حضرات ابوذر غفاری اور عثمان رضی اللہ عنہما

حضرات ابوذر غفاری اور عثمان رضی اللہ عنہما

ن

اہلتشیع جماعت کا بچہ بچہ یہ کہے گا کہ حضرت ابوذر غفاری کو سیدنا عثمان نے شہر بدر کر دیا کیونکہ وہ حضرت علی کی امامت کو مانتے تھے حالانکہ حضرت علی نے امامت کی ہی نہیں، اسکےلئے اہلتشیع جماعت تاریخ الطبری میں سیف بن عمر (متہم بالکزب اور متروک راوی) کا بیان نقل کرتے ہیں:
جھوٹی روایت: حضرت امیر معاویہ اور حضرت ابوذر غفاری کے درمیان اختلاف ہوگیا تو حضرت معاویہ نے حضرت عثمان کی طرف پیغام بھیجا کہ حضرت ابوذر غفاری نے لوگوں کو ہم سے بدظن کرنا شروع کردیا ہے تو انہوں نے جواباََ پیغام بھجوایا کہ انہیں میرے پاس بھیج دو تو حضرت ابوذرغفاری کو حضرت عثمان کی طرف بھیج دیا گیا چنانچہ آپ نے انہیں ملامت کی تو وہ ربذہ کی طرف نکل گئے۔ (تاریخ الطبری 3/ 335)
اصل حقیقت: حضرت زید بن وہب نے کہا کہ میری مقام ربذہ میں حضرت ابوذر سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کیوں؟ فرمانے لگے میں مُلک شام میں تھا تو حضرت معاویہ سے ( قرآن کی اس آیت ) “ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ” پر میرا اختلاف ہو گیا۔ حضرت معاویہ کا کہنا یہ تھا کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور میں یہ کہتا تھا کہ اہل کتاب کے ساتھ ہمارے متعلق بھی یہ نازل ہوئی ہے۔ اس اختلاف کے نتیجہ میں میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخی پیدا ہوگئی چنانچہ انہوں نے سیدنا عثمان (خلیفۃ المسلمین) کو میری شکایت لکھی جس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مجھے مدینہ منورہ اپنے پاس بُلا لیا، یہاں لوگوں کا میرے پاس اس طرح ہجوم ہونے لگا جیسے انہوں نے مجھے پہلے دیکھا ہی نہ ہو، پھر جب میں نے لوگوں کے اس طرح اپنی طرف آنے کے متعلق حضرت عثمان سے عرض کی تو انہوں نے فرمایا کہ اگر مناسب سمجھو تو یہاں کا قیام چھوڑ کر مدینہ سے قریب ہی کہیں اور جگہ الگ قیام اختیار کرلو۔ یہی بات ہے جو مجھے یہاں ( ربذہ ) تک لے آئی ہے۔ اگر وہ میرے اوپر ایک حبشی کو بھی امیر مقرر کردیں تو میں اس کی بھی سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔(صحیح بخاری 1406)
رسول اللہ کا فرمان: حضرت عبداللہ بن صامت فرماتے ہیں : ام ذر نے کہا : حضرت عثمان نے حضرت ابوذر کو جلاوطن نہیں کیا تھا بلکہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو فرمایا تھا کہ جب عمارت پہاڑ کی دراڑ تک پہنچ جائے تو تم یہاں سے نکل جانا۔(مستدرک حاکم 5468) ابن سعد نے اس قصے کو جید سند کے ساتھ روایت کیا کہ جب وہ ربذہ کی طرف نکلے تو فرمایا : میں نے حضرت رسول اکرم ﷺ کو یہ فرماتے سنا : کہ آبادی سلع (مدینہ میں ایک پہاڑ ہے مسجد خندق کی پچھلی جانب ) تک پہنچ جائے تو یہاں سے نکل جانا ۔۔۔۔۔۔ (طبقات ابن سعد جلد 4/ 224)
حضرت ابو ذر سے جھوٹی روایت:
دو نوجوان حضرت عمر کے پاس آ کر کہنے لگے کہ اس شخص جس نے ہمارے باپ کو قتل کیا۔ اُس سے پوچھا تو اس نے واقعہ بیان کیا جس پر حضرت عمر نے فرمایا: اس کی سزا تو موت ہے۔اس نے عرض کیا: میں کچھ کام نپٹا کر آ جاوں گا۔ پوچھا: اس کی ضمانت کون دے گا کیونکہ اگر تو نہ پہنچا تو تیری جگہ ضمانتی اُڑا دیا جائے گا۔ اس پرحضرت ابو ذر نے ضمانت دی۔ اس نے تین دن کا وقت لیا اور چلا گیا ۔۔۔ آخری وقت ہوا، سب پریشان کہ حضرت ابوذر تو گئے تو اُس وقت وہ بندہ آ گیا وغیری وغیرہ
مذاق: یہ واقعہ محمد دیاب الاتلیدی (المتوفی بعد 1689 ء )نے اپنی کتاب «إعلام الناس بما وقع للبرامكة مع بني العباس» میں شرف الدين حسين بن ريان سے نقل کیا ہے ،لکھتے ہیں : قال شرف الدين حسين بن ريان: أغرب ما سمعته من الأخبار، وأعجب ما نقلته عن الأخيار، ممن كان يحضر مجلس عمر ۔۔۔۔ الخ محمد دیاب الاتلیدی جو (1100 ھ ) کو فوت ہوا ، اس نے اپنے سے چار سو سال پہلے کے راوی قاضی شرف الدین المتوفی سنة (702 ھ )سے نقل کیا ، اور اس راوی یعنی قاضی شرف الدین نے اپنے سے سات سو سال پہلے کے دور صحابہ کا واقعہ نقل کیا۔ یہ زبردست مذاق ہے۔
حضرت ابوذر کا تعلق قرآن و سنت سے ہے اسلئے اہلسنت کے ہیں اور منکر قرآن و سنت اہلتشیع کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں۔
1۔ جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ صورت و سیرت میں حضرت عیسیٰ علیہِ السَّلام کے مِثْل کو دیکھے تو وہ ابو ذَر کو دیکھ لے۔ (معجم کبیر: 1626)
2۔ ایک روایت کے مطابق نورِ اسلام کی کرنیں مکہ کی وادیوں سے نکل کر قبیلۂ غِفار تک پہنچیں تو حضرت ابوذر مکہ پاک حاضر ہوگئے لیکن کسی سے حضور اکرم ﷺ کے بارے میں پوچھ نہ سکے۔ حضرت سیّدنا علی آپ کو مسافر خیال کرکے گھر لائے (اور مہان نوازی کی)، اگلے دن پھر گھر لائے اور فرمایا: اس شہر میں آنے کا کیا مقصد ہے؟ آپ نے دل کا حال بیان کیا تو حضرت سیّدنا علی نے فرمایا: میرے پیچھے چلے آئیے، راستے میں کسی نے دیکھا اور خطرے کی کوئی بات ہوئی تومیں دیوار کی طرف رُخ کرلوں گا جیسے جوتا درست کررہا ہوں اور آپ آگے بڑھ جائیے گا، اس طرح آپ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، بیعت کی، قبولِ اسلام کے بعد کفار و مشرکین کی جانب سے اَذِیّتیں برداشت کیں۔ (صحیح بخاری: 3522 ملخصاً، مسلم: 6359)
3۔اپنے قبیلے میں لوٹ آئے، پھر غزوۂ خندق کے بعد ہجرت کرکے مدینے تشریف لائے اور اَہلِ صُفّہ میں شامل ہوگئے۔ (طبقات ابن سعد، ج 4، ص 170، ج 1، ص 197)
4۔ شوقِ عبادت قبولِ اسلام سے پہلےتین سال تک رات بھرکھڑے ہوکر خدائے واحد کی عبادت کرتے رہے یہاں تک کہ رات کے آخِری حصّے میں (تھک کر) زمین پر گِرجاتے۔ (مکمل صحیح مسلم: 6359 سے 6362 تک پڑھیں)
5۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آسمان نے کسی پر سایہ نہیں کیا اور نہ زمین نے کسی کو پناہ دی جو ابوذر سے – جو عیسیٰ بن مریم کے مشابہ ہیں – زیادہ زبان کا سچا اور اس کا پاس و لحاظ رکھنے والا ہو (ترمذی 3802)
6۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت گزاری کرتے، فارغ ہوتے تو مسجد میں آجاتے اور آرام کرتے۔ (مسند احمد: 27659)
7۔ رسول اللہ ﷺ نے آخری لمحات میں آپ کو بُلوایا، محبت میں محبوب کے اوپر جُھک گئے تو رسول اللہ ﷺنے بھی آپ کا ہاتھ اپنے جسم ِاَطْہر کے ساتھ چمٹالیا۔(مسند احمد: 21499)
8۔ ایک شخص نے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے پاس حاضر ہوکر کچھ مال پیش کیا تو آپ نے فرمایا: میرے پاس دودھ کے لئے ایک بکری، سُواری کے لئے گدھا، خدمت کے لئے بیوی ہے اور ایک چادر ضرورت سے زائد ہے جس کی وجہ سے خوف زدہ ہوں کہ کہیں مجھ سے اس کا حساب نہ لے لیا جائے۔ (معجم کبیر: 1631)
9۔ ‪ ‬تنہائی پسند غزوۂ تبوک کے سفر میں آپ سب سے الگ چل رہے تھے۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے ابو ذر! تم تنہا چلو گے، تنہا مروگے اور تنہا ہی اُٹھائے جاؤ گے۔ (مغازی للواقدی، ج 3، ص 1000)
10۔ آپ وعدہ نبھاتے، وَصِیّت پوری فرماتے، لوگوں سے بلا ضرورت میل جول رکھنے سے کتراتے، حق بات بیان کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف زدہ نہ ہوتے اور نہ ہی حکمرانوں اور بادشاہوں کے رُعب و دبدبہ سے گھبراتے، ہر طرح کی مَشَقّتوں اور تکلیفوں میں بھی دین پر ثابت قدم رہے۔ (حلیۃ الاولیاء،ج1،ص210)
وفات: بوقتِ وصال، آپ کی بیوی، حضرت اُمِّ ذَر، رونے لگیں تو پوچھا: کیوں رورہی ہو؟ عرض کی: میرے پاس اتنا کپڑا نہیں ہے کہ آپ کو کفن دے سکوں، آپ نے فرمایا: ایک مرتبہ ہم چند افراد سے رسولُ اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: تم لوگوں میں سے ایک شخص کی موت ویرانے میں ہوگی اور اس کے جنازے میں مسلمانوں کی ایک جماعت حاضر ہوگی۔ پھر حضرت ابوذر نے فرمایا: اس وقت وہاں موجود تمام لوگ کسی نہ کسی شہر یا گاؤں میں انتقال کرچکے ہیں اب میں ہی ان میں سے باقی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں ہی وہ شخص ہوں، لہٰذا اب تم باہر جاکر دیکھو مسلمانوں کی کوئی نہ کوئی جماعت ضرور آتی ہوگی۔ حضرت اُمِّ ذر باہر راستے پر انتظار کررہی تھیں کہ ایک قافِلے کے آثار نظر آئے۔ قافلہ قریب آیا تو حضرت اُمِّ ذَر نے فرمایا: ایک مسلمان اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے تم اس کے کفن دفن کا بندوبست کرو، قافلے والوں نے پوچھا: وہ کون ہے؟ فرمایا: صحابیِ رسول حضرت ابو ذر غفاری، یہ سُنتے ہی قافلے والے بےچین و بےقرارہوگئے اور بے تابانہ آپ کے پاس پہنچے، آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے انہیں چند وصیتیں کیں اور اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔ ایک قول کے مطابق اس قافلے میں موجود صحابیِ رسول حضرت عبدُ اللہ بن مسعود رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ (اسد الغابہ،ج 1،ص442 ملخصاً)حضرت سیّدنا ابو ذر غفاری رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا وِصال مبارک سِن 32 ہجری میں ہوا۔
احادیث: آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے281 احادیث اُمّتِ مُسلِمہ تک پہنچائی ہیں۔ (تہذیب الاسماء، ج 2،ص 513)
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general