فضائل سیدنا حسین

فضائل سیدنا حسین

اہلتشیع جماعت قرآن و سنت کی مُنکر ہے کیونکہ ان کی کتب اربعہ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ قرآن نامکمل ہے مگر اہلتشیع علماء عوام کو “عقیدہ تقیہ” کے تحت جھوٹ سکھاتے ہیں۔ دوسرا قرآن کی آیات کی شان نزول نہیں بتا سکتے کیونکہ احادیث نبوی کی کتب نہیں رکھتے یعنی منکر نبی ہیں، تعلیم نبوی رکھتے نہیں۔ اسلام کے خلاف ایک الگ دین بنایا گیا ہے جو کہ محقق آرام سے تحقیق کر سکتا ہے جیسے:
عقیدہ قرآن: اہلسنت کی کتب بتاتی ہیں کہ موجودہ قرآن حضرات ابوبکر و عثمان کی کاوش سے اکٹھا ہوا، حضرت عثمان نے تمام مصاحف جلا کر ایک قرآن امت کو دیا جس پر تمام صحابہ متفق ہو گئے اور ابن ماجہ 1944 یا حضرت عمر کی روایات سب صحابہ کے متفق ہونے پر دم توڑ گئیں۔ اُس کے بعد کسی مسلمان کا اس پر اعتراض نہیں۔
البتہ اہلتشیع جماعت کا بچہ بچہ مختلف بولیاں بولے گا اور اپنا اپنا کمنٹ تحقیق کے بغیر کرے گا لیکن کتب اربعہ سے ثابت نہیں کر سکتا کہ موجودہ قرآن جو حضرت عثمان نے اکٹھا کیا وہ حق ہے۔
عقیدہ نبوت: نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے کی بات اہلتشیع جماعت کرے گی مگر نبی کریم ﷺکی کونسی تعلیم کونسے اہلبیت و صحابہ کرام تک اہلتشیع جماعت تک پہنچی، کبھی نہیں بتا سکتے کیونکہ کربلہ تک “تقیہ تبرا بدا کے ساتھ 14 اور 12 عقیدے والے اہلتشیع” موجود نہیں تھے، اسلئے منکر نبی ہیں۔ اہلبیت کے لبادے میں منافقت کرتے ہیں۔
عقیدہ امامت: مولا علی نے امامت نہ کر کے اہلتشیع جماعت کا منہ کالا کیا ہوا ہے اور خلافت کر کے خلافت کے مُنکر اہلتشیع جماعت کو ذلیل کیا ہوا ہے۔ قرآن و اہلسنت کی کتب سے حوالہ دے کر مولا علی کو “امام” بنا کر مولا علی کی توہین کرتے ہیں۔ یہ جماعت نہ نبی کے ساتھ اور نہ مولا علی کے ساتھ۔ منگھڑت عقائد و نظریات رکھتی ہے۔
فضائل حضرت حسین رضی اللہ عنہ
حضرت حسنین رضی اللہ عنھما کی شان میں 60 احادیث کے راوی بھی صحابہ کرام ہیں جیسے حضرات عبداللہ بن عباس، جابر بن عبداللہ، سلمان فارسی، سیدہ فاطمہ، ابو رافع، علی، ام سلمہ، ابوجعفر، ابو معدل طفاوی، انس بن مالک، عبداللہ بن مسعود، مسیب بن نجبہ، ابوہریرہ، عقبہ بن عامر، ابو سعید خدری، سعد بن ابی وقاص، یزید بن ابو زیاد، یعلی بن مرہ، عبداللہ بن شداد، ابوبریدہ، اسامہ بن زید، براء بن عازب، زید بن ارقم، ابو ایوب انصاری، عمر بن خطاب، صفیہ بنت شیبہ، عبدالرحمن بن ابی نعم، عکرمہ، رضی اللہ عنھم سے روایت ہیں جن میں سے چند ایک احادیث یہ ہیں:
حضور ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے بیٹے کا نام حُسین نام رکھا (مستدرک حاکم 7734)
سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش پرحضور ﷺ نے عقیقہ کیا(ابو داود 2841)
سن وحُسین میرے گُلشن دنیا کے دو پھول ہیں (ترمذی 3770)
آیت تطہیر اور آیت مباہلہ میں بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ شامل ہیں (مسلم 6620، 6261)
حضور ﷺ نے فرمایا کہ فاطمہ کی اولاد میرے نسب میں شامل ہے (طبرانی 2631)
حسن و حسین سے محبت جنت کی ضمانت ہے (ترمذی 3733)
حسن و حسین سے لڑائی حضور ﷺ سے لڑائی (ترمذی 3870)
یا اللہ میں حسن و حسین سے محبت کرتا ہو ں تو بھی ان سے محبت فرما (ترمذی 3782)
جمعہ کا خطبہ چھوڑ کر حضور ﷺ نے حسن و حسین کو پکڑا (ترمذی 3774)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا نے حسن و حسین کو چاندی کے کنگن پہنائے تو حضور ﷺ نے ناپسند کیا، فرمایا: میں اہلبیت کیلئے دنیا پسند نہیں کرتا (ابوداود4213)
جنتی جوانوں کے سردار ہیں (ترمذی 3768)
حضرت حسن سر سے لے کر سینہ اور حضرت حسین سینہ سے لے کر پاؤں تک حضور ﷺ کی تصویر تھے (ترمذی 3779)
جوانی: حضور ﷺ کی احادیث سے یہ علم ہو سکا، اُس کے بعد یہ علم نہیں ہوا کہ حضور ﷺ کی وفات پر حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنھما کی کیا حالت تھی؟ حضور ﷺ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیسے ان کی پرورش کی؟ حضرت ابوبکر، عمررضی اللہ عنھما کے دور میں یہ دونوں بھائی کیا کرتے، کس غزوہ میں شریک ہوئے، ان سب باتوں کا علم نہیں سوائے اس بات کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت ان کے گھر کے باہر پہرہ دے رہے تھے۔
دورِ علی: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں جمل و صفین میں کارکردگی کیا کچھ نہیں معلوم، البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد فیصلہ کرنے والے حضرت حسن رضی اللہ عنہ تھے، اسلئے جس سے حضرت حسن نے صُلح کی اُس سے حضور ﷺ کی صُلح ہے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صُلح کر کے دینِ اسلام کو اکٹھا حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کیا جس پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی لبیک کہا۔
حضرت حُسین رضی اللہ عنہ نے جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دیا گیا، اُس وقت بھی بھائی کے پاس آئے مگر بھائی نے نہیں بتایا کہ مجھے زہر کس نے دیا حالانکہ اُن کو معلوم تھا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے حضرت حُسین رضی اللہ عنہ کی بیعت رہی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اپنے بیٹے کو نامزد کرنے کا تاریخی فیصلہ اور اُس کے بیٹے کے بعد میں کرتوت کو کسی بھی محدث، فقیہ اور مجتہد نے پسند نہیں کیا۔
شہادت: حضرت حُسین رضی اللہ عنہ کو شہید نہیں کیا گیا بلکہ حضور ﷺ کے دین کو شہید کیا گیا کیونکہ اُس کے بعد ایک نیا دین ایجاد کیا گیا جس کا تعلق حضور ﷺ، صحابہ کرام و اہلبیت، حضرات علی، فاطمہ، حسن و حسین رضی اللہ عنھما سے نہیں بلکہ بے دین اہلتشیع کی تین لاکھ روایات امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ہیں حالانکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے کے خلاف اسلئے تھے کہ وہ حضور ﷺ کے دین پر نہیں تھا مگر حضرت حسین کا دین اورنانا کا دین ایک تھا۔
ماتم: بدری، اُحد، حنین، حضرت عمر، عثمان، علی اور حسن رضی اللہ عنہ کا ما تم نہیں کیا جاتا کیوں؟ اسلئے کہ ان صحابہ و اہلبیت کے دین سے اہلتشیع کا کوئی تعلق نہیں، اسلئے یہ سب مسلمان ہی نہیں ہیں۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general