مائنس نبی فارمولہ

مائنس نبی فارمولہ

اہلسنت کے نزدیک حضورﷺ کے قول و فعل اور تقریر کا نام حدیث ہے مگر اہل تشیع حضرات حضور ﷺ کے اقوال، افعال و تقریرات سمیت بارہ ائمہ کے اقوال، افعال اور تقریرات کو بھی حدیث کہتے ہیں۔
اہل تشیع محققین کہتے ہیں کہ 12 ائمہ معصومین کے اقوال بھی دراصل آپ علیہ السلام کے فرمودات ہیں لیکن اس میں بھی شیطانی چال ہے کہ 12 ائمہ حضور ﷺ کی احادیث کے راوی نہیں ہیں بلکہ اہل تشیع حضرات ان کو معصوم، منصوص من اللہ مان کر ان کے اقوال کو حجت مان کر ان کی اتباع واجب جانتے ہیں۔
اہلتشیع کے 12 معصوم حضور ﷺ کی احادیث کے راوی نہیں ہیں بلکہ ان کے اقوال رسول اللہ ﷺ کے برابر ہیں۔ یہ کونسا اسلام ہے؟
2۔ مائنس پنجتن کیسے؟
اہلتشیع کی کتب اربعہ میں، نبی کریم ﷺ سے مروی صرف 92 احادیث، سیدہ فاطمہ سے مروی ایک بھی روایت نہیں ہے، سیدنا علی سے 690، سیدنا حسن سے 21 اور سیدنا حسین سے صرف 7 جبکہ کتب اہلسنت میں سیدہ فاطمہ سے 11، سیدنا علی سے 1583، سیدنا حسن سے 21 اور سیدنا حسین سے 43 روایات لی ہیں۔
یہ مائنس پنجتن اسلئے بھی ہے کہ اس وقت کوئی بھی 14 اور 12 کا عقیدہ کسی صحابی کا نہیں تھا اور نہ ہی خلافت کے مقابلے میں 12 امام کی بیعت کسی نے ان کے دور میں کی۔ اہلسنت کی کتابوں سے ہی مواد چوری کر کے اہلتشیع حضرات نے کتابیں ڈیزائن کی ہیں۔
3۔ مائنس صحابہ کرام فارمولہ
اہل سنت کے نزدیک "الصحابۃ کلہم عدول” فارمولے کے مطابق سب صحابہ کرام کی روایات قابل ِ قبول ہیں لیکن اہلتشیع حضرات صحابہ میں بھی عادل، فاسق، منافق، بدعتی اور دیگر اقسام موجود ہیں اور عادل صحابہ سے مراد وہ صحابہ ہیں جو سیدنا علی کے ساتھ کھڑے رہے۔
سوال: وہ کتنے اور کونسے صحابہ ہیں جن کا عقیدہ 14 اور 12 کا تھا اور جو ہمیشہ سیدنا علی کے ساتھ رہے کیونکہ باقی صحابہ کرام تو اہلتشیع کے نزدیک مسلمان ہی نہ رہے۔
4۔ مائنس راویان ِحدیث صحابہ کرام
اہلسنت کے نزدیک راویان ِحدیث صحابہ کی تعداد 5000 کے قریب ہے۔ دوسرا کم بھی کر لیں تو راویان ِحدیث صحابہ کی تعداد 2000 یا 1500 ہے۔ اہل تشیع حضرات اگر صرف مولا علی کے ساتھ کھڑے صحابہ کرام سے روایات لیتے ہیں تو کونسے 14 اور 12 عقیدے والے صحابہ سے روایات اہل تشیع نے لیں کیونکہ 99% صحابہ کرام تو اہلتشیع کے نزدیک صحابہ ہی نہ ٹھرے، جن میں مکثرین صحابہ حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عائشہ جیسی شخصیات بھی شامل ہیں۔
5۔ مائنس حضور ﷺ یعنی تعلیم نبوی
اہلتیشع کی کتب اربعہ میں نبی کریم ﷺ کے قولی، فعلی یا دور نبوت کا کوئی واقعہ کی تعداد کچھ یوں ہے:
1۔ الکافی(دار الحدیث للنشر و الطباعۃ ،قم) کی پہلی جلد، 758 روایات، جن میں خواہ قولی ہو یا فعلی یا دور ِنبوت کا کوئی بھی واقعہ، اس کی تعداد 45 احتیاطا 50 کر لیں یعنی اس جلد کی کل روایات کا صرف %7 ہے۔
2۔ من لا یحضرہ الفقیہ (موسسہ الاعلمی للمطبوعات) کی پہلی جلد میں 1573 روایات، مرفوع (قولی و فعلی) 141 روایات، احتیاطا 150، تو %10 بنتا ہے۔
3۔ تہذیب الااحکام (دار الکتب الاسلامیہ، تہران) کی پہلی جلد، 1541 روایات، مرفوع (قولی و فعلی) 95 روایات، احتیاطا 100، پہلی جلد کا %7۔
4۔ الاستبصار فیما اختلف من الاخبار (دار الاضواء، بیروت) کی پہلی جلد،1885 روایات، مرفوع روایات (قولی و فعلی) 55، احتیاطا 60، کل روایات کا %3۔
نتیجہ: کتب اربعہ کی پہلی چار جلدوں کی کل روایات 5757، مرفوع روایات (قولی، فعلی) صرف 360 یعنی 5757 روایات کا تقریبا ساڑھے چھ فیصد، ان میں اگر مکررات کو نکال لیا جائے تو تعداد اس سے بھی کم بنے گی۔ (اگر کسی اہلتشیع صاحب کو غلط لگے تو پلیز اپنی کتب کا لنک دیں تاکہ پڑھ سکیں ورنہ انکار نہ کریں)
6۔ مائنس احادیث کی کتابیں
اہلسنت کے پاس صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین کے 456 مجموعات احادیث کا ریکارڈ ڈاکٹر مصطفی اعظمی کی کتاب "دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ ” میں بتایا ہے۔ دوسرا پہلی صدی ہجری کےاختتام تک امام مالک کی موطا، امام ابو یوسف و امام محمد کی کتاب الاثار اور دیگر کتب مرتب ہوئیں۔ اس کے علاوہ محدث خطیب بغدادی نے اپنی کتاب "الرحلہ فی طلب الحدیث” میں حرمین شریفین، عراق، شام، مصر اور یمن میں حدیث کے معروف شیوخ کی درسگاہوں کی تفصیل دی ہے جہاں طالب علموں کو احادیث کی تعلیم دی جاتی تھی۔
تیسری و چوتھی ہجری میں شیعہ کتب ِحدیث کے اولین مصادر جیسے بصائر الدرجات (ابو الحسن الصفار قمی متوفی 290ھ) اور الکافی ( محمد بن یعقوب الکلینی متوفی 329 ھ) کی لکھی گئیں جب کہ خلافت راشدہ، بنو امیہ اور عباسی خلیفہ المعتمد باللہ (256 – 279ھ) تک سیدنا علی کی شہادت 40ھ تقریباً، سیدنا حسن (3 – 49ھ)، سیدنا حُسین (4 – 61)، سیدنا زین العابدین (38 – 95)، سیدنا باقر (57 – 114)، سیدنا جعفر (82 – 148)، سیدنا موسی (128 – 183)، سیدنا علی (148 – 203)، محمد تقی (195 – 220)، سیدنا علی نقی (212 – 254)، سیدنا حسن عسکری (232 – 260ھ) تشریف لائے۔
سوال: 300 سال تک 14 اور 12 کا عقیدہ رکھنے والوں کی کوئی احادیث کی کتب نہیں تھیں اور نہ ہی ان کی درسگاہیں تھیں۔ تو 12 امام جو سارے کے سارے مدینہ منورہ میں ہوئے ان سے روایات کس صحابی و تابعی نے لیں؟
اہلتشیع کا شیطانی جواب بھی غلط ہوا؟؟
شیعہ رجال حدیث پر سب سے ضخیم کتاب لکھنے والے معروف عراقی شیعہ محدث امام خوئی لکھتے ہیں: کہ ائمہ کے تلامذہ نے اگرچہ حدیث کی حفاظت اور اس کو ضیاع سے بچانے کے لئے ائمہ کے حکم کے مطابق اپنی پوری کوششیں صرف کیں لیکن وہ تقیہ کے زمانے میں تھے، جس کی وجہ سے احادیث کو علانیہ نشر کرنے پر قدرت نہ رکھتے تھے۔
امام خوئی کی اس بات پر الکافی و دیگر کتب کی روایات بھی دلالت کرتی ہیں، چنانچہ الکافی میں امام جواد کی روایت ہے کہ ان سے ان کے ایک شاگرد محمد بن حسن نے پوچھا: کہ میں نے امام جواد سے پو چھا کہ ہمارے مشائخ نے امام باقر و امام جعفر صادق سے روایات لیں، جبکہ سخت تقیہ کا زمانہ تھا، تو انہوں نے اپنی کتب چھپائیں اور انہیں سر عام روایت نہیں کیا ،جب وہ مشائخ مرگئے، اب وہ کتب ہمارے پاس ہیں تو امام نے کہا کہ ان کتب کی روایات بیان کرو کیونکہ وہ سچی ہیں۔ (الکافی، 1/53)
شیعہ محدث اور اس کے باپ کا علم نہیں؟
حیرت ہے کہ شیعہ کے سب سے بڑے محدث جنہوں نے 16000 روایات کو مدون کیا یعنی اولین کتاب الکافی کے مصنف محمد بن یعقوب الکلینی کی اولین زندگی کی تاریخ مجہول ہے۔ معروف شیعہ محقق شیخ عبد الرسول عبد الحسن الغفار اپنی ضخیم کتاب "الکلینی و الکافی” میں لکھتے ہیں: یعنی قدیم و جدید مصادر متفقہ طور پر کلینی کا سن ولادت، مکان ولادت اور عمر کے ذکر سے خالی ہیں کیونکہ آپ کی زندگی کا اولین دور اور نشو ونما نا معلوم ہے۔ (الکلینی و الکافی ص 123)
دوسری جگہ لکھتے ہیں: یعنی صرف شیخ کلینی کے ہی اولین احوال نامعلوم نہیں ہیں بلکہ ان کے والد یعقوب بن اسحاق، جن کا مقبرہ آج کل مزار عام ہے، ان کی سیرت کے بارے میں تاریخ ہمیں زیادہ تفصیلات نہیں بتاتی۔ (الکلینی و الکافی، ص 159 – 160)
تیسری جگہ لکھتے ہیں: کلینی کب بغداد آئے، کب اور کس شہر کی طرف اسفار کئے، یہ سب امور پردہ خفا میں ہیں۔ (الکلینی و الکافی ص 162)
چوتھی جگہ لکھتے ہیں: یہی وجہ ہے شیخ کلینی کا تذکرہ ہمیں چھٹی صدی ہجری کے ابن عساکر، ساتویں صدی ہجری کے ابن اثیر اور آٹھویں صدی ہجری کے علامہ ذہبی کے ہاں ذرا تفصیل سے ملتا ہے۔ (الکلینی و الکافی ص 164)
اب راز کی بات بھی سُن لیں
صرف شیخ کلینی نہیں بلکہ مرکز بحوث قم سے الکافی کا محقق شدہ نسخہ، جو محققین کی ایک جماعت کی تحقیق کے ساتھ چھپا ہے، اس کے ضخیم مقدمے میں کتاب کے محققین لکھتے ہیں: یعنی شیعہ کے اکابر ین کی زندگیاں بوجوہ پردہ خفا میں ہیں، اس راز کو کھولنے میں ابھی تک بحث و تحقیق کے دروازے بند ہیں کیونکہ ان زندگیوں پر دلالت کرنے والا مواد موجود نہیں ہے، خصوصا پانچویں صدی میں شیعہ مکتبات کو جلانے کے بعد یہ مواد ختم ہوگیا۔ (الکافی، 31/1)
بے بنیاد دین: اہلتشیع کونسا دین ہے جن کی کتابوں کا دور دور تک علم نہیں بلکہ محدثین کا بھی علم نہیں۔ کہاں یہ میٹیریل تیار کیا گیا، مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کے لئے یہ دین کس نے تیار کیا؟؟
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general