔
حوالے: (سیرت ابن ہشام، الرحیق المختوم، زاد المعاد، صحیح بخاری 4088، 4089، 4090، 4091، 4092، 4094، 4095، 4096 اور صحیح مسلم 1540 – 1558 کمنٹ سیکشن میں)
سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا حسین کی شہادت ایک منصوبے کے تحت تھی کیونکہ اُس وقت کوئی اہلتشیع دین نہیں تھا، کسی کا عقیدہ 14 اور 12 معصوم کا نہیں تھا۔ یہ تھیوری ایک سازشی ذہن اور غیر ملکی تھنک ٹینک کی ہے جس پر عمل کر کے اسلام کے خلاف ایک کالا جھنڈا تیار کر کے اوپر پنجہ لگا دیا۔ یہ قیصر و کسری کی فتوحات کا بدلہ ہے کہ سفید اسلام کو کالے اسلام میں بدلنے کی سازش ہے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general